• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قبل ازیں، ہم متعدّد مضامین میں قومِ بنی اسرائیل اور اُن کی روایتی اسلام دشمنی کا تفصیلاً ذکر کرچکے ہیں۔ اب حالیہ اسرائیل، فلسطین جنگ کے تناظر میں ’’قصّہ یہودی ریاست کے قیام کا‘‘ کے عنوان سے مختلف ادوار میں بنی اسرائیل کی ریاست کی تشکیل کے حوالے سے ایک مختصر تاریخی خاکہ (قسط وار) پیشِ خدمت ہے۔ چوں کہ متعلقہ موضوع پر یہ ایک سرسری جائزہ ہے، لہٰذا اس میں بنی اسرائیل سے متعلق اہم تاریخی واقعات اختصار کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے، اہم معلوماتی جائزے کی قسط نمبر1۔

بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات: حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر جس قدر احسانات کیے، شاید ہی کسی اور قوم کو انعامات و اکرامات کا اتنا وافر حصّہ عنایت فرمایا ہو۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:’’اے بنی اسرائیل! میری اس نعمت کو یاد کرو، جو مَیں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت40)۔ایک اور جگہ فرمایا، ترجمہ:’’اے بنی اسرائیل! میری اس نعمت کو یاد کرو، جو مَیں نے تم پر بطور انعام کی، اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی۔‘‘ (سورۃ البقرہ،آیت 47)۔

اس آیتِ مبارکہ میں ایک انعام یہ بھی یاد دلایا جارہا ہے کہ ہم نے تو تمہیں سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی۔ یعنی امّتِ محمدیہؐ سے پہلے ’’افضل العالمین‘‘ ہونے کی یہ فضیلت بنی اسرائیل کو حاصل تھی، جو انہوں نے معصیتِ الٰہی کا ارتکاب کرکے گنوادی۔ چناں چہ امّتِ محمدیہؐ کو ’’خیرامّہ‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعاماتِ الٰہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں، بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں اور ایمان و عمل کی محرومی پر سلب بھی کرلیے جاتے ہیں۔ جس طرح امّتِ محمدیہؐ کی اکثریت اس وقت اپنی بدعملیوں اور شرک و بدعات کے ارتکاب کی وجہ سے ’’خیرامّہ‘‘ کے بجائے ’’شرامّہ‘‘ بنی ہوئی ہے۔ (تفسیر البقرہ، مولانا یوسف، صفحہ 22)۔

بنی اسرائیل کی فتح: ابھی بنی اسرائیل، وادئ تیہ میں قید تھے کہ پہلے حضرت ہارونؑ کا انتقال ہوا اور پھر حضرت موسیؑ بھی وفات پاگئے۔ تاہم، اپنے انتقال سے پہلے حضرت موسیٰ ؑنے حضرت یوشع بِن نونؑ کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر فرمادیا تھا۔ صحرائے تیہ میں قید کے چالیس سال پورے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشعؑ کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر ارضِ مقدّس کی جانب جائو اور جہاد کرکے قومِ عمالقہ سے اپنے آبائواجداد کی سرزمین کو آزاد کرواؤ۔ 

ان چالیس برسوں میں بنی اسرائیل کے بوڑھے مرکھپ گئے تھے، جب کہ نئی نوجوان نسل کو اپنے بڑوں کے جہاد سے انکار کی غلطی اور اس کی پاداش میں قید کا احساس تھا۔ پھر بیت المقدس تو ان کا اپنا وطن تھا۔ حضرت یوشعؑ کے ساتھ چھے لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کی فوج تھی اور وہ سب سے پہلے ارضِ کنعان کے پہلے شہر، اریجا کی جانب بڑھے۔ طویل محاصرے اور گھمسان کی جنگ کے بعد اریجا شہر فتح کیا اور کنعان کے دوسرے شہروں کو فتح کرتے ہوئے ارضِ فلسطین میں داخل ہوگئے۔ 

اس طرح اللہ نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے کنعان، فلسطین اور شام تک کا پورا علاقہ بنی اسرائیل کے حوالے کردیا۔ علامہ ابنِ کثیرؓ لکھتے ہیں کہ ان فتوحات میں بے شمار مال و دولت ہاتھ آیا۔ بارہ ہزار افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ حضرت یوشعؑ نے قومِ عمالقہ سمیت گردوپیش کے اکیس بادشاہوں پر غلبہ پایا۔ (قصص الانبیاء، علامہ ابنِ کثیر، صفحہ 490)۔

حضرت شموئیلؑ سے حضرت سلیمانؑ تک: حضرت یوشعؑ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم کام یابیوں سے سرفراز فرمایا۔ بنی اسرائیل کا ارضِ فلسطین پر قبضہ مستحکم ہوگیا اور وہ امن و سکون سے رہنے لگے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد آپ 27 سال تک بنی اسرائیل کے ساتھ رہے، پھر آپ کو127 سال کی عُمر میں اللہ نے واپس بلوالیا۔ 

حضرت یوشعؑ کی وفات کے بعد بھی بہت سے انبیاءؑ، بنی اسرائیل میں آئے، جن میں حضرت حزقیلؑ، حضرت الیاسؑ اور حضرت شموئیلؑ زیادہ معروف ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت یوشعؑ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل توحید کی تعلیم فراموش کر بیٹھے۔ بُتوں کی پُوجا سمیت بہت سی نئی بدعتیں ایجاد کرلیں۔ انبیائے کرامؑ کے روکنے کے باوجود کفر و شرک سے باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ اللہ نے اُن پر دشمنوں کو مسلّط کردیا۔ کبھی اُن پر قومِ عمالقہ قابض ہوجاتی۔ کبھی فلسطینی حملہ آور ہوتے اور کبھی آرامی۔ یہ بنی اسرائیل کے لیے بڑی آزمائش کا دَور تھا۔

یہودیوں کی بربادی کی مختصر داستان

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد حسبِ عادت بنی اسرائیل ایک بار پھر پرانی ڈگر پرآگئے۔ سرکشی، کفروشِرک، بغض وعناد، دوبارہ عود کر آیا۔ اُس دَور میں اُن لوگوں نے شیطانی قوتوں سے جادو سیکھا اور اس فن میں مہارت حاصل کرلی، لیکن پھر جلد ہی اُن کی آپس کی رنجشیں اس قدر بڑھ گئیں کہ اُن کی عظیم سلطنت دوحصّوں میں تقسیم ہوگئی۔ دونوں ریاستیں باہم دست وگریباں رہیں۔ یہاں تک کہ بابل کے بادشاہ، بخت نصر نے پورے مُلک کی اینٹ سے اینٹ بجاکر ہرچیز کو نیست ونابود کردیا۔ 

بخت نصر کے انتقال کے بعد ایران کے بادشاہ سائرس(خسرو) نے قبضہ کرلیا اور یہودیوں کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔ پھر332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم نے اس علاقے کو یونان کی سلطنت میں شامل کرلیا اور یہودیوں کو یہاں سے نکال باہر کیا۔ 65قبلِ مسیح میں یہودی قبائل نے بغاوت کی، جس کے نتیجے میں ایک یہودی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔67قبلِ مسیح میں رومی افواج نے بزورِ طاقت ایک بار پھر فلسطین پر قبضہ کرکے اسے رومی سلطنت کا حصّہ بنادیا۔ 70عیسوی میں یہودی ایک بار پھر بغاوت کے مرتکب ہوئے۔ 

چناں چہ اس بغاوت کو کچلنے کے لیے جنرل ٹائٹس(TiTus)کی زیرِکمان فوج کا ایک بڑا لشکر ارضِ فلسطین بھیجاگیا اور انہوں نے بزورِ شمشیر یروشلم پر قبضہ کرلیا۔ جنرل ٹائٹس نے مشرق سے مغرب تک پورے ملک میں ہل چلوادئیے۔ ہیکلِ سلیمانیؑ سمیت حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے کی ایک ایک عمارت مسمار کرکے ریاست سے بنی اسرائیل کی سابقہ تاریخ کا ہرنام ونشان مٹادیا۔ کئی سال تک جنرل ٹائٹس کی فوج کی بربریت اپنے عروج پررہی۔

اس عرصے میں چن چن کے یہودیوں کو قتل کیا گیا۔ اس دوران ارضِ فلسطین سے بنی اسرائیل کے عمل دخل کو مکمل طور پر اس طرح ختم کیا گیا کہ پھر وہ بیسویں صدی کے شروع تک یعنی پونے دوہزار سال تک جلا وطنی اور انتشار کی حالت میں مارے مارے پِھرتے رہے۔ بعد کے ادوار میں اتنا ضرور ہوا کہ محدود تعداد میں ان کے لوگوں کو صرف مقدّس دنوں میں داخلے کی اجازت ہوتی تھی، جس میں یہ لوگ مقدس مقامات کے کھنڈرات کی زیارت کرتے۔ ان کھنڈرات میں صرف ایک دیوار بچی تھی۔ چناں چہ یہودی جب یہاں آتے، تو ماضی کو یاد کرکے گریہ وزاری کرتے۔ 

اسی لیے اس دیوار کو ’’دیوارِ گریہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ دیوار مسجدِ اقصیٰ کے باہر مغرب کی جانب واقع ہے۔ مسلمان اسے ’’دیوارِبرّاق‘‘ کہتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج یہاں اپنا برّاق باندھا تھا۔ دیوارِ گریہ پر آہ وزاری کرنے والے یہودی جب واپس جاتے ہیں، تو دوبارہ گناہوں کے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور کچھ ایسا ہی حال آج کے مسلمانوں کا بھی ہے۔ دورانِ حج وعُمرہ حرم شریف میں زاروقطار روتے ہیں، گناہوں کی معافیاں مانگتے ہیں، دوبارہ گناہ نہ کرنے کے وعدے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ معاف بھی کردیتا ہے، لیکن یہ بندگانِ خدا جب واپس آتے ہیں، تو دوبارہ گناہوں کی گٹھری بَھرنی شروع کردیتے ہیں۔

سیّدنا فاروقِ اعظمؓ..... بیت المقدس میں

16ہجری،637ء میں مدائن اور انطاکیہ کی فتح کے بعد مسلمان فوجیں فلسطین میں داخل ہوگئیں اور بیت المقدس میں قلعہ بند عیسائی افواج کا محاصرہ کرلیا۔ اپنی یقینی شکست دیکھتے ہوئے عیسائی فوج کے سالار نے یہ شرط رکھی کہ ہم خلیفۃ المسلمین کے آگے ہتھیار ڈالیں گے۔ چناں چہ مسلمانوں کے سپہ سالار، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ نے کشت وخون سے بچنے کے لیے حضرت عمر فاروقؓ کو تفصیلی خط لکھ کر بیت المقدس آنے کی درخواست کردی، دنیا کی سب سے بڑی مملکت کے سربراہ جب بیت المقدس کے دروازے پر پہنچے، تو لوگوں نے دیکھا کہ غلام اونٹ پر سوار ہے اور خلیفۃ المسلمین اونٹ کی مہار پکڑے پیدل چل رہے ہیں۔ 

آپ کے جسم پر پیوند لگے کپڑے تھے، جو سفر کے دوران بوسیدہ ہوچکے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے آپؓ کا استقبال کیا۔ بیت المقدس کے نگراں، مذہبی پیشوا نے آپؓ کو شہرکی چابیاں دیں، حضرت عمر فاروقؓ نے عام معافی کا اعلان فرمایا، اس کے فوری بعد آپؓ پیادہ پا بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے مسجدِ اقصیٰ تشریف لے گئے، جہاں محرابِ داؤدؑ کے پاس نمازِ شکرانہ ادا کی اور یہودیوں کو شہر میں آنے کی اجازت دی۔ 

اس سے پہلے عیسائیوں نے یہودیوں سے حد درجہ بغض کی بِنا پر نہ صرف یہودیوں کے شہر میں داخلے پر پابندی عائد کررکھی تھی، بلکہ اُن کے مقدس قبۃ الصخرہ(DOME OF ROCK)کو کچرے کے ڈھیر سے ڈھک دیا تھا۔ سیّدنا عمر فاروقؓ نے اپنے ہاتھوں سے وہاں سے کچرا صاف کیا۔ ایک روایت کے مطابق معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ اقصیٰ سے آسمانوں کا سفر اسی چٹان سے شروع کیا تھا، جس پر ’’قبۃ الصخرہ‘‘ تعمیر ہے۔ 

حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ مسجد (ہیکلِ سلیمانی ؑ) کے کھنڈرات پر فوری طور پر مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ چناں چہ یہاں سادہ مستطیل نما لکڑی کی مسجد تعمیر ہوئی۔ پھر اموی خلیفہ، عبدالملک بن مروان نے دوبارہ اس جگہ پر ایک شان دار مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا، جس کی تعمیران کے فرزند، ولید بن عبدالملک کے دورِحکمرانی میں مکمل ہوئی۔

صلیبی جنگوں کا آغاز

مسیحیوں کے روحانی پیشوا، پوپ اربن ثانی نے1095ءمیں مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا اعلان کردیا۔ اس نے مذہبی فریضہ قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ القدس سمیت مسلمانوں سے دیگر مقدس مقامات بزورِ تلوار چھین لیے جائیں۔ پوپ کے اس جذباتی حکم سے مسیحیوں کا مذہبی جنون عروج پر پہنچ گیا۔ صلیب کے نام پر لڑی جانے والی یہ جنگیں ’’صلیبی جنگوں‘‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔15جولائی1099ء کو عیسائیوں نے القدس پر قبضہ کرلیا۔ اس جنگ میں70ہزار مسلمانوں کو بابِ دائودؑ اور شہرِ قدس میں قتل کردیا گیا، یہاں تک کہ شہر کے گلی کوچے مسلمانوں کے خون سے سُرخ ہوچکے تھے۔

مسلّح عیسائی متواتر آٹھ دن تک مسلمانوں کا قتلِ عام کرتے رہے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں کے گھوڑے ٹخنوں تک مسلمانوں کے خون میں ڈوبے ہوئے تھے۔ یوں فلسطین اور متعلقہ علاقوں پر عیسائیوں کا قبضہ 90 برس تک رہا۔ 1175ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے مصر میں فاطمی حکم رانوں کا تختہ اُلٹ کر سلطنت سنبھالی۔ 

اُس نے سب سے پہلے دنیا کے مسلم ممالک کو متحد کیا، جن میں مصر، شام، لبنان اور شمالی عراق، خاص طور پر شامل تھے۔ 1183ء میں اس نے دمشق کو اپنا دارالحکومت بنایا اور1187ء میں بیت المقدس فتح کرلیا۔ 1095ء سے1291ء تک صلیبی جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔1187ء سے1917ء تک، یعنی 730سال تک بیت المقدس پر مسلمانوں کی حکم رانی رہی۔ اور اگر حضرت عمر فاروقؓ کے دورِخلافت سے شمار کریں، تو فلسطین637عیسوی میں آزاد ہواتھا اور1918ء تک یعنی 1282 سال تک فلسطین پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔

اس میں مسیحیوں کی حُکم رانی کے90سال بھی شامل ہیں۔ فلسطین کے آخری حکم راں، عثمانی خلفاء تھے، جنہوں نے1917ء تک یہاں حکومت کی۔ جنگِ عظیم اوّل کے دوران 1917ء میں فلسطین، سلطنتِ برطانیہ کا حصّہ بن گیا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے میں انگریزوں کے علاوہ یہودیوں اور عرب مسلمانوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے میں یہودیوں کا کردار: لاہور کے ایک مقامی اخبار میں اسرائیلی اخبار کے حوالے سے 5؍مارچ 2003ء کو اسرائیلی وزیرِ دفاع، جنرل موخاز کا ایک بیان شائع ہوا، جس میں اس نے عراق سمیت دیگر ممالک کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا کی سُپرپاور، سلطنتِ عثمانیہ کے خلیفہ سلطان عبدالحمید نے ہمیں فلسطین میں جگہ دینے سے انکار کردیا تھا، چناں چہ ہم نے نہ صرف ان کی حکومت ختم کردی، بلکہ پوری عثمانی خلافت کا خاتمہ کردیا۔ 

اب جو بھی اسرائیل کی راہ میں مزاحم ہوگا، اُسے ایسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔‘‘ سلطان عبدالحمید ثانی اپنی یادداشتوں میں تحریر کرتے ہیں کہ عالمی یہودی تنظیم کا ایک وفد ان کے پاس آیا اور ان سے فلسطین میں مستقل طور پر رہائش کی اجازت مانگی۔ چوں کہ سلطنتِ عثمانیہ کے قانون کے مطابق یہودیوں کو فلسطین میں زیارت کی غرض سے آنے کی اجازت تو تھی، لیکن وہاں مستقل رہائش کی اجازت نہیں تھی، لہٰذا سلطان نے انکار کردیا۔ 

دوسری بار یہودیوں کا وفد پھر حاضر ہوا اور فلسطین میں ایک بڑی یونی ورسٹی قائم کرنے کی پیش کش کی، جس کا مقصد پوری دنیا سے یہودی سائنس دانوں کو جمع کرکے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہ ظاہر سلطنتِ عثمانیہ کو بلند مقام دلانا مقصود تھا۔ سلطان عبدالحمید، یہودیوں کے اس عالمی پلان سے باخبر تھے، جس میں مسجدِ اقصیٰ کی جگہ ہیکلِ سلیمانی ؑ کی تعمیر اور گریٹر صیہونی حکومت کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنا مقصود تھا، چناں چہ سلطان نے فلسطین کے علاوہ کسی اور شہر میں یونی ورسٹی قائم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ 

کچھ عرصے بعد ایک بار پھر عالمی صیہونی تنظیم کے سینئر رہنما، سلطان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیش کش کی کہ اگر سلطان یہودیوں کو محدود پیمانے پر فلسطین میں رہنے کی اجازت عنایت فرمائیں، تو ہم منہ مانگی دولت دینے کوتیار ہیں۔ رقم کی بات سن کر سلطان آگ بگولا ہوگئے اور انہیں فوری طور پر محل سے نکل جانے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ ملاقات پر پابندی عائد کردی۔ سلطان کے ساتھ اس آخری تلخ ملاقات کے بعد صیہونی تنظیم نے بڑے پیمانے پر سلطنتِ عثمانیہ کی مخالفت شروع کردی، جو جلد ہی دشمنی میں تبدیل ہوگئی۔

سلطنتِ عثمانیہ سے مایوسی کے بعد اب ان کی اُمیدوں کا مرکز و محور برطانوی سامراج تھا، لیکن چرچ کے پادریوں سمیت عیسائیوں کی اکثریت یہودیوں کو حضرت عیسیٰ ؑ کی موت کا ذمّے دار سمجھتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ ظاہری طور پر یہودی، عیسائی مذہب اختیار کرلینے کے باوجود بھی اندر سے یہودی ہی رہتے، اور دنیا پر حکومت سمیت ایک عظیم یہودی ریاست کا تصوّر اُن کے خواب و خیال میں ہمیشہ رہتا۔ 

چناں چہ ایک یہودی جب دوسرے یہودی سے جدا ہوتا، تو اس کا آخری جملہ یہ ہوتا کہ ’’اگلے سال ملیں گے یروشلم میں۔‘‘ گویا ایک طرح سے یہ ان کے دعائیہ الفاظ ہوتے۔1890 ء میں فرانس میں روس کی خفیہ پولیس کے اہل کار نے یہ دعویٰ کیا کہ یہودی پوری دنیا پر قبضہ کرنے کی سازش کررہے ہیں۔ 

ثبوت کے طور پر عالمی یہودی رہنمائوں کی ایک خفیہ میٹنگ کے منٹس منظرعام پر لائے گئے جن میں یہودیوں کی جانب سے پوری دنیا پر قابض ہونے کے منصوبوں کو حتمی شکل دی گئی تھی۔ عیسائی تنظیموں نے اس خبر کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی، جس نے عیسائی دنیا اور یہودیوں کے درمیان نفرت کی خلیج کو مزید وسعت دی۔ (جاری ہے)