• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رضوانہ تشدد کیس، جج کی اہلیہ کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری مسترد

فائل فوٹو
فائل فوٹو

گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کیس میں مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے  ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواستِ ضمانت بعد از گرفتاری مسترد کر دی۔

سول جج کی اہلیہ کو جج شائستہ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

اس موقع پر جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی اور وکیل صفائی قاضی دستگیر میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔

سماعت کے آغاز میں وکیلِ صفائی قاضی دستگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سومیہ عاصم کے خلاف درج مقدمے میں وقتِ وقوعہ نامعلوم لکھا ہوا ہے، وکیل صفائی کی جانب سے مقدمے کا متن پڑھا گیا۔

وکیل قاضی دستگیر نے کہا کہ ویڈیو کے مطابق بچی کو والدہ کے حوالے صحیح سلامت کیا گیا، میری موکلہ نے بچی کو والدہ کے خود حوالے کیا، بچی بس اڈے پر بیٹھتی ہے اور ایک صحت مند فرد کی طرح لیٹ بھی جاتی ہے، میڈیا پر مخصوص فوٹیجز چلائی گئی ہیں، ویڈیوز ڈیڑھ گھنٹے کی ہیں، بچی خود دروازہ کھولتی ہے، دروازے سے کھیلتی ہے، ڈرائیور کے بیٹھنے پر بچی خود گاڑی سے اترتی ہے، سادہ الفاظ میں سومیہ عاصم کے خلاف کہانی بنائی گئی ہے، زخم میں کیڑے گھر میں پڑے ہوئے تھے تو بس اڈے پر کیڑے کہاں گئے؟

جج کے استفسار پر بس اڈے کی ویڈیو چلائی گئی

کمرۂ عدالت میں جج شائستہ کنڈی کے استفسار پر بس اڈے کی ویڈیو چلائی گئی۔

سماعت کے دوران جج نے رضوانہ کی والدہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کی بچی اسکارف پہنتی ہے؟

رضوانہ کی والدہ نے رو کر جج کو جواب دیا کہ نہیں، میری بیٹی اسکارف نہیں پہنتی۔

جج نے بچی کی والدہ سے سوال کیا کہ کیا بات ہوئی گاڑی کے اندر سومیہ عاصم سے؟ سچ بتانا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سومیہ عاصم نے کہا بچی کام نہیں کرتی، اسے واپس لے جاؤ، میں نے بچی سے پوچھا بیٹی کیوں نہیں کام کرتیں، رضوانہ نے جواب نہیں دیا، ڈرائیور نے دھمکی بھی دی ہم بڑے لوگ ہیں، میں ڈر گئی تھی۔

 وکیل صفائی نے کہا ویڈیو میں بچی کو صحیح سلامت والدہ کے حوالے کیا گیا ہے، مقدمے کے مطابق سومیہ عاصم نے ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کیا، ڈھائی گھنٹے بچی بس اسٹینڈ پر موجود رہی، بچی کے سر میں اگر کیڑے پڑے ہوتے تو وہ اپنا سر کھجاتی، بچی حوالے کی نہ تو تشدد تھا اور نہ سر میں کیڑے تھے نہ پسلیاں ٹوٹی تھیں، ڈھائی گھنٹے کی ویڈیو کا مقصد، بچی کیسے خود سے گاڑی سے اتر کر چلتی دکھائی دیتی ہے، گاڑی سے اترنے پر والدہ ایک بار بھی بچی کا زخم نہیں دیکھتی۔

جج نے کہا کہ بچی کے اترنے پر والدہ کیوں فوراً زخم چیک کرے گی پہلے تو بچی کو اتارے گی۔

وکیل صفائی نے کہا کہ سات ماہ بعد بھی ملنے پر بچی کو چیک نہیں کیا، گاڑی میں والدہ اپنی بچی کے ساتھ 10 منٹ سے زائد بیٹھتی ہے، سومیہ عاصم بھی موجود ہے، گاڑی کے اندر ہی سومیہ عاصم اور والدہ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوتی ہے۔

پراسیکیوٹر وقاص حرل نے کہا کہ اپنی طرف سے سوچ بنا کر تو دلائل نہ دیں۔

 میں سب کچھ ریکارڈ پر لاؤں گی، جج

جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ میں سب کچھ ریکارڈ پر لاؤں گی، یہاں صرف انصاف ہوگا۔

