• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی دماغ کے تین حصے ہیں ۔1۔ زندگی برقرار رکھنے والا حصہ ۔ دوسرا حصہ جذبات سے متعلق ہے ۔ممتا، انتقام اور دیگر سب جذبات اس درمیان والے حصے میں ہوتے ہیں ۔ تیسرا حصہ وہ ہے ،جس میں عقل ہوتی ہے ۔اگر یہ حصہ غالب ہو تو انسان کبھی گھاٹے کا سودا نہ کرے ۔ افسوس مگر اس بات کا ہے کہ جذبات والا حصہ غالب آجاتا اور عقل مند انہ فیصلہ کرنے نہیں دیتا۔ دنیا کے زیادہ تر انسانوں کا المیہ یہی ہے ۔

بڑی بڑی عالمی طاقتیں جب فیصلے کرتی ہیں تو جذبات غالب ہوتےہیں۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان میں 23ہزار ارب ڈالر خر چ کئے بلکہ ضائع ۔ اس کے ہاتھ میں ناکامی ہی آئی۔ ملا عمر کی حکومت گرانے کے بعد اس رقم کا دسواں حصہ اگر سلیقے سے استعمال کیا جاتاتو تمام امریکی اہداف حاصل کئے جا سکتے تھے ۔دنیا کے سامنے سبکی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑتا ۔23ہزار ارب ڈالر بہت بڑی رقم ہے ۔126ارب ڈالر پاکستان کا کل بیرونی قرض ہے ۔فروری 2024ء تک پاکستان نے 22ارب ڈالر عالمی اداروں کو ادا کرنا ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ چند ارب ڈالر قرض کیلئے پاکستان مہینوں آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑتا رہا ۔

یہ کوئی واحد مثال نہیں ۔ بڑی بڑی عالمی جنگیں انسان نے جذبات کا شکار ہو کر لڑیں۔پوری دنیا میں بچے یتیم ہوئے اور معیشتیں تباہ ۔ اس کے باوجود جوش و جذبے سے پاگل اقوام دیوانہ وار ایک دوسرے کو تباہ کرنے میں جتی رہیں ۔

مستثنیات کے سوا انسان کبھی دیر پا عقل سے کام نہیں لیتا۔ اس کے تمام فیصلے وقتی جذبات کے زیرِ اثر ہوتے ہیں ۔اپریل 2022ء میں نون لیگ، پیپلزپارٹی ، مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر سیاسی جماعتوں نے مل کر عمران خا ن کی حکومت کیوں گرائی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے اور عام انتخابات کا انتظار کرتے تو کس قدر فائدے میں رہتے ۔ اس صورت میں گزشتہ سواسال میں پیٹرول کی قیمت میں سو روپے سے بھی زیادہ اضافے کا قدم عمران خان کی حکومت کو اٹھانا پڑتا اور وہی تمام تر نا مقبولیت کا ہدف بنتے۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے صرف ایک دفعہ تیل کی قیمت 12روپے بڑھائی تھی۔ اس پر تحریکِ انصاف کو اس قدر لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کی سوشل میڈیا ٹیم نے ہاتھ کھڑے کر لئے۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ قوم عمران خا ن کے ساڑھے تین سال بھول چکی ہے ۔تمام غیر مقبول فیصلے کرنے کے بعد پی ڈی ا یم کی حکومت اس قدر بدنام ہوچکی کہ ملکی سطح پر دشنام کا ہدف ہے ۔ تحریکِ انصاف لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ اس کے آخری سال ترقی کی شرح 6فیصد کو جا پہنچی تھی ۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ عمران خان کو ستر فیصد تک عوامی تائید حاصل ہے اور یہ بڑھتی جا رہی ہے ۔تحریکِ انصاف عوام کویہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ وہ بیرونِ ملک سے برپا کی گئی ایک سازش کا نشانہ ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی، نون لیگ اور جمعیت علمائِ اسلام سمیت وہ ساری سیاسی جماعتیں جو کبھی ایک نہ ہو سکتی تھیں، انہیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پہ کس صفائی کے ساتھ یکجا کر دیا گیا ۔

تحریکِ انصاف عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ اگر اس کی حکومت قائم رہتی تومعاشی حالات آج کہیں بہتر ہوتے ۔ ان کے مطابق عالمی ادارے گواہ ہیں کہ کورونا کو پاکستان نے انتہائی کامیابی سے ڈیل کیا ۔سچ اگرچہ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت نے کورونا کو کوئی خاص ڈیل کیا ہی نہیں اور نہ پاکستانی عوام نے کوئی احتیاط کی۔ ہوا دراصل یہ کہ قدرتی طور پر پاکستان میں کورونا سے تباہی انتہائی کم نازل ہوئی ۔بہرحال قدرتی طور پر کورونا کی کم تباہی کا سہرا بھی عمران خان کی حکومت کے سر سج گیا ۔جہاں تک سائفر کا تعلق ہے ، وزیرِ اعظم کے قریبی لوگوں کو گواہ بنانے سے کچھ حاصل نہیں ہونے کا ۔نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی دو میٹنگز میں عسکری حکام نے بھی بیرونی مداخلت تسلیم کر لی تھی ۔پہلی میٹنگ میں اس وقت کی اپوزیشن نے شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔دوسری میٹنگ 22اپریل 2022ء کو شہبا زشریف کی حکومت بننے کے بعد بلائی گئی ۔ سروسز چیفس اس میں شریک ہوئے ۔ یہ طے ہوا کہ شہباز شریف کی منظور ی کے بعد یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا ۔31مارچ 2022ء کو اسی کمیٹی کی پہلی میٹنگ وزیرِ اعظم عمران خا ن کی سربراہی میں ہوئی تھی ۔نیشنل سیکورٹی ایڈوائز ڈاکٹر معیدیوسف نے سول اور عسکری حکام کو معاملے پر بریفنگ دی تھی۔

یہ سب وہ چیزیں ہیں ، جو ریکارڈ کا حصہ ہیں۔جہاں تک میرا محدود علم بتاتا ہے ، ریاستی سختیوں سے تحریکِ انصاف جیسی جماعتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں ۔ الٹا ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔عمران خا ن کی مقبولیت ختم کرنے کا واحد راستہ یہی تھا کہ ان کی حکومت پوری ہونے دی جاتی ۔پی ڈی ایم کی حکومت نے تیل کی قیمت میں اضافے سمیت جو سارے نامقبول فیصلے اپنے اوپر لئے ، وہ عمران خان کو کرنا پڑتے تو وہ ختم ہو جاتے ۔عمرا ن خان جب ڈلیور نہ کر پاتے تو مقبولیت ختم ہو جاتی ۔موجودہ صورتِ حال میں الٹا عمران خان مظلوم بن کے ابھرے ہیں ۔اب یہ کون سی حکمت تھی، جس میں ایک سال کے سارے تکلیف دہ فیصلے پی ڈی ایم نے عمران خان کے سر سے لے کر اپنے سر لے لئے ، یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔سوائے اس کے کہ وہ جذبات کے زیرِ اثر تھے ۔جذبات کے زیرِ اثر ایسے ہی فیصلے ہوتے ہیں ۔

تازہ ترین