علامہ اقبال کو کچھ تو پروفیسر حضرات لے اُڑے، کچھ مولوی اور سیاست دان۔ اقبالیات سے قوم اور دیگر پڑھنے والے اس لئے محروم رہے کہ علامہ کا بہترین کلام نہ اساتذہ نے پڑھا ہے اور نہ ان لکھنے والوں میں پروفیسر حمید احمد خان اور نذیر نیازی جیسے عالم لوگ شامل ہیں۔ علامہ نے خود کہا تھا
آئینِ نو سے ڈرنا، نقش کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
مغربی اقوام کو تو علامہ کے شعر کا مطلب اور پیغام بھی سمجھ میں آگیا مگر مسلمانوں پر گزشتہ چھ صدیوں سے بانجھ پن حاوی ہے۔ کسی ملک میں بھی سائنسی تحقیق کی روایت نہیں ۔ اب یاد کرتے ہیں وہ کہ مسلمانوں میں ابن رشد، ابن سینا، ابن خلدون اور فارابی جیسے فلاسفر بھی تھے۔ اس زمانے کے باپ بھی خواب میں دیکھ لیتے تھے کہ بچہ جو پیدا ہوگا وہ شاعر ہوگا۔ پھر ہم نے اس آنگن سے فردوسی کو نکلتے دیکھا، جس نے شاہنامہ ایران کا اساطیری اور تاریخی رزمیہ لکھا۔ یہ لکھنے میں تین سال کی محنت کے بعد عجم کو زندہ کیا۔ یہ دنیا کی عظیم کتابوں میں شامل ہے۔ دنیا کو رومی کی شاعری اتنی پسند آئی کہ ہر ایئرپورٹ پر آپ کو رومی، ہر زبان میں ترجمہ شدہ ملے گا۔ ہمارے یہاں غالب، اقبال اور فیض کے تراجم، وہ بھی غیر ملکیوں نے بہت کئےہیں۔
ایک اسٹڈی کی گئی ہے کہ لوگ کس قدر پڑھتے ہیں ان کے مطابق مسلمان سال میں صرف6 منٹ پڑھتے ہیں جبکہ یہودی سال میں اوسطاً 72کتابیں پڑھتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر کی جیلوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔ زیادہ تر انسانی اور منشیات کی اسمگلنگ میں پکڑے جاتے ہیں۔ بزنس میں بھی ملاوٹ سے باز نہیں آتے۔ اس لئے پیداوار اور برآمدات میں بھی اعدادوشمار کوئی خوش کن نہیں۔ خلیجی ممالک بہت برسوں تک تیل بیچتے اور عیش کرتے رہے۔ یہ تو دبئی کی ریت نے امارات کو عمارتوں میں بدلنے کا روپ دھارا، تو سیاحت کے سارے سامان فراہم کردیئے۔ ہندوستان کو دیکھ کر پہلے فلم سٹی بنائے اور پھر یونیورسٹیوں اور اسپتالوں میں زیادہ تر غیرملکی اساتذہ لائے گئے۔ دیکھا دیکھی قطر جیسے چھوٹے سے ملک نے بھی اپنی سرزمین کا نقشہ بدلا کہ بین الاقوامی فیسٹیولز ہونے لگے اور سعودی عرب نے بھی خلا میں خاتون بھیجی ۔ اردن اور سعودی خاندانوں میں شادیاں بھی ہونے لگی ہیں۔
اس وقت دنیا میں گوگل جیسی پندرہ کمپنیاں عالمی سطح پر ہرممکن معلومات، تجارت اور اسلحہ کی دوڑ کے سارے کام سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان ساری کمپنیوں کے سربراہ یہودی ہیں۔ تبھی تو چکمہ جو بھی وہ دیں، جب چاہیں عراق اور شام کی لڑائی کرا دیں۔یہودی فلسطینی سرزمین پر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے قابض ہیں، ورلڈ بینک سے لے کر ساری بڑی طاقتوں کی یہی کمپنیاں نسلی گروہ بندی اور مذہبی لڑائیاں شروع کرا دیتی ہیں تو کہیں اپنے ہم نواؤں کو ماہرین معیشت بنا کر، پوری حکومت اور معاشی ڈھانچے کو الٹ پھیر ایسا دیتی ہیں کہ سب لوگ آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ یہی طاقتیں افریقی اور جنوبی امریکہ میں آئے دن فوجی انقلاب لاتی رہتی ہیں۔ انقلاب لانے والے بھی تو دساور سے منگوائے جاتے ہیں۔ اب تو پاکستان سمیت فوجی اور سیاسی امتزاج کا جوشاندہ پیش کر رہے ہیں۔ فوجی بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے، وہ سیاسی شعبدہ بازوں کو تختیاں لگانے کا اختیار دے کر ان کو خوش ہونے کا موقع دیتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ سال میں نہیں، ڈیڑھ ماہ میں جتنے افتتاح ہوئے ہیں، وہ گنیز بک میں لکھے جانے چاہئیں۔
آپ معدنیات کی بین الاقوامی کانفرنس کو لے لیں، یاد دلاؤ یہ ہمارے زمرد کی کانیں تھیں، جو مزدور وہاں لگے ہوئے تھے، وہ اعلیٰ سے اعلیٰ زمرد کبھی نیفے میں اڑس لیتے، یا کہیں اور چھپا کر لے جاتے۔ ہوا کیا آخر، وہ کانیں رل گئیں جیسے روسی اسٹیل مل یا جیسے ریکوڈک۔ میں آپ کو آج سے 25برس پہلے کے زیارت میں لے چلتی ہوں، صبح سیر کو نکلی تو دیکھا کہ کئی جگہ پہاڑوں کے درمیان تلاش کرتے غیرملکی ہمارے دیسی بلوچیوں کو لئے، کبھی کچھ کریدتے، کبھی چن رہےہوتے تھے۔ ایسے منظر میں نے بالاکوٹ اور سوات میں بھی دیکھے۔ تحقیق کرنے کی عادت نہیں جاتی۔ سب جگہ پتہ چلا کہ دنیا کے طبی ماہرین برصغیر میں پرانے زمانے کی جڑی بوٹیاں تلاش کرکے لے جاتے رہے ہیں اور اب کہیں نام ہے Organicتو کہیں آیو رویدک، کہیں یونانی کے نام سے لاکھوں طرح کی دوائیں مارکیٹ میں لے آئے ہیں۔ ہمارے نوجوان میڈیسن پڑھنے ان کے ملک میں جاتے ہیں۔ اب ہلدی اور کوار گندل بھی فیشن بن گئے ہیں۔
بوڑھے ہوکے، پرانی باتیں، بہت عود کر آتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جب ملکہ برطانیہ اپنے شوہر کے ہمراہ پاکستان آئیں تو مجھے یاد ہے کھلی گاڑی میں سوار، ہم سب سڑکوں پر تالیاں خوشی سے بجاتے رہے۔ یہی ہوا جب چو این لائی پاکستان آئے تو راولپنڈی مری روڈ پر لوگ خود بخود قطار میں کھڑے تھے۔ اور اب ایک ڈپٹی پرائم منسٹر چین ،پاکستان آیا تو اسلام آباد میں دو دن کی چھٹی کردی گئی۔ کہا گیا کہ سی پیک کا دس سالہ جشن ہے۔ خود ہی حکومت بتاتی رہی کہ چار سال تک سی پیک بند رہا، جیسے پرانے زمانے میں بچے کی عمر کم لکھائی جاتی تھی ویسے ہی چار سال حذف کرکے دس سالہ جشن منایا گیا۔
تختی لگانے پر میرے ذہن میں ہر روز دکھائی دینے والی تختی گھوم گئی۔ میں روز مارگلہ روڈ سے گزرتی ہوں، جب آج سے کوئی پندرہ برس پہلے کے وزیر صاحب کے نام کے ساتھ تختی لگا دی گئی۔ جیسا کہ ہوتا آیا ہے کہ حکومتیں موسموں سے پہلے بدل جاتی ہیں مگر کسی کو بھی وہ تختی اتارنے اور ہٹانے کی فرصت نہ ملی۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ ڈیڑھ سال میں زیادہ تختیاں لگیں کہ ساڑھے تین سال میں۔کرکٹ ہماری گلیوں سے فیلڈ میں آئی۔ اب فیشن کے تحت کئی سال سے غیرملکی ٹرینرز منگوائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے بچے ٹرینر کے ملک کے بچوں کو شکست دیتے ہیں۔ اب تو زراعت سے معدنیات تک ہمیں سب مل کے نئے سبز باغ دکھائیں گے۔ کمپیوٹر میں ایک لفظ ہے Delete پاکستانی حکومتوں میں یہ بہت استعمال ہوتا ہے کہ جب بھی حکومت بدلتی ہے، ہمارے افسروں کو فقرے بدلنے کی عادت ہوچکی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)