وکیلِ صفائی نے کہا کہ بقول رضوانہ کے تشدد 5 بجے ہوا، بس اڈے پر 7 بجے حوالے کیا گیا، 6 گھنٹے 12 منٹ کی کوئی طبی رپورٹ نہیں، زخم اسی دوران دیے۔

جج شائستہ کنڈی نے وکیلِ صفائی سے استفسار کیا کہ بچی کو کس نے زخم دیے؟

اس کہانی میں نہیں جاتے، کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، وکیلِ صفائی

وکیلِ صفائی نے کہا کہ اس کہانی میں نہیں جاتے، کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، کچھ نہیں لکھا گیا کہ زخم کتنے پرانے ہیں، مقدمے کے مطابق سرگودھا کے اسپتال نے فورا لاہور بھیج دیا، سومیہ عاصم کے خلاف دفعہ 324 چھ دنوں بعد مقدمے میں ڈالی گئی، 7 ماہ حبس بے جا میں رکھنے کا الزام ہے، والدہ نے تو فون پر بھی بات کی، معلوم نہیں والدہ کس کے ساتھ فون پر ڈھائی گھنٹے بات کرتی رہی۔

وکیلِ صفائی نے سرگودھا والی طبی رپورٹ مہیا کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وقوعہ سے لے کر 7 دنوں کا معاملہ ہے، سرگودھا پہنچنے پر 12 گھنٹے کہاں گئے؟

جج شائستہ کنڈی نے سوال کیا کہ بچی زخمی تو ہے ناں؟ کس نے زخمی کیا؟

وکیلِ صفائی نے کہا کہ کل کی ویڈیو میں والدہ نے پوچھا بچی مٹی کھاتی تھی، گاؤں میں خواتین ملتانی مٹی کھانے کی عادی ہوتی ہیں، بچی کی والدہ کو کیا دانے نکلے؟ مالی نے کھاد ڈالی اور بچی نے مٹی کھائی، بچی کو دانے نکل آئے، مقدمے میں مٹی کھانے کا ذکر نہیں، اس کو زہر کا تاثر دیا جا رہا، بچی کے ساتھ کوئی خاتون ایسا تشدد کیسے کرسکتی ہے؟ کوئی سوچ بھی کیسے سکتا؟ میڈیا پر کالے زخم دکھائے جا رہے، ہم خاموش ہیں، بچی طورخم بارڈر پر سول جج کی فیملی کے ساتھ انجوائے کر رہی ہے، میرے پاس تصاویر ہیں۔

جج نے وکیلِ صفائی سے استفسار کیا کہ کیا تصاویر موجود ہیں؟

میرے پاس تصاویر ابھی موجود نہیں، لادوں گا، سومیہ عاصم سول جج کی اہلیہ ہیں۔

یہاں سومیہ عاصم ملزمہ ہیں، جج

جج نے کہا کہ چھوڑ دیں، سول جج کی اہلیہ، یہاں سومیہ عاصم ملزمہ ہیں، اب یہ بات نہیں کہنا۔

وکیل صفائی نے کہا کہ بچی سومیہ عاصم کے پاس ملازمت پر نہیں تھی جس پر جج نے کہا کہ دو دن پہلے سومیہ عاصم نے عدالت میں کہا کہ بچی کو پیسے دیتی رہی۔

وکیل صفائی نے کہا کہ امریکا میں زنیرا نامی عورت امداد بھجواتی تھی، وہی بچی کو دیتے تھے، رضوانہ کے والدین کے پاس گھر نہیں تھا، دس دس ہزار امداد سومیہ بھی دیتی تھیں۔

جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ گھر میں بچی کیوں رکھی ہوئی تھی؟

وکیل صفائی نے کہا کہ شادی پر ملاقات ہوئی، فیصلہ ہوا تین تین بچیاں لے کر جائیں گے اور امداد دیں گے، بچی فلاحی نیت سے رکھی ہوئی تھی، بچی کو قاری صاحب بھی آکر گھر میں قرآن پڑھاتے تھے۔

جج نے وکیل صفائی سے استفسار کیا کہ کیا کوئی دستاویزات ہیں کہ بچی کو امداد دی جاتی تھی؟

وکیل صفائی نے کہا کہ میرے پاس کوئی دستاویزات نہیں، فلاحی کام کا مثالی کیس ہے۔

جج شائستہ کنڈی نے دلائل دہرائے کہ وکیل صفائی کہہ رہے ہیں فلاحی کام کا مثالی کیس ہے۔

جج نے کہا کہ آپ بار بار زبانی باتیں کر رہے ہیں، پچاس ہزار کیوں بھیجا؟

وکیل صفائی نے کہا کہ صاف سی بات ہے، سومیہ عاصم کو بلیک میل کیا گیا، سومیہ عاصم اور امریکا میں رہنے والی زنیرا کا معاملہ ہے، فلاحی کام کی دستاویزات موجود نہیں، صرف زبانی باتیں ہیں۔

وکیلِ صفائی نے تمام زبانی کلامی باتیں کی ہیں، پراسیکیوٹر

پراسیکیوٹر وقاص حرل نے کہا کہ وکیلِ صفائی نے تمام زبانی کلامی باتیں کی ہیں، مفروضے بنائے، واقعہ ایک دن کا نہیں، ایک سیریز پر مبنی واقعات ہوئے ہیں، بچی سول جج کے گھر میں تھی اور اس بات کو مان بھی لیا گیا۔

جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ سول جج کے گھر میں بچی تھی لیکن زخموں کو تاحال نہیں مانا گیا۔

پراسیکیوٹر وقاص حرل نے کہا کہ لاہور کی طبی رپورٹ ہے ہی نہیں، بس ایک رائے ہے۔

جج نے پراسیکیوٹر وقاص حرل سے استفسار کیا کہ بچی رضوانہ اسپتال میں کیوں ہے؟

بچی رضوانہ آئی سی یو میں نہیں ہے، پراسیکیوٹر

پراسیکیوٹر وقاص حرل نے بتایا کہ بچی رضوانہ آئی سی یو میں نہیں ہے، طبی ٹریٹمنٹ دی جا رہی ہے، سرگودھا لاہور یا اسلام آباد کی طرح کا شہر نہیں، بڑا گاؤں ہے، سرگودھا کے سرکاری اسپتالوں کا حال بھی ہمیں معلوم ہے۔

جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ عموماً مریض جب اسپتال جاتا ہے تو ابتدائی سلپ بن جاتی ہے۔

پراسیکیوٹر وقاص حرل نے کہا کہ رضوانہ کے والدین انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اسپتال والے پولیس کو کال کرتے ہیں، والدین کو کال نہیں کرتے، زخم ویسے ہی بتائے گئے جیسے سومیہ عاصم کے خلاف مقدمے میں تحریر ہیں، رضوانہ کو زخم 14 نہیں بلکہ17 ہیں، پوری کھوپڑی متاثر ہے۔

وکیل صفائی نے کہا کہ رضوانہ کے زخم والدہ کے حوالے کرنے کے بعد کے ہیں۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ سومیہ عاصم کے خلاف ناقابلِ ضمانت دفعات لگی ہوئی ہیں۔

طاہرہ بتول کیس کا حوالہ دے کر پراسیکیوٹر نے درخواست ضمانت خارج کرنے کی استدعا کی۔

جج نے کہا کہ آپ سرکاری وکیل ہیں، دلائل دیتے ہیں، کاپیاں توآپ کے پاس ہونی چاہئیں۔

 پراسیکیوٹر کو مختلف عدالتی فیصلوں کی کاپیاں جمع کروانے کی ہدایت

عدالت نے پراسیکیوٹر کو مختلف عدالتی فیصلوں کی کاپیاں جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔

مدعی وکیل فیصل جٹ نے کہا کہ ماں کے آنسوؤں کو دیکھا جائے، ملک میں پریشانی کا عالم ہے، رضوانہ کو مار مار کر کیا بنا دیا، آنسو نہیں رک رہے۔

جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ عدالت جذبات پر نہیں چلتی، انصاف پر چلتی ہے۔

جج نے وکیل صفائی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ذہن میں رکھیں، آپ سے بھی انصاف کریں گے۔

قومی خبریں سے مزید