• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت لقمان نبی یا ولی؟: ’’وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں۔‘‘ یہ وہ مشہور و معروف قول ہے، جسے ہم سب نے بارہا سُنا اور پڑھا ہے۔ حکیم لقمان اللہ کے وہ نیک اور برگزیدہ بندے تھے، جنہیں ربِ ذوالجلال نے حکمت یعنی عقل و فہم اور دانائی و بصیرت میں ممتاز ترین مقام عطا فرمایا۔ قرآنِ کریم کی اکتسویں سورئہ مبارکہ کو حضرت لقمان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، جس کی آیت نمبر 12میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اور ہم نے یقیناً لقمان کو حکمت دی۔‘‘ جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ حضرت لقمان نبی نہیں، بلکہ فقیہ اور حکیم تھے۔ 

حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کو یہ اختیار دیا تھا کہ نبوت لے لو یا حکمت۔ انہوں نے حکمت اختیار کرلی اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ جب انھیں نبوت کا اختیار دیا گیا، تو انہوں نے عرض کیا ’’اگر اس کے قبول کرنے کا حکم ہے، تو میرے سر آنکھوں پر، ورنہ مجھے معاف فرمایا جائے۔‘‘ حضرت قتادہؓ سے منقول ہے کہ لقمان سے کسی نے پوچھا ’’آپ نے حکمت کو نبوت پر کیوں ترجیح دی، جب کہ آپ کو دونوں کا اختیار دیا گیا تھا؟‘‘ آپ نے فرمایا، ’’نبوت بہت بڑی ذمّے داری کا منصب ہے، اگر وہ مجھے میرے اختیار کے بغیر دے دیا جاتا، تو اللہ تعالیٰ خود اس کی کفالت فرماتا کہ میں اس کے فرائض ادا کرسکوں۔ اور اگر میں اپنے اختیار سے اس کو طلب کرتا، تو ذمّے داری مجھ پر ہوتی۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 216)۔

حکیم لقمان، بادشاہ یا غلام؟

حضرت لقمان کے بارے میں اہلِ سِیر نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ زمانۂ قدیم کی تمام تاریخی روایات اور واقعات زیادہ تر زبانی طور پر نسل دَر نسل منتقل ہوتے تھے یا انجیل، توریت کے مرہونِ منّت تھے، جنھیں مختلف ادوار میں اتنی مرتبہ تبدیل کیا گیا کہ دونوں مقدس کتب کی صورت ہی مشکوک ہوگئی۔ چناں چہ قرآنِ کریم نے ہمیں جس قدر معلومات اپنے نبی ﷺ کے ذریعے پہنچائیں، بس وہی مستند و معتبر ہیں۔ مولانا سیّد سلیمان ندویؒ ’’ارض القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت لقمان قومِ عاد کی نسل سے تھے، جب قومِ عاد پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، تو حضرت ہود علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے ساتھ یمن منتقل ہوگئے تھے، ان ہی میں حضرت لقمان بھی شامل تھے۔ 

یمن میں اُن لوگوں نے اپنی حکومت قائم کی، تو حضرت لقمان کو بادشاہ مقرر کردیا۔ اکابر صحابہؓ و تابعینؒ کی رائے اس حوالے سے مختلف ہے۔ اس سلسلے میں حضرت ابنِ عباسؓ، حضرت ابوہریرہؓ حضرت مجاہدؓ اور دیگر اکابرین کا بیان ہے کہ لقمان ایک حبشی غلام تھے۔ حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ وہ مصر کے رہنے والے اور سیاہ فام تھے۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے مروی ہے کہ حضرت لقمان مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ایک قصبے ’’نوبہ‘‘ کے رہنے والے تھے۔ اس سلسلے میں سُہیلی کی تحقیق یہ ہے کہ ’’حکیم لقمان اور لقمان بن عاد۔ دو مختلف ادوار کی مختلف شخصیات ہیں، جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (روض الانف،266)۔

تفسیر ابنِ کثیر کے مطابق، حضرت لقمان، سوڈان کے نوبی قبیلے کے ایک حبشی غلام تھے، لیکن بلا کے نیک، عابد، زاہد، صاحبِ حکمت اور دانا شخص تھے۔ عرب میں وہ ایک غلام کی حیثیت سے آئے تھے۔ (البدایہ و النہایہ96/2:)

عظمت و بزرگی کا راز

حکیم لقمان ایک بڑی مجلس میں وعظ و نصیحت فرما رہے تھے کہ اچانک ایک اجنبی شخص مجلس میں داخل ہوا اور اُن کے قریب جاکر گویا ہوا کہ ’’کیا تم بنی حسحاس کے غلام نہیں ہو؟‘‘ فرمایا ’’ہاں۔‘‘ اس نے پھر سوال کیا ’’کیا تم میرے ساتھ بکریاں نہیں چَرایا کرتے تھے؟‘‘ حکیم لقمان نے اُسے غور سے دیکھا اور بولے ’’ہاں، یہ بھی درست ہے۔‘‘ پھر اُس نے کہا کہ ’’کیا تم حبشی نہیں ہو؟‘‘ حضرت لقمان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور فرمایا ’’ہاں ایسا ہی ہے، مگر یہ بتاؤ کہ تم پوچھنا کیا چاہتے ہو؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’پھر کیا وجہ ہے کہ تمہاری مجلس میں اس قدر زیادہ تعداد میں لوگ آتے ہیں اور بڑے ذوق و شوق سے تمہاری باتیں سنتے ہیں؟‘‘ 

حضرت لقمان نے نہایت محبّت سے اُس شخص سے فرمایا ’’برادرِ عزیز! جو باتیں میں کہتا ہوں، اُن پر تم بھی عمل کرنے لگو، تو تم بھی میری طرح ہوجاؤ گے۔ آنکھوں سے حرام چیزیں نہ دیکھو، زبان بے ہودہ باتوں سے روک لو، مال حلال کھایا کرو، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو، زبان سے ہمیشہ سچ بات بولا کرو، وعدے پورا کیا کرو، مہمان کی عزت کرو، پڑوسی کا خیال رکھو، بے کار کاموں کو چھوڑ دو۔ بس یہی عادات ہیں، جن کی وجہ سے مجھے بزرگی عطا فرمائی گئی ہے۔‘‘ (تفسیر ابنِ کثیر، جلد4،صفحہ 215)۔

حکمت و دانائی کا سرچشمہ

بنی حسحاس، مصر کا ایک شان و شوکت، رعب و دبدبے والا خدا ترس اور توحید پرست قبیلہ تھا۔ حکیم لقمان قبیلے کے سردار کی بکریوں کے ریوڑ کے نگران تھے۔ ویسے تو یہ ایک ادنیٰ سے غلام تھے، لیکن دنیا کے عقل مند اور دانا ترین لوگوں میں سے تھے۔ نہایت پاک باز، شریف النفس، عقل و خرد، علم و دانش کے پیکر، فہم و فراست، ذہانت و فطانت، تدبّر و بردباری میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ 

قناعت و سنجیدگی، معاملہ فہمی، وفاداری میں یدِطولیٰ کے حامل، زیرک و عبقری انسان، اعلیٰ ترین اخلاقِ کریمہ کے مالک، بے حد صابر و شاکر پورے قبیلے کے لیے باعثِ رحمت، مالکان کے منظورِ نظر اور حکمت و دانائی کا سرچشمہ تھے۔حضرت سعید بن مسیبؒ کے پاس ایک سیاہ فام شخص کوئی سوال پوچھنے آیا، تو آپ نے فرمایا ’’پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ تمہیں اپنی سیاہ فامی پر شرمندہ نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ سوڈانیوں میں تین آدمی دنیا کے بہترین انسان اور بہت زیادہ حکمت کے مالک تھے۔ حضرت بلال حبشیؓ، حضرت عُمر فاروقؓ کے غلام مہجع اور حکیم لقمان، یہ تینوں سیاہ فام اور چپٹی، پھیلی ناک والے تھے اور تم چوتھے ذی المرتبت سوڈانی ہو۔‘‘ (البدایہ و النہایہ96:)۔

حکمت کے دس ہزار ابواب

حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ تحریر فرماتے ہیں ’’اکثر علماء کی رائے ہے کہ حضرت لقمان پیغمبر نہیں، بلکہ ایک پاک باز متقی انسان تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ درجے کی عقل و فہم اور متانت و دانائی عطا فرمائی تھی۔ ان کی عاقلانہ نصیحتیں اور حکمت کی باتیں لوگوں میں مشہور چلی آتی ہیں۔ رب العزت نے ایک قصّہ قرآن مجید میں بیان فرما کر اُن کا مرتبہ اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔ حضرت لقمان کہاں کے رہنے والے تھے؟ اور کس زمانے میں پیدا ہوئے؟ اس کی پوری تعیین نہیں ہوسکتی۔ اکثر کا قول ہے کہ وہ حبشی تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے عہد میں پیدا ہوئے۔ ان کے بہت سے قصّے اور اقوال تفاسیر میں نقل کیے گئے ہیں۔‘‘ واللہ اعلم۔ (تفسیرِ عثمانی548:)۔

وہب بن منبّہؒ کی روایت کے مطابق، حضرت لقمان حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے تھے اور مقاتلؒ نے اُن کا خالہ زاد بھائی بتایا ہے۔ تفسیر بیضاوی میں ہے کہ ان کی عُمر دراز ہوئی، یہاں تک کہ انہوں نے حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ پایا۔ قرطبی کے مطابق، حضرت لقمان، حضرت داؤد علیہ السلام سے پہلے شرعی مسائل میں لوگوں کو فتاویٰ دیا کرتے تھے۔ 

جب حضرت داؤد علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی، تو انہوں نے فتویٰ دینا چھوڑ دیا کہ اب میری ضرورت نہیں رہی۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت لقمان، بنی اسرائیل کے قاضی تھے اور بہت سے کلمات آپ سے منقول ہیں۔ وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت لقمان کی حکمت کے دس ہزار سے زیادہ ابواب پڑھے ہیں۔‘‘ (معارف القرآن:،جلد7صفحات 34,35)۔

دل، زبان سب سے اچھے اور سب سے بُرے

حضرت خالد ربعیؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن اُن کے مالک نے فرمائش کی کہ ’’اے لقمان! ہمارے لیے ایک بکری ذبح کرو اور اس کا سب سے اچھا عضو ہمارے سامنے پیش کرو۔‘‘ آپ نے بکری ذبح کی اور اس کا دل اور زبان نکال کر اپنے مالک کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ دونوں بکری کے سب سے اچھے اعضا ہیں۔‘‘ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ان کے مالک نے پھر فرمائش کردی کہ ’’اے لقمان! ہمارے لیے ایک بکری ذبح کرو اور اس کا سب سے بُرا عضو لے کر آؤ۔‘‘ آپ نے بکری ذبح کی اور دل اور زبان نکال کر اُن کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ سب سے بُرے اعضاء ہیں۔‘‘ 

مالک کو بڑا تعجب ہوا۔ بولا ’’اے لقمان! جب میں نے عمدہ اعضاء کی فرمائش کی، تو تم دل اور زبان لے آئے اور اب سب سے بُرے اعضاء کا کہا تو تم پھر یہی دونوں چیزیں لے آئے۔ یہ کیا بات ہوئی؟‘‘ آپ نے جواب دیا ’’اے میرے مہربان آقا! اگر یہ دونوں اعضاء درست ہیں، تو ان سے زیادہ بہتر کوئی عضو نہیں اور اگر یہ دونوں بگڑ جائیں تو ان سے بُرا کوئی عضو نہیں۔‘‘ (تفسیر ابنِ کثیر،جلد4،صفحہ214)۔

صحیفہ ٔ لقمان: عرب کے لوگ حضرت لقمان کی شخصیت سے بخوبی واقف تھے۔ وہ نہ صرف انہیں ایک دانش وَر حکیم کے طور پر جانتے تھے، بلکہ ان کے اقوال کو اپنے اشعار اور خطبات میں استعمال بھی کیا کرتے تھے۔ اہلِ عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس ’’صحیفۂ لقمان‘‘ کے نام سے ان کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا۔ چناں چہ روایت میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینہ کا اوّلین شخص جو نبی ﷺ سے متاثر ہوا، وہ ’’سُوید بن صامت‘‘ تھا۔ وہ حج کے لیے مکّہ گیا۔ 

آنحضرت ﷺ حاجیوں کے مختلف خیموں میں جاکر دین کی دعوت دے رہے تھے۔ سُوید نے جب حضور اکرم ﷺ کی تقریر سُنی تو بولا ’’آپؐ جو باتیں پیش کررہے ہیں، اس میں ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔‘‘ آپؐ نے پوچھا ’’وہ کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا، ’’مجلہ لقمان۔‘‘ آپؐ نے مجلّے کا کچھ حصّہ سنا، پھر فرمایا ’’یہ اچھا کلام ہے، لیکن میرے پاس اس سے بھی اچھا ایک کلام ہے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ بلاشبہ یہ مجلہ لقمان سے بہتر ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، جلد 4،صفحہ 13)۔

پیغمبروں کی آٹھ اہم باتیں: مفسّرین لکھتے ہیں کہ حضرت لقمان نے فرمایا ’’میں نے چار ہزار نبیوں کی خدمت میں حاضری دی اور ان پیغمبروں کے مقدّس کلاموں میں سے آٹھ اہم باتوں کو چُن کر یاد کرلیا، جو یہ ہیں۔ (1)جب نماز پڑھو، تو دل کی حفاظت کرو۔ (2) جب کھانا کھاؤ، تو اپنے حلق کی حفاظت کرو۔ (3) کسی غیر کے مکان میں رہو، تو اپنی آنکھوں کی حفاظت کرو۔ (4) لوگوں کی مجلس میں بیٹھو، تو اپنی زبان کی حفاظت کرو۔ (5) اللہ تعالیٰ کو ہر وقت، ہر لمحہ یاد رکھو۔ (6) اپنی موت کو ہمیشہ یاد کرتے رہا کرو۔ (7) اپنے احسانوں کو بُھلادو۔ (8) دوسروں کے ظلم کو فراموش کردو۔‘‘ (حکایاتِ لقمان، ص9)۔

سورئہ لقمان میں بیٹے کو نصیحت: قرآنِ کریم کی ’’سورئہ لقمان‘‘ میں اللہ تعالیٰ، حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحت کا ذکر فرما رہا ہے، جس کی تفصیل آیت 13سے 19کے درمیان موجود ہے۔ اگرچہ یہاں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ انہوں نے یہ نصیحتیں اپنے انتقال کے وقت کی تھیں، لیکن ہر شخص کی فطری طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنی موت سے پہلے اپنے ورثے کے متعلق تمام معلومات اپنی اولاد کو فراہم کردے۔ چناں چہ حضرت لقمان نے بھی یہ ضروری سمجھا کہ انتقال سے پہلے اپنے غور و فکر اور عقل و دانش کا نچوڑ اپنی اولاد کو منتقل کردیں۔ (بیان القرآن 254/5)۔

چناں چہ فرمایا کہ ’’اے جانِ پدر! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘یہاں پر اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تاکید کی اور اُن کی اطاعت و خدمت کا حکم دیا، بالخصوص ماں کےحوالے سے،’’بیٹا! اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور زمین، آسمان یا چٹانوں میں کہیں بھی چُھپا ہو، اللہ اسے لاموجود کردے گا، کچھ شک نہیں کہ وہ باریک سے باریک چیز کو دیکھ سکتا ہے اور ہر شے سے باخبر ہے۔ 

بیٹا! نماز کی پابندی رکھنا۔ اور لوگوں کو اچھے کام کرنے کی تاکید اور برے کاموں سے روکتے رہنا۔ مصیبت کے وقت صبر سے کام لینا۔اور ازراہِ غرور لوگوں سے گال نہ پُھلانا۔ اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا۔ اللہ تعالیٰ شیخی خورے اور مغرور شخص کو پسند نہیں فرماتا۔اپنی چال کو اعتدال میں رکھنا۔ بحث و تمحیص کے وقت اپنی آواز کو پست رکھنا۔ یقیناً سب سے ناپسندیدہ آواز گدھے کی ہے۔‘‘ (سورئہ لقمان:آیات 9تا 13)۔

حضرت لقمان کی قبر کہاں ہے؟

حضرت لقمان نے ایک ہزار برس کی عمر پائی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی بعثت سے پہلے آپ بنی اسرائیل کے مفتی تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے منصبِ نبوّت پر فائز ہونے کے بعد آپ نے فتویٰ دینا ترک کردیا تھا۔ حضرت لقمان عُمر بھر عوام النّاس کو وعظ و نصیحت فرماتے رہے۔ تفسیر فتح الرحمٰن کے مطابق، آپ کی قبر رملہ کے قریب مقام ’’سرفند‘‘ میں ہے۔ 

حضرت قتادہ کا قول ہے کہ آپ کی قبر ’’رملہ‘‘ میں مسجد اور بازار کے درمیان ہے۔ اس جگہ ستّر انبیاء بھی مدفون ہیں، جنھیں یہودیوں نے آپ کے بعد بیت المقدس سے نکال دیا تھا اور یہ لوگ بھوک، پیاس سے تڑپ تڑپ کر وفات پاگئے تھے۔ آپ کی قبر پر ایک بلند نشان آویزاں ہے۔ لوگ آپ کی قبر کی زیارت کے لیے دُور دُور سے آتے ہیں۔ (تفسیر روح البیان:ج7ص77)۔