حیران نہ ہوں یہ سو فی صد حقیقت ہے کہ عریانی وبے حیائی کا جو طوفان مغرب نے آزادی اور روشن خیالی کے نام پر برپا کیا تھا اور جسے شاید ہم اُن کی ترقی کا راز سمجھ کر دن رات اپنے ہاں درآمد کرنے میں مصروف ہیں، اس کی تباہ کاریوں کے عملی تجربے کے بعد مغرب کے پوپ پادری نہیں بلکہ حکومتی و سیاسی حلقے تک آج اس سے سخت پریشان ہیں لیکن اب اس سے جان چھڑانا ان کے لئے محال ثابت ہورہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جن طاقتوں کے مفادات اور کھربوں کے کاروبار فحاشی کے کلچر سے وابستہ ہیں وہ اب اتنی منہ زور ہوچکی ہیں کہ ان کے خلاف کسی نتیجہ خیز اقدام کی کوشش اپنی شامت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ایسی ہر کوشش آزادی اظہارپر حملہ قرار پاکر شدید منفی پروپیگنڈے کا ہدف بنتی ہے۔ اس پہلو سے گزرے ہوئے سال کے اہم واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ستائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں مارچ کے مہینے میں مغربی معاشرے خصوصاً الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں عورتوں کے حیا سوز انداز میں سامنے لائے جانے کو ان کی بے عزتی اور صنفی عدم مساوات پر مبنی رویہ قرار دیتے ہوئے، اس پر مکمل پابندی لگانے کی تجویز پر مشتمل ایک مفصل رپورٹ پیش کی گئی۔ رپورٹ تیار کرنے والی کمیٹی کا نام ’’کمیٹی آن ویمنز رائٹس اینڈ جنڈر ایکولٹی‘‘ تھا۔کمیٹی کی رپورٹ کا مسودہ خاتون ڈچ ممبر کارتیکا تمارا نے تیار کیا تھا۔
برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق کارتیکا تمارا نے یورپی پارلیمنٹ میں مسودہ پیش کرتے ہوئے کہا ’’وقت آگیا ہے کہ میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی ہر قسم کی فحاشی پر مکمل پابندی عائد کی جائے‘‘۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ فلو ایلا بنجامن کا کہنا تھا ’’مرد خواتین کو اوچھی حرکتیں کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔یہاں عورت کو محض نمائش کی شے سمجھ لیا گیا ہے۔ہمیں عورت کو شو پیس سمجھنے والوں کی سوچ کو بدلنا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ’’میرے پاس اس بات کا جواب موجود نہیں کہ ہم کس طرح عورت کو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس دلاسکیں گے یا اپنے بچوں کو بے حیائی کے اس چنگل سے کیسے آزاد کراسکیں گے‘‘۔ وائس آف امریکہ کا اندازہ تھا کہ ’’اس مسودے میں اگرچہ ہرقسم کی فحاشی کی تشہیر پر پابندی کا مطالبہ شامل ہے لیکن خیال ہے کہ اس پابندی کا اطلاق پرنٹنگ اور تشہیر کے لئے استعمال کئے جانے والے عریاں مواد پر ہو گا‘‘۔ وائس آف امریکہ کی خبر میں یہ اطلاع بھی شامل تھی کہ فروری2013ء میں’’ آئس لینڈ میں بھی عریانیت کی تشہیر پر مکمل پابندی کا قانون پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا جبکہ فحش مواد کی طباعت و تشہیر پر مکمل پابندی کاقانون اس سے دوسال پہلے ہی وہاں نافذ کیا جاچکا ہے‘‘۔
