• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مارکسی فلسفی،مزاحمتی ادب وسیاست کے بے بدل راہ رو، باچاخان کی وطن دوست اور قوم پرست و ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہنے والے شاعر، سیاستدان، لکھاری اور پاکستان، افغانستان اور ایک جہاں میں جانے اور چاہے جانے والے شمس بونیری کو گزشتہ روز ان کے آبائی گائوں غازی خانے بونیر میں ان گنت سوگواروں نے اشکبار آنکھوں سےسفر آخرت پر روانہ کیا۔

شمس بونیری وہ ہیں جن کی نوجوانی کے زور کو بھٹو صاحب کے جبر نے کم کرنے کی کوشش کی اور جن کی جوانی کو ضیا صاحب کے دور میں چار مرتبہ قید و بند کی صعوبتوں نے آزمایا۔ اس دور میں بدنام زمانہ ٹارچر سیل (قلعہ بالاحصار) میں ان پر روا رکھے جانے والے تشدد کے گواہ آج بھی پھولوں کے شہر پشاور کے اکثر باسی ہیں۔ اس دور میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی، اُنہوں نےہری پور جیل سے گریجویشن اور پشاور سےایم اے سیاسیات وایل ایل بی کیا۔ یہ ناچیز زمانہ طالب علمی میں ان سے ملنے پشاور جیل گیا، این ڈی پی کے فرید طوفان لالہ کے بھائی حمیداللہ بھی ان کے ہمراہ اسیر تھے، دونوں پر بموں کی برآمدگی کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا تھا، میں نے اُنہیں اپنی ایک نظم دی جو اُنہوں نے جیل سے شہباز اخبار بھیجی اور شائع ہوئی وہ میرے اولین اُستاد تھے، جبکہ اب شاعری میں ساگر تنقیدی صاحب اصلاح کرتے ہیں۔ ضیاء دور کے خاتمے کیساتھ ہی دیگر سیاسی قیدیوں کی طرح شمس بونیری بھی رہا ہو گئے، وہ اسیر زنداں کہلائے جاتے تھے۔ یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ ضیاء صاحب کے مارشل لا کے نزول کے دو سال بعد جب ہم کالج گئے تو ہمارے پیارے دوست معین غم، جنہیں فارغ التحصیل ہونے کے کئی برس بعد اس شہر میں دہشت گردوں نے شہید کر ڈالا تھا، اُنہوں مجھے انقلابی شاعری سے مزین شمس بونیری کی کتاب سور سحر (سرخ سویرا) دی، قبل ازیں میں اجمل خٹک مرحوم کی شعری کتاب دا غیرت چغہ (غیرت کی پکار) کو ازبر کر چکا تھا، شمس بونیری نیپ کے ارباب سکندر خان خلیل کے حجرے جاتے اور وہاں رہائش پذیر اجمل خٹک بابا سے فیض پاتے۔ شمس بونیری اجمل خٹک بابا کے زیرِ اثر تھے۔ راقم کو اُس دور میں اکثر بڑے قوم پرست وترقی پسند رہنمائوں کے جلسوں میں نظامت کا اعزاز ملا، یہاں تک کہ 1986ءمیں بنارس (باچا خان چوک) میں حضرت باچا خان کےکراچی میں آخری تاریخی جلسے کی نظامت کی سعادت بھی اِس ناچیز کو حاصل ہوئی۔

شمس بونیری کی شاعری جاگیردارانہ سماج اور استحصالی نظام کیخلاف ولولوں اور جذبوں کو مہمیز دیتی۔ کہا جاتا ہے کہ شمس بونیری کے سور سحر (سرخ سویرا) کو پشتو انقلابی ادب و سیاست میں وہی مقام حاصل ہوا جو جناب اجمل خٹک باباکے ’دَا غیرت چغہ‘ کو حاصل تھا۔ سرد جنگ کے دوران امریکا کی کامیاب حکمت عملی پاکستان کی اعانت اور دوست عرب ممالک کی ہمنوائی کے باوصف اشتراکی سویت یونین کے 17ٹکڑے ہوئے، اس کے بعد اگرچہ انقلابی سیاست ضعف پذیر ہوئی لیکن رجعت پسند بھی بے روزگار ہو گئے۔ امریکا واحد سپر پاور بنا اور پاکستان اور پاکستانی عوام کے حصے میں کچھ نہ آیا، بنابریں اب تو ہمارے حکمران کاسہ گدائی لئے پھرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت اور ہم ہی سے آزادی لینے والے بنگلہ دیش کی معیشت اس قدر توانا ہے کہ ہم دو دہائی تک بھی اُن کی موجودہ پوزیشن کو نہیں پا سکتے، ہمارے ہاتھ میں کشکول اسی لئے توآ یاکہ ہم نے اپنا قیمتی وقت عالمی سامراج کی خاطر سویت یونین کے بخرے کرنےکے خبط میں گنوادیا!!

ہم بات سردجنگ کے دوران اپنے عوام کا کل روشن کرنے کیلئے جدوجہد کرنے والے شمس بونیری کی کررہے تھے، اُن کا کہنا تھاکہ میں دنیا میں دو ہی شخصیات سے متاثر ہوں ایک کارل مارکس اور دوسرے باچا خان۔ شمس بونیری، ضیا صاحب کے مارشل لا کے بعد سیاست کے ساتھ روزی روٹی کیلئے وکالت بھی کرتے رہے۔ کوئی عشرے قبل جب وہ حج کی سعادت کے بعد واپس بونیر آئے تو اس ناچیز نے شمس بونیر ی پر ایک کالم لکھا، جس میں جہاں اُن کی سیاست و جدوجہد پر بات کی تو یہ بھی لکھا کہ تازہ خبر یہ ہے کہ مارکسی فلسفی شمس بونیری حج کی سعادت کے بعد واپس آ گئے ہیں، کالم پڑھنے کے بعد اُنہوں نے( میرے دوسرے گائوں) بامپوخہ بونیر سے بردار یوسف خان کے فون سے مجھ سےرابطہ کیا، اور زورسے ہنسے ، وہ صاحبِ نظر اور تنقیدوتنقیح برداشت کرنے والے نفیس انسان تھے۔ وہ ایک سچے انقلابی کی طرح عام انسانوں کی بقا کی خاطر فنا کی قربان گاہ میں سب سے پیش پیش و ممتاز تھے ۔ جب میں بیمارہوا تو تین چارمرتبہ میری بیماری پرسی کی اور ہمت بڑھا ئی ۔مرحوم زندگی کے آ خری دم تک باچا خان کی انسانیت دوست سیاست سے وابستہ رہے۔آ پ اُن چنیدہ شخصیات میں سے ایک تھےجنہوں نے چمنستانِ ادب وسیاست کو اصول پسندی وبے غرضی اور دیدہ وری سے منور کئے رکھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین