• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

موجودہ ڈیجیٹل مردم شماری کی وجہ سے پورا سندھ شدید مضطرب ہے،اس سلسلے میں سندھ کے متعدد محققین،دانشور،سیاسی رہنما،خاص طور پر سندھ کی ساری قوم پرست جماعتوں کے رہنمائوں بشمول سندھ کی حکمراں پارٹی پیپلز پارٹی کے رہنما سندھ کے وزیر اعلیٰ اب تک جاری مردم شماری پر جو اعتراضات کرتے رہے ہیں ان کا ذکر میں گزشتہ کالموں میں کرچکا ہوں، یہ سب اس مردم شماری پر اس حد تک مضطرب ہیں کہ انہوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر واضح کردیا ہے کہ اگر ان کے اعتراضات کا مداوا کئے بغیر مردم شماری کے نتائج تسلیم کئے گئے تو وہ اس مردم شماری کو قبول نہیں کریں گے اور سندھ بھر میں اس کے خلاف عوامی ا حتجاج شروع کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔اس دوران 16جولائی کے اخبارات میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت 2023ء کی مردم شماری کو نوٹیفائی نہیں کرے گی اور آئندہ انتخابات 2017ء کی مردم شماری کے نتائج کے تحت کرائے جائیں گے، حکومت کے اس اعلان کے بعد سندھ کے محققین اور سیاسی رہنمائوں کے اضطراب میں کسی حد تک کمی آئی ہے مگر سندھ کے کچھ سیاسی حلقوں کو شک ہے کہ وفاقی حکومت اس فیصلے سے شاید پیچھے ہٹ جائے لہٰذا یہ حلقے حکومت کے اس اعلان سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہیں ، ان کی رائے ہے کہ حکومت فی الحال سندھ میں ہونے والے شدید ردعمل کو کسی حد تک کم کرنا چاہتی ہے جبکہ امکان ہے کہ وقت آنے پر انتخابات 2023ء کی مردم شماری کے مطابق کراکے سندھ کو ایک بار پھر ون یونٹ کی طرز پر کالونی کی حیثیت دی جائے گی لہٰذا ان حلقوں کا خیال ہے کہ ہمیں اپنی اس جدوجہد کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔ بہرحال میں اس کالم میں ان اعتراضات کو کسی حد تک پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ ملک بھر کے عوام کو معلوم ہوسکے کہ اس مردم شماری پر سندھ کے کیا اعتراضات ہیں۔ ان اعتراضات اور مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف مواقع پر پیش کئے گئے موقف میں کہا گیا ہے کہ ’’موجودہ مردم شماری 2017ء کی مردم شماری سے کہیں زیادہ متنازع بن چکی ہے کیونکہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹس ٹکس (پی بی ایس) نے سندھ کی مردم شماری کواس حد تک کم کیا ہے کہ یہ مردم شماری انتہائی ناپسندیدہ ہوگئی ہے اور سندھ کے لوگ اسے کسی طور پر قبول نہیں کرسکتے۔ (پی بی ایس) کی طرف سے الیکشن کمیشن کو اس مردم شماری کے جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں وہ جعلی ہیں لہٰذا ان اعداد و شمار کی بنیاد پر الیکشن کمیشن جو حلقہ بندی کرے گا وہ کسی کو بھی قبول نہیں ہوگی کیونکہ اس طرح کی حلقہ بندی نقلی بھی ہوگی اور متنازع بھی۔یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ مردم شماری ایک ایسا سبجیکٹ ہے جو آئین کے تحت فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ پارٹ 2میں شامل ہے، اس لسٹ کو کونسل آف کامن انٹرٹس (سی سی آئی) ہی کنٹرو ل کرتی ہے، اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ دوسری بار بھی وفاقی حکومت کے ایک ’’لائن ڈپارٹمنٹ‘‘ پی بی ایس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ملک کی قسمت کے ساتھ کھیل تماشہ کرے۔ سندھ کم سے کم جنوری 2022ء سے یعنی تقریباً گزشتہ 18ماہ سے اس بات پر شدید اعتراض کرتا رہا ہے کہ کیوں پی بی ایس جان بوجھ کر چھوٹے صوبوں کی آبادی کم گننے کی پالیسی پر گامزن ہے؟ اس ادارے نے سی سی آئی کے اختیارات سنبھالے اور فروری 2021ء کو سینسز ایڈوائزری کمیٹی کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا اس کمیٹی میں 5ملازم وفاقی حکومت کے شامل کئے گئے ہیں،5ماہرین اسلام آباد و پنجاب سے شامل کئے گئے، ایک پی بی ایس کا ریٹائرڈ ملازم اس کمیٹی میں شامل ہے اور بلوچستان اور خیبر پختوانخوا صوبوں سے ایک ایک ممبر شامل کیا گیا جبکہ اس کمیٹی میں سندھ کا کوئی نمائندہ شامل نہیں کیا گیا۔ قواعد کے مطابق آبادی گننے سے پہلے گھروں کی گنتی کی جاتی ہے مگر اس بارایسا نہیں ہے، اب ا س گنتی کو کون قبول کریگا؟۔

علاوہ ازیں کئی سال پہلے بنائے گئے بلاکوں کے نقشوں ،جن کودیمک نے چاٹ کر ناقابل استعمال بنادیا ہے، کوگھروں کی گنتی کے دوران استعمال کرنے کے علاوہ آبادی کی گنتی کی تاریخوں پر تاریخیں دینے کے طریقہ کار نے اس مردم شماری کو پوری قوم خاص طور پر صوبوں کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق بنادیا ہے، عام لوگ بھی اس قسم کے واقعات کا قہقہے مارتے ہوئے ذکر کرتے ہیں۔ سندھ کے اکثر محققوں کے مطابق اس قسم کی حرکتوں کے نتیجے میں سندھ کی آبادی تقریباً 3 کروڑ کم دکھائی گئی ہے، اس بات کی توثیق ایک سادہ سی گنتی سے بھی ہوجاتی ہے،کچھ محققوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سی سی آئی اس خطرناک معاملے کا نوٹس لے کہ کیسےکچھ لوگوں نے آپس میں مل کر قومی خزانے کے تقریباً 35 ارب روپے ضائع کردیئے ہیں۔ آئین کے تحت سی سی آئی کے فرائض میں اس قسم کی حرکتوں کی تحقیقات کرانا بھی شامل ہے۔ شروع سے سندھ کے محققین اور دانشوروں کو اندیشہ تھا کہ وفاقی ادارہ شماریات سندھ کی آبادی کم گنے گا،یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ سندھ کی آبادی انتہائی کم گنی گئی ہے لہٰذا موجودہ مردم شماری 2017 ء کی مردم شماری کے مقابلے میں کافی زیادہ متنازع بن گئی ہے۔ اس قسم کی شکایات بلوچستان اور کے پی کے صوبوں سے بھی آرہی ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین