اپنے مغربی سفارت کار دوست سے گفتگو کرتے ہوئے اس کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا تھا کہ آئی ایم ایف کے حالیہ رویےنے پاکستانی ذہن پر ایک خاص قسم کا نقش ثبت کردیا ہے ، پاکستان تو سوویت روس کے وقت سے لیکر دوحہ معاہدے تک ہمیشہ اپنے مغرب کے دوست ممالک کے ساتھ منسلک رہا ہے لیکن جب کبھی پاکستان کسی مشکل کا شکار ہوا اور خاص طور پر اگر یہ وقت جمہوری دور میں آیا تو پریسلر ترمیم سے لیکر حالیہ رويے تک کاسامنا کرنا پڑا اور اسی لئے پاکستان میں چین کے حوالے سے بہت مثبت تصورات قائم ہیں کہ اس کا رویہ پاکستان کے ساتھ ہمیشہ ایک جیسا دیکھنے میں آیا ۔ اپنے دوست کی چین کے نائب وزیر اعظم کی حالیہ دورے کے دوران گفتگو کی طرف توجہ دلائی کہ انہوں نے اپنا سارا مدعا صرف اقتصادی تعلقات تک بیان کیا اور سنتے ہوئے اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ چین کا سی پیک کی کامیابی حاصل کرنے سے صرف ایک مقصد ہے کہ وہ اور پاکستان اقتصادی میدان میں شانہ بشانہ چلیں اس منصوبےکو سرے سے کسی دوسرے ملک کے خلاف یاکوئی تزویراتی تبدیلی متصور نہیں کرنا چاہئے ۔ لاہور واپسی پر لاہور میں متعين چینی قونصل جنرل کے ساتھ پہلے ہی یہ طے ہو چکا تھا کہ پنجاب میں سی پیک کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کے مطالعہ کی غرض سے ایک وفد تشکیل دیا جائے جو چار روز تک مختلف منصوبوں کا دورہ کرے اور تمام امور کا خود مشاہدہ کرے ۔ لہٰذا واپسی پر وفد تشکیل کیا اور چار روز مختلف منصوبوں کے مطالعاتی دوروں پر رہے ،گزشتہ دس سال میں ایسے کسی وفد کا یہ پہلا دورہ تھا ۔ پاکستان میں عوامی ٹرانسپورٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے اورینج لائن ٹرین لاہور کے منصوبہ کو امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔ یہ بات بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں پہلی الیکٹرک ٹرین ہے اور اب تک 10کروڑ مسافروں کو بین الاقوامی معیار کی سفری سہولیات فراہم کر چکی ہے جس میں صفائی کے معیار سے لے کر مسافروں کی سلامتی کو یقینی بنانے والے تمام اقدامات شامل ہیں،اسکے ساتھ توانائی کے بہتر استعمال کیلئے اورینج لائن کے اسٹیشنوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے پر بھی کام جاری ہے ۔ فیصل آباد کو پاکستان کی معاشی زندگی میں ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کو اس شہر میں تخلیق کیا جا رہا ہے ۔ 3217 ایکڑ کے وسیع رقبے پر مشتمل یہ خصوصی اکنامک زون ایم تھری پر واقع ہے اور فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی اس کا نظم و نسق سنبھال رہی ہے ۔ ٹیکسٹائل ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، فارماسیوٹیکل ، آٹو موٹو اور دیگر صنعتوں پر دھڑا دھڑ کام ہو رہا ہے ۔ پاکستانی ہنر مندوں کو بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع ميسر آرہے ہیں ۔ صرف ٹائم سیرامک کمپنی ہی نے پاکستانی مارکیٹ میں 23 فیصد حصہ وصول کرنا شروع کردیا ہے جبکہ برآمدات کا بھی آغاز کردیا گیا ہے ۔ اس کمپنی کے ملازمین میں سے 95 فیصد پاکستانی ہیں اور ان میں سے بیس فیصد خواتین ہنرمند ہیں ۔ ساہیوال کول پاور پروجیکٹ سی پیک کے تحت پہلا توانائی کا منصوبہ تھا اور اس کو بناتے ہوئے اصل چیلنج یہ تھا کہ کوئلہ کے استعمال سے ماحول کو نقصان نہ پہنچےلہٰذا اس 1320 میگا واٹ کے منصوبے کو مکمل طور پر ماحول دوست بنایا گیا اور بین الاقوامی معیار جو ورلڈ بینک ، مغرب ، جاپان اور پاکستان نے طے کر رکھا ہے اس کی مکمل طور پر پاسداری کی گئی ۔ ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی لاگت آئی اور اس کے طفیل بجلی کی جو کمی تھی اس میں ایک چوتھائی کمی واقع ہوئی،چالیس لاکھ گھروں کو اس سے روشن کیا گیا ، پاکستانی انجینئرز کو تربیت بھی فراہم کی جا رہی ہے اور اس پروجیکٹ کو ہی چین کی پاور انڈسٹری کا سب سے بڑا ایوارڈ چائنہ نیشنل کوالٹی انجینئرنگ گولڈ ایوارڈ بھی دیا گیا ہے ۔
لاہور اگلے سال لوڈ شیڈنگ سے نجات پا جائے گا کیوں کہ پاک مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن مزید دو لائنوں پر کام کر رہی ہے۔ یہ سی پیک کے تحت ٹرانسمیشن لائن کا پہلا منصوبہ ہے جس میں 886 کلو میٹر طویل ٹرانسمیشن لائن سندھ سے لاہور تک بچھائی گئی ہے ۔ لاہور کنورژن سائٹ پر یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ لاہور کی اور عنقریب پورے پاکستان کی انہی منصوبوں کی بدولت لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے جان چھوٹ جائیگی اور اگر توانائی کے بحران کا خاتمہ ہو گیا تو ایسی صورت میں جو ہدف دو ہزار سترہ میں بس سامنے تھا کہ دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں پاکستان شامل ہونے والا تھا وہ اب حاصل ہو جائے گا ۔ شنگھائی یو آنی انڈسٹریل کمپنی لمیٹڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بہت فعال کردار ادا کر رہی ہے اس نے سب سے پہلے شنگھائی میں دو یونٹس لگائے اور تیسرا یونٹ پاکستان میں لگایا گیا ہے ۔ اس کمپنی نے تین سو ملازمین کے ساتھ کام کا آغاز کیا تھا اور اب اس کے ملازمین کی تعداد چار ہزار ہے جبکہ یہ کمپنی پاکستان کے پہلے سو برآمدگان میں شامل ہو چکی ہے ۔ یہ تو صرف ایک جھلک ہے کہ سی پیک اور پاک چین دوستی کے کیا ثمرات پاکستانی عوام کو حاصل ہو رہے ہیں ۔ یہ خالص طور پر ایک اقتصادی منصوبہ ہے اور ہمیں اس کو کسی اسٹرٹیجک نوعیت کے معاملات سے نہیں جوڑ دینا چاہئے کیوں کہ دنیا اب سرد جنگ اور اس کی سوچ سے بہت آگے نکل چکی ہے ۔ سی پیک کو ہی لے لیجئے اس کے نتیجہ میں برآمدات صرف چین تک ہی محدود نہیں ہونگی بلکہ ایک دنیا اس کا ہدف ہے اور غیر ضروری گفتگو کرکے دنیا کو اس حوالے سے مشتبہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