بے حیائی کی یلغار پر برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی گزشتہ سال چیخ اٹھے،انہوں نے برطانیہ کے تمام گھروں میں تمام فحش ویب سائٹس پر پابندی اور اس مقصد کے لئے فیملی فرینڈلی فلٹرز سمیت مختلف تدابیر اختیار کئے جانے کا اعلان کیا۔ بی بی سی نے اٹھارہ نومبر کو ایک رپورٹ میں بتایا کہ وزیر اعظم کی اپیل پر دو کلیدی سرچ انجنوں نے اس ضمن میں حکومت سے تعاون پر آمادگی ظاہر کی ہے لیکن یورپی پارلیمنٹ میں صنفی مساوات کے لئے کام کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ کے وہ حصے مسترد کردیئے گئے جن میں میڈیا پر عورتوں کو مختصر لباس میں پیش کرکے ناظرین کے سفلی جذبات ابھارنے اور اس طرح خواتین کا بدترین استحصال کئے جانے پر مکمل پابندی لگانے کی تجویز دی گئی تھی تاہم ستائیس یورپی ملکوں کی پارلیمنٹ میں ایسی رپورٹ کا تیار ہونا اور زیرغور آنا ہی غیرمعمولی اہمیت کی بات ہے جس سے اس حقیقت کا واضح اظہار ہوتاہے کہ بے حیائی کے کلچر نے مغربی معاشرے کو جس سنگین صورت حال سے دوچار کررکھا ہے اس کا شدید احساس ابھرنے کے باوجود اس سے نجات پانا اب مشکل ثابت ہورہا ہے۔
ہر معقول شخص سمجھ سکتا ہے کہ صنفی معاملات میں فطرت کے منافی رویّے معاشروں کو مکمل طور پر تباہ کردیتے ہیں۔ بے حیائی ناجائز تعلقات کو فروغ دیتی ہے۔نوع انسانی کی بقاان تعلقات کا مقصود ہی نہیں ہوتا لہٰذا ضبط ولادت کے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں پھر بھی اگر اولاد اس تعلق کے نتیجے میں دنیا میں آہی جائے تو وہ باپ کے لئے تو عموماً قابل قبول ہی نہیں ہوتی اور ماں کے لئے بھی ایک بوجھ ہی ہوتی ہے۔ نتیجتاً معاشرے میں ایسے بچوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے جن کے پروان چڑھانے میں باپ کا سرے سے کوئی کردار نہیں ہوتا۔ سنگل پیرنٹ کی حیثیت سے یا تو صرف مائیں ان کی پرورش کرتی ہیں یا پھر بچوں کی دیکھ بھال کے سرکاری اور فلاحی ادارے ان کی پناہ گاہ بنتے ہیں جبکہ ایک ہی صنف کے افراد کے تعلقات تو نوع انسانی کے تسلسل کے خاتمے کا کھلا اعلان ہیں لیکن اس تعلق کو مغربی دنیا میں بالعموم بنیادی انسانی حق کے طور پر قانونی تحفظ دیا جاچکا ہے۔ ان رویوں کے باعث آبادی میں اضافے کی شرح مغرب میں خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ آبادی میں بوڑھوں کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے اور کام کرنے کے لائق افراد کم ہوتے جارہے ہیں۔ اس طرح مغربی تہذیب کے بارے میں اقبال کی یہ پیش گوئی حقیقت بنتی نظر آرہی ہے کہ ’’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی‘‘۔
بے حیائی کے کلچر کی یہی تباہ کاری ہے جس کی بنا پر انسانوں اور کائنات کے خالق نے یہ مستقل حکم دے رکھا ہے کہ ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں فحاشی پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں‘‘(سورۂ نور، آیت19)۔
ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ مغرب کے تجربے اور قرآن کی واضح تنبیہ اور ہدایت کی روشنی میں ہم دیکھیں کہ ایک معاشرے کی حیثیت سے ہم کہاں کھڑے ہیں۔ مغرب خود مول لئے ہوئے جس عذاب کے شکنجے سے نکلنے کی ناکام کوششیں کررہا ہے، آخر ہم اس عذاب کو بخوشی اپنے اوپر مسلط کرنے کے لئے کیوں بے قرارہیں؟ ہمارے ذرائع ابلاغ کے پالیسی سازوں، حکمرانوں ، کاروباری طبقوں، ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں اور خواص و عوام، یہ سب کے سوچنے کی بات ہے۔