• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ کے پانچ نیک بندے

امام ابو محمد حسین بن مسعود بغویؒ پانچویں صدی ہجری کے مشہور شافعی ایرانی مفسّر و محدّث تھے، جو اپنی شہرۂ آفاق تفسیر بغوی کے حوالے سے اہلِ علم و دانش میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیانی زمانے میں اللہ کے پانچ نیک اور صالح بندے گزرے ہیں، جن کے بہت سے لوگ معتقد اور متبع تھے۔ لوگ اُن سے بے پناہ محبت کرتے اور اُن کی ہدایات و احکامات کی پیروی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ خُدا کی قدرت کہ جلد ہی ان پانچوں کا انتقال ہوگیا، لیکن عرصۂ دراز تک یہ لوگ اُن کے نقشِ قدم پر عبادت اور اللہ کے احکامات کی اطاعت کرتے رہے۔

یہ عمل شیطان کے لیے نہایت تکلیف دہ تھا، چناں چہ اُس نے اُنھیں سمجھایا کہ ’’تم جن بزرگوں کے تابع عبادت کرتے ہو، اگر اُن کی تصاویر بناکر اپنے سامنے رکھ لو، تو تمہیں عبادت کے دوران خشوع و خضوع حاصل ہوگا۔‘‘ وہ لوگ شیطان کے بہکاوے میں آ گئے اور اُن کے مجسّمے بنا کر اپنی عبادت گاہوں میں رکھ لیے۔ کچھ اور وقت گزرا، پُرانے لوگ مرکھپ گئے۔ نوجوان نسل نے ان کی جگہ لے لی، تو شیطان نے ان کو یہ پڑھایا کہ ’’تمہارے بزرگوں کے خُدا اور معبود یہی پانچ بُت تھے، جن کے مجسّمے تمہارے بزرگوں نے اپنی عبادت گاہوں میں سجا رکھے ہیں۔‘‘ چناں چہ قومِ نوح ؑنے ان کی بُت پرستی شروع کردی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان پانچوں بُتوں کی شہرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ پورے عرب میں اُن کی زور و شور سے پوجا شروع ہوگئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ نوح، 4920)۔سورۂ نوح میں کفّار کے اسی قول کو نقل فرمایا گیا ہے۔ ترجمہ:’’اور اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ودّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا۔‘‘(سورۂ نوح آیت 23)۔

قومِ نوح ؑ کی اپنے نبی ؑ پر اذیتیں

حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے چالیس برس کی عُمر میں نبوت عطا فرمائی۔ طوفان سے پہلے آپ مسلسل اپنی قوم کو وعظ و تبلیغ کرتے رہے، جس کے جواب میں اُن کی قوم انہیں سخت ترین اذیتیں دیتی رہی۔ حضرت ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’کسی نبی کو اپنی قوم کے ہاتھوں اتنی تکلیف اور اذیت نہیں پہنچی، جتنی حضرت نوح ؑ کو اپنی قوم کے ہاتھوں برداشت کرنا پڑی۔ کافر اُنھیں ڈراتے، دھمکاتے اور تبلیغ سے باز رکھنے کے لیے اس قدر تشدد کرتے کہ وہ بے ہوش ہوجاتے۔ 

کبھی اُن کے گلے میں پھندا ڈال کر بازاروں میں گھسیٹتے پھرتے۔ کبھی اتنا زدوکوب کرتے کہ اُن کی قوم سمجھتی کہ اب یہ مرچکے ہیں، چناں چہ انھیں کمبل میں لپیٹ کر کسی مکان یا ویرانے میں ڈال دیتے، لیکن جب انھیں ہوش آتا، تو دوبارہ اپنی قوم کو راہِ حق پر بُلانے میں مصروف ہوجاتے۔‘‘ امام بخاریؒ نے حدیث نقل فرمائی ہے کہ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک پیغمبر (حضرت نوح علیہ السلام) کی حکایت بیان فرمارہے تھے کہ اُن کی قوم کے لوگوں نے بے پناہ تشدد کرکے اُنھیں لہولہان کردیا، وہ اپنے مُنہ سے خون پونچھتے جاتے تھے اور یُوں دُعا کرتے جاتے تھے، ’’پروردگار! میری قوم کو بخش دے، وہ نادان ہے۔‘‘ (صحیح بخاری،6929)۔

