پاکستان اور ایران کے درمیان گزشتہ روز طے پانے والا پانچ سالہ اسٹریٹجک تجارتی معاہدہ کئی حوالوں سے نمایاں اہمیت کا حامل ہے ۔ پاکستان اور ایران نہ صرف جغرافیائی بلکہ صدیوں پر محیط تاریخی، مذہبی ، ثقافتی اور اقتصادی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ تاہم ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے باہمی تجارتی روابط طویل مدت تک متاثر رہے ۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی جو پاکستان کو توانائی کے بحران سے نجات دلانے میں نہایت مؤثر کردار اداکرسکتا ہے، اسی بنا پر تاخیر کا شکار چلاآرہا ہے لیکن اب خطے میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ اور چینی قیادت کی کوششوں سے سعودی ایران تعلقات کی بحالی نے علاقے میں امریکی من مانیوں کا راستہ روکا ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جنہوں نے پاک ایران تجارتی معاہدے کو ممکن بنایا جس پر اسلام آباد میں وزرائے خارجہ کے دستخطوں کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ معاہدے سے باہمی تجارت 5 ارب ڈالر تک بڑھے گی ۔ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کا کہنا تھا کہ معیشت، تجارت اور ثقافت پر دونوں ملکوں میں کام ہو رہا ہے، گیس پائپ لائن منصوبہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، ایران، چین اور پاکستان کے درمیان مشترکہ سرمایہ کاری منصوبہ شروع ہونا چاہیے۔پاک ایران بارڈر مارکیٹوں کے قیام سے تجارت میں آسانی ہو رہی ہے اور اس میں مزید وسعت کی گنجائش ہے۔ بلاشبہ دونوں ملکوں کے ہمہ پہلو روابط میں اضافہ دونوں کے مفاد میں ہے۔ تاہم دونوں ملکوں کی درآمدات اور برآمدات میں توازن ضروری ہے۔ گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی اب جلد مکمل ہوجانا چاہیے جس میں تاخیر پاکستان پر 18 ارب ڈالر جرمانے کا سبب بن سکتی ہے، نیز ایران سے پٹرول کی اسمگلنگ کے بجائے جو برسوں سے جاری ہے، باقاعدہ سستا پٹرول درآمد کرکے پاکستان کو درآمدی بل میں کمی کا اہتمام کرنا چاہئے۔