کسی بھی کام کے آغاز کا محرّک خواہش ہوتی ہے۔ نپولین کا کہنا ہے کہ ’’تمام کام یابیوں کی ابتدا خواہش ہی سے ہوتی ہے۔‘‘ خواہش جب پیدا ہوتی ہے، تو پھر وہ ٹک کر بیٹھنے نہیں دیتی۔ پھر وہ انسان سے وہ سب کچھ کرواتی ہے، جسے کرنے کا وہ کبھی تصوّر بھی نہیں کرسکتا تھا۔ گویاخواہش مَن کی آگ ہے اور ایک بار یہ آگ لگ جائے، تو اس کی حدّت وشدّت بڑھتی ہی جاتی ہے۔
اگر ایک بار یہ خواہش پیدا ہو جائے کہ آپ نے اس دُنیا میں کوئی منفرد کارنامہ انجام دینا ہے، تو پھر وہی آپ کو مہمیز دے گی اور آپ سے وہ سارے کام کروائے گی، جو منزل تک پہنچنے کے لیے لازم ہوں گے۔ ہمارا کام صرف خواہش کا انتخاب ہے، اگر یہ کم زور ہے، تو پھر آپ ہر کام ہی بوجھل دل سے کرتے ہیں۔ صبح مُردہ دلی سے بیدار ہوتے ہیں۔ پھر معمولی سے معمولی کام آپ کو پہاڑ سَر کرنے کی مانند لگتا ہے اور دن بَھر سو کر بھی آپ کی نیند پوری نہیں ہوتی۔
اگر کسی کے آدرش ہی معمولی ہوں، تو پھر یہ بدقسمتی ہی کی بات ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے دوست کی تن خواہ 25ہزار ہے اور آپ اپنی 26ہزار تن خواہ پرپُھولے نہیں سماتے، تو یہ فخر کی بات نہیں، کیوں کہ آپ کی تمنّا یہ ہونی چاہیے کہ آپ کا شمار دُنیا کے باصلاحیت ، کام یاب ترین افراد میں ہو۔ آپ اپنے سرمائے سے صرف اپنا طرزِ زندگی ہی بہتر نہ کریں بلکہ انسانیت کی خدمت بھی انجام دے سکیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ نجومی نہ ڈراوے دے ساکوں بدنصیبی دے…جڈاں ہتھاں تے چھالے تھئے لکیراں خود بدل ویسن۔
یاد رہے، آدرش جس قدر بلند ہوں، پھر عزم و حوصلہ بھی اُتنا ہی بڑھتا ہے۔ آپ اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف بڑھنے کی کوشش تو کریں۔ یہ بھی یاد رہے کہ سوچ، خواہش سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسی خواہش ،ویسی سوچ اور جیسی سوچ، ویسا عمل۔ پھر زندگی میں جتنی بھی بڑی مشکلات آتی ہیں، آپ اُن کا سامنا کرتے چلے جاتے ہیں۔ آپ پلٹ کر نہیں دیکھتے، کیوں کہ پھر آپ کو اپنے، اپنے خاندان، اپنے معاشرے اور اپنے وطن کے لیے بہت کچھ کرنا ہوتا ہے، لیکن آپ یہ سب کچھ تبھی کر سکتے ہیں کہ جب آپ معاشرے کا ایک مفید فرد بنتے ہیں۔
نیز، کوئی بھی بڑا کارنامہ سر انجام دینے کے لیے جستجو کے ساتھ پختہ یقین بھی بے حد ضروری ہے۔ یقین کی طاقت پہاڑوں تک کو ہلا سکتی ہے اور اگر یقین کم زور ہو گا، تو پھرناکامی مقدّر ہوگی، جب کہ یقین پختہ ہو، تو پھر کام یابی بہر طور یقینی ہے۔تاخیر ضرور ہو سکتی ہے، مگر ناکام یابی نہیں۔ یاد رکھیں، دُنیا کے کام یاب ترین افراد میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے یقین ، جب کہ ناکام لوگوں میں اگر کوئی قدرِ مشترک پائی جاتی ہے، تو وہ غیریقینی ہے، کیوں کہ جب تک آپ کو یقین نہیں ہوتا، آپ کا ارادہ متزلزل رہتا ہے اور آپ اسی مخمصے میں مبتلا رہتے ہیں کہ مَیں یہ کرسکتا ہوں یا نہیں کر سکتا، لیکن جب بے یقینی پر یقین غالب آ جاتا ہے، تو بالآخر کام یابی آپ کا مقدّر ٹھہرتی ہے۔
راقم الحروف ایک سو سے زائد کام یاب ترین افراد پر تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جب انہیں اپنی کام یابی کا سو فی صد یقین ہو گیا، تو وہ کام یاب ہوتے چلے گئے، حالاں کہ وہ بھی عام انسانوں ہی کی مانند تھے۔ اگر آپ کو اپنے ارادوں، خواہشات، خیالات، تصوّرات اور توقّعات کی تکمیل کا یقین ہے اور آپ اپنے رویّے اور طرزِ عمل کو اس یقین اور بھروسے کے مطابق ڈھال لیتے ہیں کہ یعنی جو کچھ آپ سوچتے ہیں، اُسے عملی شکل دے سکتے ہیں، تو پھر آپ ہر طرح کی کام یابی حاصل کر سکتے ہیں۔
یقین مانیے ! آپ کی کام یابی میں سب سے بنیادی عنصر آپ کا یقین ہے۔ یقین زندگی ہے اور غیریقینی موت ہے۔ وہ ہے ناں؎جو یقین کی راہ پہ چل پڑے، اُنہیں منزلوں نے پناہ دی…جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا، وہ قدم قدم پر بہک گئے۔