حضرت نوح ؑکی دُعا قبول ہوئی

حضرت نوح علیہ السلام مسلسل ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دینِ حق کی دعوت دیتے رہے اور رات کی تنہائیوں میں اپنے رَبّ سے قوم کے لیے دُعائیں بھی کرتے رہے، لیکن اس طویل ترین جدوجہد میں اُن کے اہلِ خانہ سمیت صرف80افراد ایمان لائے۔ آخرکار، وہ لمحہ بھی آگیا، جب آپ نے قوم سے مایوس ہوکر اپنے رَبّ کے سامنے اپنی معروضات پیش کردیں، جسے سورۂ نوح ؑکی آیات پانچ سے بیس کے دوران بیان کیا گیا ہے۔ ان گزارشات کے بعد انھوں نے بارگاہِ خُداوندی میں نہایت رِقّت آمیز دُعا کی۔ (تفصیل سورۂ نوح ؑ کی آیات 21سے 28میں دیکھیں)۔ 

بارگاہِ الٰہی میں حضرت نوح علیہ السلام کی گزارشات قبول ہوئیں اور عرشِ الٰہی سے حکم نازل ہوا ’’اےنوح ؑ! تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لا چکے ہیں۔ اُن کے سوا اب کوئی اور ایمان نہیں لائے گا۔ تم جو کام کررہے ہو، ان کی وجہ سے غم گین نہ ہو اور ہمارے حکم سے ہمارے رُوبرو ایک کشتی بنائو اور ان کافروں سے متعلق اب کوئی گفتگو ہم سے نہ کرنا، کیوں کہ یہ سب لازمی طور پر غرق کردیئے جائیں گے۔‘‘ (سورۂ ہود، 37، 36)۔

کشتی بنانے کا حکم

علّامہ عمادالدین ابنِ کثیرؒ تحریر کرتے ہیں کہ بعض بزرگوں کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو یہ حکم بھی فرمایا کہ ’’فلاں درخت اُگائو، جس کی لکڑی سے تم کشتی بناسکو۔‘‘ تو حضرت نوح علیہ السلام نے وہ درخت اُگایا اور ایک سو سال تک اس کا انتظار کیا۔ پھر اُسے کاٹ کر اُس کے ہم وار تختے بنائے۔ اس کام میں بھی ایک قول کے مطابق، ایک سو سال اور دُوسرے قول کے مطابق چالیس سال کا عرصہ لگ گیا۔ (واللہ اعلم) محمد بن اسحاقؒ، حضرت ثوریؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ’’وہ لکڑی ساگوان کی تھی۔‘‘ دُوسرے قول کے مطابق، ’’وہ صنوبر کے درخت کی تھی۔‘‘ 

حضرت ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’اس کشتی کی لمبائی بارہ سو گز اور چوڑائی چھے سو گز تھی۔‘‘ جب کہ حضرت قتادہؒ کے بیان کے مطابق، ’’کشتی کی لمبائی تین سو گز اور چوڑائی پچاس گز تھی۔‘‘ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ’’کشتی کی لمبائی چھے سو گز اور چوڑائی تین سو گز تھی۔‘‘ ایک اور قول کے مطابق، ’’لمبائی دو ہزار گز اور چوڑائی سو گز تھی۔‘‘ مفسّرین کے درمیان لمبائی اور چوڑائی میں تو اختلاف ہے، لیکن کشتی کی اُونچائی سے متعلق سب متفق ہیں کہ وہ تیس گز اُونچی تھی اور اس میں تین منازل تھیں، جب کہ ہر منزل دس گز کی تھی۔ 

سب سے نچلی منزل عام حلال جانوروں اور وحشی جانوروں کے لیے، درمیانی اِنسانوں کے لیے اور بالائی منزل چرند پرند کے لیے مختص کی گئی۔ کشتی کا دروازہ چوڑائی میں تھا، اس کے اُوپر ایک ڈھکن تھا، جس سے وہ بند کردی جاتی تھی۔ گویا وہ کشتی آج کل کے زمانے کی عظیم آب دوز تھی۔ حضرت ثوریؒ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ کشتی کے اندرونی و بیرونی حصّوں اور نیچے ہر جگہ اچھی طرح تارکول (ڈامر) مل دینا تاکہ پانی اندر نہ آسکے اور کشتی کا سامنے کا حصّہ اُٹھا ہوا ہو، تاکہ وہ پانی کو چیر سکے۔‘‘

سرداروں کا تمسخر اور اللہ تعالیٰ کا جواب

حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کشتی بنانے میں مصروف ہوگئے۔ قوم کے سردار آپ کے پاس سے گزرتے تو ہنستے، مذاق اُڑاتے پھبتیاں کستے اور کہتے ’’اے نوح ؑ ! اس کشتی کو تم چلائو گے کہاں، کیوں کہ یہاں تو دُور دُور تک پانی کا نام و نشان نہیں ہے؟‘‘ کوئی کہتا، ’’معلوم ہوتا ہے کہ نوح علیہ السلام اس کشتی کو ریتیلے صحرا میں چلائیں گے۔‘‘ 

چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی جانب سے جواب دیتے ہوئے فرمایا، ’’اگر تم ہم سے مذاق کرتے ہو، تو ہم بھی تم سے مذاق کریں گے، اور ہم بھی تم پر ایک دن ہنسیں گے، جیسے تم ہم پر ہنستے ہو۔ تمہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ عذاب کس پر آتا ہے۔ اور جس شخص پر بھی عذاب آئے گا، وہ اسے ذلیل کرکے رکھ دے گا اور اس پر دائمی عذاب اُترجائے گا۔‘‘ (سورۂ ہود،39، 38)۔

کشتی میں سوار ہونے کا حکم

کشتی تیار ہو چکی تھی اور پھر ایک دن اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ’’اب تم اس کشتی میں ہر قسم کے جانوروں میں سے جوڑے (یعنی ایک نر اور ایک مادہ) سوار کر لو اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے، جن پر پہلے سے بات ہوچکی ہے، اور سب اہلِ ایمان کو بھی، جن کی تعداد بہت ہی کم تھی۔‘‘ (سورۂ ہود،40)۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام نے ہر ذی رُوح مخلوق کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لیا۔ بعض مفسّرین لکھتے ہیں کہ کشتی میں نباتات بھی رکھے گئے تھے۔ (واللہ اعلم)۔ مؤرّخین لکھتے ہیں کہ اہلِ ایمان کی کُل تعداد مرد اورخواتین ملاکر80تھی، جب کہ بعض نے اس سے بھی کم بتائی ہے۔ 

ان میں حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹے، جو ایمان لائےتھے اور اُن کے نام سام، حام، یافث تھے اور اُن کی بیویاں اور چوتھی یام کی بیوی بھی شامل تھی، جسے کنعان بھی کہا گیا، وہ کافر تھا اور اسی طوفان میں غرق ہوا، جب کہ اس کی بیوی مسلمان ہونے کی وجہ سے کشتی میں سوار تھی۔‘‘ (ابنِ کثیرؒ)۔ حضرت نوح علیہ السلام نے سب کو کشتی میں سوار کرواکے اس کے دروازے سختی سے بند کردیئے اور خود عبادتِ الٰہی میں مصروف ہوگئے۔ ایک دُوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے نوح! جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی میں سوار ہوجائیں، تو کہو، سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی۔ اور کہو کہ اے میرے رَبّ! مجھے بابرکت اُتارنا اور تُو ہی بہتر اُتارنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ المومنون،29، 28)۔

طوفانِ نوح ؑ میں ہر چیز غرق ہوگئی

ابھی کشتی میں سوار ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ طوفان کے آثار ظاہر ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین کے ہر گوشے سے پانی اُبلنے لگا۔ آسمان سے ہونے والی قیامت خیز بارش ہر شے کو بہا لے جانے کے دَرپے تھی، گویا قیامت کا منظر تھا۔ اُونچے سے اُونچے پہاڑ بھی پانی میں ڈُوبتے چلے جارہے تھے، لیکن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اُنھیں اور اُن کے ساتھیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے اللہ کے حکم سے اور اس کی حفاظت میں خطرناک اور بپھری موجوں کے درمیان رواں دواں تھی، ورنہ اتنے طوفانی پانی میں لکڑی کی کشتی کی حیثیت ہی کیا ہے؟ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دُوسرے مقام پر بطور احسان فرمایا ’’اور جب پانی میں طغیانی آگئی، تو اُس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کردیا، تاکہ اُسے تمہارے لیے نصیحت اور یادگار بنادیں اور تاکہ یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔‘‘ (سورۃ الحاقہ، 12، 11)۔

حضرت نوح علیہ السلام تیسری منزل کی ایک اُونچی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کنعان کو دیکھا، جو ایک اُونچے مقام پر موجود تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو مخاطب کیا۔ ’’اے میرے بیٹے! تُو ہمارے ساتھ اس کشتی میں سوار ہوجا اور کافروں کا ساتھ نہ دے۔‘‘ اُس نے کہا ’’اَبّا! آپ میری فکر نہ کریں، مَیں ابھی اُس سب سے اُونچے پہاڑ پر چڑھ جائوں گا اور پانی سے بچ جائوں گا۔‘‘ حضرت نوح علیہ السلام نے کہا، ’’آج قہرِالٰہی سے کوئی نہیں بچ سکتا۔‘‘ ابھی یہ گفتگو جاری ہی تھی کہ اچانک اُن دونوں کے درمیان پانی کی ایک بڑی لہر حائل ہوگئی اور وہ غرق ہوگیا۔ 

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رَبّ سے عرض کیا، ’’اے پروردگار! تُونے میرے گھر والوں کی بخشش کا وعدہ فرمایا ہے، تو میرا یہ بیٹا بھی میرے گھر والوں میں شامل ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’اے نوح ؑ! وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے، کیوں کہ اُس کے اعمال اچھے نہیں ہیں۔‘‘ (سورۂ ہود،42تا 46)۔ طوفانِ نوح ؑ میں پانی کی بُلندترین لہروں نے رُوئے زمین کے تمام پہاڑوں کو چُھپا لیا تھا۔ زمین پر کوئی شئے زندہ سلامت نہ تھی۔ سب کچھ نیست و نابود ہوچکا تھا۔ صرف حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی تھی، جو اللہ کی مدد سے پانی کی بُلند و بالا بپھری، خوف ناک موجوں میں تیر رہی تھی۔

کشتی جبلِ جودی پر ٹھہرگئی

حضرت ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ’’80افراد تقریباً ایک سو پچاس دن تک کشتی میں موجود رہے، پھر اللہ تعالیٰ نے کشتی کا رُخ مکّہ مکرّمہ کی جانب پھیر دیا،تو چالیس دن وہ بیت اللہ کے گرد چکر لگاتی رہی۔ اس کے بعد اس کا رُخ جبلِ جودی کی طرف پھیر دیا گیا۔ جہاں پہنچ کر وہ ٹھہر گئی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اہلِ زمین کی خبر لینے کے لیے ایک کوّے کو بھیجا۔ کوّے نے زمین پر مُردار دیکھے، تو وہ اُن پر جھپٹ پڑا، جب اُس کے آنے میں تاخیر ہوئی، تو حضرت نوح علیہ السلام نے کبوتر کو بھیجا۔‘‘ حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں کہ ’’قومِ نوح ؑکے یہ افراد رجب کی دس تاریخ کو کشتی میں سوار ہوئے اور ایک سو پچاس دن تک پانی میں رہے۔ 

جن میں سے ایک ماہ جبلِ جودی پر ٹھہرے رہے، پھر محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو کشتی سے باہر آئے۔‘‘ ابنِ جریرؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’اس دن سیلاب کے عذاب سے نجات حاصل ہونے پر وہ لوگ تشکّر کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔‘‘ محمد بن اسحاقؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’جب اللہ تعالیٰ نے طوفانِ نوح ؑ روکنے کا ارادہ فرمایا، تو زمین پر زبردست ہوائیں چلائیں، جس سے پانی رُک گیا۔ چشمے اُبلنے بند ہوگئے اور پانی کم ہونا شروع ہوگیا، حتیٰ کہ زمینیں خشک ہوگئیں۔‘‘ توریت کی روایت کے مطابق، کشتی، جبل جودی پر رجب کی دسویں تاریخ کو ٹھہری اور دسویں مہینے (شوال) کی پہلی تاریخ کو پہاڑوں کی چوٹیاں نمودار ہونا شروع ہوگئیں۔ 

پھر مزید چالیس روز گزر جانے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی کی کھڑکی کھولی اور ایک کوّے کو یہ جانچنے کے لیے بھیجا کہ جاکر دیکھو اور بتائو کہ طوفان نے زمین پر کیسی تباہی مچائی ہے۔ لیکن کوّا واپس نہ آیا، کیوں کہ وہ مُرداروں کا گوشت کھانے میں مصروف ہوگیا۔ پھر حضرت نوح علیہ السلام نے کبوتر کو بھیجا، تو وہ کچھ دیر بعد واپس پلٹ آیا۔ اس کے پائوں وغیرہ پر کوئی ایسی علامت نظر نہیں آئی، جس سے زمین پر پانی کی موجودگی کا علم ہوتا۔ نوح علیہ السلام نے کھڑکی سے باہر ہاتھ نکال کر کبوتر کو پکڑا اور اندر داخل کردیا، پھر سات دن گزر جانے کے بعد یہ معلوم کرنے کے لیے کہ زمین کی کیا حالت ہے، آپ ؑ نے کبوتر کو دوبارہ بھیجا۔ کبوتر جب واپس آیا، تو اس کے مُنہ میں زیتون کا پتّا تھا۔ 

اس سے حضرت نوح علیہ السلام کو معلوم ہوگیا کہ اب پانی سطحِ زمین سے کم ہوگیا ہے۔ پھر سات دن گزرنے کے بعد کبوتر کو بھیجا، لیکن اس مرتبہ کبوتر واپس نہیں آیا۔ اس سے حضرت نوح علیہ السلام نے اندازہ لگالیا کہ سطحِ زمین ظاہر ہوچکی ہے۔ یقیناً کبوتر نے بھی کہیں ٹھکانہ تلاش کرلیا ہوگا۔ طوفان کی ابتدا اور کبوتر کو بھیجنے کے درمیان ایک سال مکمل ہوگیا اور دُوسرے سال کا پہلا دن بھی گزرگیا، تو سطحِ زمین کا ظہور شروع ہوگیا۔ جنگل بھی ظاہر ہوگیا، تب حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی کا ڈھکن کھول دیا۔ 

اہلِ کتاب کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ ’’سب کو کشتی سے باہر نکال لو۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے وعدہ فرمایا کہ آئندہ کبھی اہلِ زمیں پر ایسا زبردست طوفان نہیں آئے گا، اور اس وعدے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک علامت مقرر فرمادی، جسے’’ قوسِ قزح‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’یہ قوسِ قزح اللہ تعالیٰ کی طرف سے طوفان سے امن کا پیغام ہے۔ قوسِ قزح بارش کے دنوں میں آسمان پر تلوار کی شکل میں کئی رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔‘‘ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر ؒ، 111، 112)۔

کشتی سے باہر زمین پر پہلی بستی

حضرت نوح علیہ السلام جودی پہاڑ سے نیچے اُترے اور ایک بستی تعمیر کی، جس کا نام ’’ثمانین‘‘ رکھا (یعنی80افراد کی بستی)۔ اسی دوران ایک مرتبہ صُبح سو کر اُٹھے، تو ہر شخص کی زبان بدل چکی تھی، یعنی کُل80زبانیں وجود میں آچکی تھیں۔ لوگ ایک دُوسرے کی زبان نہیں سمجھ پارہے تھے۔ اُس وقت حضرت نوح علیہ السلام، سب کی زبانوں کو سمجھتے اور ہر ایک کی ترجمانی فرماتے تھے۔

حضرت نوح ؑ کی کشتی اور اہلِ مغرب

دُنیا بھر کے بڑے بڑے جغرافیہ دان، مؤرّخین، ماہرین اور سائنس داں اپنے جدیدترین آلات اور بہترین سفری سہولتوں کے باوجود آج تک کشتیِ نوح ؑ کے اصل مقام کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکے۔ اس کے برخلاف قرآنِ کریم نے آج سے 14سو برس پہلے کشتیِ نوح ؑ کے ٹھہرنے کی جگہ ’’کوہِ جودی‘‘ کو قرار دیا۔ (سورۂ ہود،44)۔ یہ پہاڑ وادئ دجلہ اور فرات کے قریب واقع ہے۔ طوفانِ نوح ؑکا قصّہ توریت، انجیل اور قرآن میں موجود ہے۔ چناں چہ یہود و نصاریٰ اور اہلِ مغرب بھی کشتی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ بائبل میں کشتی کا نام ’’آرک‘‘ بتایا گیا ہے۔ 

یورپ کے ماہرین کے ایک گروپ نے کشتی کی تلاش میں اپنی تحقیق کا آغاز کیا اور بقول ان کے انھیں ترکی میں واقع ارارات (ARARAT) نامی پہاڑ کی چوٹی پر کشتی کی موجودگی کے شواہد ملے۔ مشہور جریدے ’’کرسچن سائنس مانیٹر‘‘ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ترکی کے مشرقی علاقے میں واقع کوہِ ارارات کی چودہ ہزار فٹ بُلندی پر کشتیِ نوح ؑ کے آثار پائے جاتے ہیں۔جب کہ ترکی اور چین کے سائنس دانوں نے 2010عیسوی میں اپنی تحقیق کی روشنی میں ترکی کے صوبے اگری (AGRI) میں واقع ارارات پہاڑ پر کشتی کی موجودگی کا اعلان کیا۔ 

اسی طرح اکثر علماء سمیت دُوسری صدی ہجری میں بغداد میں پیدا ہونے والے مشہور و معروف مؤرّخ ابو محمد بن قتیبہ نے بھی کوہِ ارارات ہی کو کوہِ جودی قرار دیا ہے۔ ممتاز مفکّر، ادیب اور مؤرّخ، سیّد قاسم محمود لکھتے ہیں کہ ’’موجودہ کوہِ ارارات تین ممالک ترکی، روس اور ایران کے مابین سرحدی نشان کا کام دیتا ہے، البتہ یہ پورا علاقہ ترکی کے پاس ہے۔‘‘(اسلامی انسائیکلوپیڈیا، جلد اوّل صفحہ41)۔ جب کہ کوہِ جودی (کوہ قردہ) دجلہ و فرات کے قریب ہے اور ان دونوں کے درمیان کئی سو میل کا فاصلہ ہے۔

بہرحال، اُمتِ مسلمہ کے لیے حرفِ آخر قرآن کریم کا حکم ہے کہ کشتی نوح ؑکوہ جودی پر ہے۔‘‘ اب خواہ کوہ جودی وادئ دجلہ اور دریائے فرات کے قریب کوہِ قردہ کا نام ہو یا ترکی میں موجود کوہِ ارارات کا۔