• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہائے گرمی، ہائے گرمی…!!‘‘ ہرطرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ یوں لگتا ہے، سورج میاں غصّے میں آگ برسارہے ہیں۔ صبح ہوئی نہیں کہ درجۂ حرارت بڑھنا شروع ہوتا اور دن چڑھنے کے بعد تو بس ہی ہوجاتی ہے۔ انسان کیا،دھوپ سے آنگن، بالکونیاں، چھتیں، دَرو دیوار تک تپ جاتے ہیں، جب کہ شہری علاقوں میں چھوٹے گھروں اور فلیٹس میں تو گرمی کی شدّت کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتی ہےاور شام گئے تک بھی موسم کی شدّت میں کمی نہیں آتی۔

ویسے، گرمی ہو یا سردی، ہر موسم روئےزمین پر موجود زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ جہاں گرمی کی شدّت انسانوں کے لیے مشکل بن جاتی ہے، وہیں یہ فصلوں، پھلوں کے پکنے اور رزق تیار ہونے کا ذریعہ بنتی ہے۔ گاؤں دیہات میں لوگ، خصوصاً زراعت سے وابستہ افراد علی الصباح کام کا آغاز کر دیتے ہیں اور جب تک سورج نصف النہار پر پہنچتا ہے، ان کے بہت سے کام نمٹ چُکے ہوتے ہیں۔ اسی لیے دوپہر کے وقت اکثر دیہاتی گھنے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے گرمی کے مَن پسند پکوان، لسّی، چٹنی، سبزی، روٹی سے لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔ 

پھر شام ڈھلے بچاہوا کام نمٹا کر گھر لوٹتےہیں۔ گاؤں کے کچّی مٹی کے مکان، گھنے سایہ دار درخت، برآمدے، بیٹھکیں گرمی کی شدّت سے محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں ، توشاموں، راتوں کو پُرفسوں بھی بناتی ہیں۔ اس کے برعکس، شہری زندگی قدرے مختلف ہے۔ یہاں ملازمت کے اوقاتِ کار چھے سے آٹھ اور کہیں کہیں تو بارہ گھنٹے بھی ہوتے ہیں۔ شدید گرمی میں بائیک، رکشے، ٹیکسیوں یا بسز وغیرہ پر طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں۔ پسینہ، دھول مٹّی، آگ برساتا سورج، سب مل کر انسان کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں، مگر کیا کیا جائے کہ موسم کی شدّت اپنی جگہ، رزق کے لیے نکلنا توناگزیر ہی ہے۔ لیکن یاد رہے، ایسے سخت موسم میں اپنا اور خود سے وابستہ لوگوں کا خیال رکھنا بےحد ضروری ہے۔

ہلکے پھلکے ، دھیمے رنگوں کے سوتی پہناوے اپنائیں۔ دھوپ سے بچنے کے لیے سر ڈھکنے کا اہتمام کریں، ٹوپی، چادر، ہیٹ کوئی بھی چیز سر پر ضرور رکھیں تاکہ دھوپ ڈائریکٹ سر پر نہ لگے۔ دوپہر کے اوقات میں سفر سے بچیں، خاص طور پر طویل سفر سے۔ کہیں جانا بےحدضروری ہو ،تو شام کے اوقات یا سورج ڈھلنے کے بعد ہی جائیں۔ گوکہ صاف اور میٹھا پانی ایک نعمتِ غیر مترقبہ بن چُکا، اس کا حصول آسان نہیں رہا۔ لیکن کیا کریں کہ پانی کا زیادہ استعمال ہی گرمی سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل ہےکہ پسینہ زیادہ آنے کی وجہ سے جسم میں پانی اور خون میں موجود نمکیات کی کمی ہوجاتی ہے، جس سے خون میں الیکٹرولائٹس کا توازن بگڑجاتا ہے اورگُردوں کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے، لہٰذا اس سے بچنے کے لیے صاف اور ٹھنڈا پانی مناسب مقدار میں خود بھی پیئں اور بچّوں، بڑوں خصوصاً بوڑھوں کوبھی پلائیں۔نمکین لسّی(جس میں پانی کی مقدار زیادہ ہو) گرمی کا بہترین مشروب، غذا اور دوا بھی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ کاربونیٹیڈ مشروبات کے بجائے لسّی سے پیاس بجھائیں۔

اسی طرح گھر کے کم دھوپ اور ہوا دار کمرے میں دن کا زیادہ تر وقت گزاریں۔چھت میسّر ہے تو، چھت پر پودے لگائیں، رُوف گارڈن بنائیں، مصنوعی گھاس بچھائیں، کرسیاں یا چارپائی ڈال لیں اور گرمی کی رومان پرور شاموں اور راتوں کا لُطف اُٹھائیں، جب کہ فلیٹس کی بالکونی میں لگے پھول پودے، ہریالی آنکھوں کو خُوب بَھلی بھی لگتی ہے اور گرم موسم میں تازگی و فرحت کا احساس بھی دیتی ہے۔

گرمیوں میں ہلکا پُھلکا کھانا صحت کے لیے اچھا اور پکانے میں بھی آسان رہتا ہے۔ عقل مند خواتین گرمیوں میں سبزیاں اور دالیں زیادہ پکاتی ہیں۔ لوکی، بینگن یا زیرے کا رائتہ ذائقےدار بھی ہوتا ہے اور معدے کی گرمی بھی کم کرتا ہے۔ کوشش کریں کہ بالخصوص گرمیوں میں تلی ہوئی مرغّن غذائیں، فاسٹ فوڈ ز کی بجائے گھر کے بنے سادہ کھانے ہی کھائیں۔

نیز، الحمدُ للہ، پاکستان میں موسمِ گرما کے پھل بکثرت دست یاب ہیں۔ ہر سڑک کنارے سبزیوں، پھلوں سے بھرے ٹھیلےنظر آتے ہیں۔ آم، تربوز، جامن، آلوچے، خوبانیاں…کیا کہنے اللہ ربّ العالمین کی رحمتوں کے،تو حتی المقدور ان سے مستفید ہونے کی کوشش کریں۔ ہر موسم کی طرح موسمِ گرما بھی نعمت ہے، سو ہر وقت ’’ہائے گرمی، ہائے گرمی‘‘ کا شور مچانے کے بجائے اس موسم سے بھی لطف اندوز ہوں اور آتی سردیوں کی ٹھنڈک کا انتظار کریں۔