• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیس عوام کو انصاف فراہم کرنیوالے اداروں میں پہلی سیڑھی کی حیثیت رکھتی ہے۔اور عوام کا سب سے زیادہ واسطہ جس محکمے سے پڑتا ہے وہ پولیس ہے۔ بدقسمتی سے کچھ ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ ہوتے رہے ہیں جن کی بنا پر عوام اور پولیس کے مابین خلیج دن بدن بڑھی ہے۔ اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ایک طرف تو عوام اپنی پولیس پر ناخوش رہے تو دوسری طرف پولیس کے اپنے حالات کار بھی انتہائی نا گفتہ بہ ہیں۔ تھانوں کی سطح پر کام کرنیوالے پولیس اہلکاروں کے احوال ناقابل بیان ہیں۔ نہ ان کیلئے رہائش کے مناسب انتظامات ہیں اور نہ ہی کام کرنے کیلئے بہتر ماحول میسر ہے۔اوپر سے انکی ڈیوٹی ہر قسم کے نظام الاوقات سے ماورا ہے۔ ایک پولیس اہلکار مسلسل کئی کئی دن بغیر آرام کے ڈیوٹی کرتا ہے۔ اور پھر جب اسکے سبب مزاج میں چڑچڑا پن آتا ہے تو اسکے منفی اثرات پورے محکمے پر مرتب ہوتے ہیں۔پنجاب پولیس میں بہت کم سربراہ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اہلکاروں کے حالات پر توجہ دی ہو۔ لیکن گزشتہ چند مہینوں میں جس تیزی کیساتھ پنجاب پولیس میں تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں انہوں نے مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ڈاکٹر عثمان انور سے پرانی یاد اللہ ہے۔ جب وہ سرگودھا میں بطور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر خدمات سرانجام رہے تھے تب مجھے انہیں کام کرتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملا۔بلا شبہ وہ ایک چاق و چوبند، مستعد اور متحرک پولیس افسر ہیں۔ فائلیں دیکھتے ہوئے سائلین کی بات سننا اور پھر دونوں طرف مناسب احکامات جاری کرنا یہ انکی شخصیت کا حیران کن خاصا تھا۔جدید ٹیکنالوجی کا پہلی مرتبہ استعمال کرکے خطرناک مجرم گرفتار کیے گئے لیکن ان کی صلاحیتوں کا اظہار جس طرح آئی جی پنجاب تعینات ہونے کے بعد ہوا وہ متاثر کن ہے۔ ڈاکٹر عثمان انور نے پنجاب پولیس کے تن مردہ میں جان ڈال دی ہے۔ پنجاب پولیس میں خدمات سرانجام دینے والے ایک سینئر پولیس افسر نے مجھے بتایا کہ گزشتہ چار مہینوں میں 30 ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کو ترقیاں دی گئی ہیں۔ کانسٹیبل سے ہیڈ کانسٹیبل،پھر اے ایس آئی،اے ایس آئی سے سب انسپکٹر، سب انسپکٹر سے انسپکٹر، اور پھر انسپکٹر سے ڈی ایس پی تک،ترقی کا ایک ایسا سست اور جامد نظام کار فرما تھا کہ ایک اہلکار 15 15 سال کانسٹیبل کے طور پر ہی خدمات سرانجام دیتا رہتا تھا،اور بعض اہلکار اسی عہدے پر ریٹائرڈ ہو جاتے۔ انہوں نے ترقی اور پرموشن کے عمل کو فاسٹ ٹریک پر ڈالا ہے تو دوسری طرف قوم کیلئے جان قربان کرنیوالے شہداء کے خاندانوں کیلئے غیر معمولی اہتمام کیا۔ان چار ماہ کے دوران شہدائے پولیس کے ورثا اور ڈیوٹی کے دوران وفات پانے والے ملازمین کے لواحقین کو 200 کروڑ روپے کی مالیت کے گھر دیئے جا چکے ہیں۔پولیس ویلفیئر کا شعبہ پولیس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ماضی میں یہ سب سے غیر فعال شعبہ رہا ہے۔

موجودہ آئی جی کی تعیناتی کے بعد صرف ان چار ماہ کے دوران 170کروڑ روپے پولیس ملازمین کی ویلفیئر پر خرچ کئے جا چکے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کو کیش ایوارڈز ماضی میں بھی دیئے جاتے رہے ہیں۔لیکن جس تیزی سے ان چار ماہ میں انعامات دیے گئے اسکی مثال نہیں ملتی۔ان چار ماہ کے دوران 85کروڑ روپے اس مد میں دیے جا چکے ہیں۔ان انعامات کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب پنجاب پولیس کا کپتان اپنے ماتحتوں کو انعام دینے سے پہلے گلے لگاتا ہے ان کا ماتھا چومتا ہے ان کے بچوں کو اٹھا کر پیار کرتا ہے۔ ایک اے ایس آئی کیلئے اس سے بڑے اعزاز کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے کندھوں پر اسکے والد کے ہاتھوں بیجز لگائے جا رہے ہیں اس کی فیملی کے افراد کو خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا ہے۔اور پہلی مرتبہ یہ احساس کیا گیا ہے کہ پولیس ملازمین کو نہ صرف میرٹ پر تقرریاں دی جائیں بلکہ ان کی عزت نفس بحال کرنے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔پنجاب پولیس کا میڈیکل الاؤنس تین کروڑ سے بڑھا کر 63 کروڑ کر دیا گیا ہے،کیش انعام کی مد میں 10کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں،انویسٹی گیشن فنڈ میں سو گنا اضافہ کیا گیا ہے،پنجاب پولیس کے غازیوں کے لیے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں،ٹریفک وارڈنز کو بھی ترقیوں کے عمل میں شامل کیا گیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر عثمان انور نے ایک باپ کی طرح محکمے کو اپنے سینے سے لگایا ہے۔پولیس کا مورال زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچایا ہے۔ڈاکٹر عثمان انور نے محکمے کو اخلاقی طور پر کھڑا کرنے میں اپنا کردار ادا کر دیا ہے اب پولیس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنا حق ادا کرے تھانوں کو واقعتا دارالامن بنایا جائے،ٹاؤٹ نما افراد کی حوصلہ شکنی کی جائے۔راہزنی کی وارداتوں پر قابو پایا جائے،میں آئی جی پنجاب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اب ہر شہر میں چھوٹے بچوں کے پاس اسلحہ کی فراوانی ہے،بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں،ضلع سرگودھا میں گزشتہ چند ماہ کے دوران،جنسی زیادتی اور بلیک میلنگ کے باعث بچوں کے خود کشی کے واقعات میں خطرناک اضافہ ہوا ہے،اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دکھتے ہوئے معاشرتی مسائل پر اسی طرح قابو پایا جائے جس طرح انہوں نے پنجاب پولیس کے مسائل پر قابو پایا ،معاشرتی ناسوروں کو لگام ڈالی جائے۔ آج پنجاب پولیس کا ہر اہلکار ان کیلئے دعا گو ہے اگر وہ مذکورہ مسائل پر توجہ دیں گے تو پنجاب کا ہر گھر ان کیلئے دعا گو رہے گا۔

تازہ ترین