اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق سماعت کر رہے ہیں۔
عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے سوال کیا کہ درخواست گزار وکلا کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے اڈیالہ جیل بھیجا آپ نے اٹک بھیج دیا، اڈیالہ جیل سے اٹک جیل منتقلی کا فیصلہ کس کا تھا؟
پنجاب حکومت کی جانب سے اٹک جیل منتقلی کا لیٹر عدالت کے سامنے پیش کردیا گیا۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی شیر افضل مروت نے کہا کہ ہمیں بھی لیٹر کی کاپی فراہم کی جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ایک چیز بتائیں کیا وکلا ملزمان سے نہیں مل سکتے ؟ جس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ 7 اگست کو ایک وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سے ملے، وکیل صاحب نے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے وکالت نامے دستخط کرائے۔
عدالت نے پوچھا کہ کیا صرف وکالت نامےدستخط کرانے کے لیے وکیل اپنے کلائنٹ سےجیل میں مل سکتا ہے؟ اس طرح اجازت نہ دینا تو عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت میں آ جائے گا۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ 7 اگست کو ہم نے ملنے کی اجازت دی 8 اور 9 اگست کو یہ دیر سے پہنچے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ ملاقات صبح 8 بجے سے دو اور تین بجے تک بھی ہو سکتی ہے کیا یہی ہے؟
پنجاب حکومت کے وکیل نے چیف جسٹس اسلام آباد کو جواب دیا کہ جی بالکل اسی طرح ہی ہے۔
عدالت میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارے 180 کیسز ہیں، ہم نے چیئرمین پی ٹی آئی سے ایڈوائس لینا تھی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر وکیل کسی اور کیس میں جانا چاہے تو طریقے سے ملاقات ہونی چاہیے پرچے نا ہوں۔
اس موقع پر وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ یہ ہائیکورٹ ہے اگر کوئی یہاں غلط بیانی کرے گا تو اس کے اثرات ہوں گے، انہوں نے کہا میں کل وہاں ساڑھے چار بجے پہنچا آج یہ یہاں ہر غلط بیانی کر رہے ہیں، پنجاب حکومت کا نمائندہ یہاں بیان حلفی دے دے کہ ہم کل ساڑھے چار بجے پہنچے۔
اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ میں اسی لیے اتنی تفصیلات میں جا رہا ہوں تاکہ آئندہ ایسا کچھ نا ہو۔
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقاتوں پر بھی تذلیل کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی بڑی پارٹی کے لیڈر، سابق وزیراعظم اور ساتھ ہی سزا یافتہ ہیں، دونوں چیزوں کو اکٹھے لے کر چلنا ہے، جو حقوق چیئرمین پی ٹی آئی کے ہیں وہ ملنے چاہییں۔
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ 48 گھنٹوں میں انہوں نے جیل کلاس کا فیصلہ کرنا تھا جو نہیں کیا، سب سے پہلے مرحلے میں یہ ٹرائل جج کا کام تھا، رولز کے مطابق ٹرائل کورٹ سپریٹنڈنٹ جیل اور ڈی سی ہے جو ا تھارٹی ہیں۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ یہ کہہ رہے ہیں اڈیالہ جیل میں قیدی زیادہ ہیں حالانکہ یہاں سیکیورٹی زیادہ اچھی ہے، اڈیالہ جیل میں بی کلاس ہے اور میڈیکل سہولت اٹک سے زیادہ ہے، کس قانون کے تحت انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ کے بجائے اٹک جیل منتقل کیا؟ پاکستان کی تمام جیلوں میں قیدی جگہ سے زیادہ ہیں، اب یہ کہہ رہے ہیں ایک چیئرمین پی ٹی آئی کی وجہ سے جیل میں جگہ بھر جائے گی۔
اس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہم نے 5 ڈاکٹرز جیل میں ان کے لیے رکھے ہوئے ہیں، ڈی ایچ کیو میں پہلے معاملہ بھیجا جاتا ہے پھر بورڈ ہوتا ہے وہ دیکھتا ہے۔
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ نواز شریف کے کیس میں ڈاکٹر عدنان روزانہ ان کے پاس جاتے تھے۔
عدالت نے سوال کیا کہ آپ بتا دیں اس ہائی پروفائل کیس میں کیا پوزیشن تھی؟ جس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ اس وقت مجھے نہیں پتہ۔
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ آپ اڈیالہ جیل سے ریکارڈ منگوا لیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ اگر کوئی اپنے ذاتی معالج سے چیک اپ کرانا چاہے تو اس کا کیا طریقہ کار ہے؟ ملاقات اور سہولیات کا معاملہ ہے میں اس سے متعلق آرڈر کر دوں گا ۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ اگر عدالت ہفتے میں ایک یا دو دن رکھ دے اور وقت مقرر کر دے تو ٹھیک ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر ایک دو لوگ بھی جا رہے ہیں تو پھر تو کوئی لا اینڈ آرڈر کی صورتحال نہیں ہوتی۔
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ ساری زندگی ہم اڈیالہ جیل میں جاتے رہے اور اپنے کلائنٹس سے ملتے رہے، کل انہوں نے بشریٰ بی بی کی ملاقات کرائی پھر مجھے کہا ایک دن میں ایک ملاقات ہو سکتی ہے، روزانہ لوگوں کو یہ گھروں سے اٹھا رہے ہیں آپ کے سافٹ الفاظ سے یہ سمجھنے والے نہیں، ہم قرآن پاک اور کتابیں دینا چاہ رہے ہیں یہ وہ بھی نہیں دینے دے رہے۔
اس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس قرآن پاک بھی ہے اور جائے نماز بھی ہیں۔ ان کے کھانے کے لیے الگ باورچی رکھا ہے اور الگ برتن رکھے ہیں۔ ایک میڈیکل آفیسر اور ایک ڈی ایس پی کھانا چیک کرتا ہے پھر چیئرمین پی ٹی آئی کو دیا جاتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پھر کہوں گا ماضی قریب میں ایک ہائی پروفائل قیدی کو یہ سہولت نہیں تھی، میں مناسب آرڈر کر دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ ہفتے میں اگر دو تین بار ملنا ہو تو اس میں کیا مضائقہ ہے، ایسا نہیں ہوتا پرچے ہوں وکیلوں پر، جو قید میں ہیں ان کے حقوق ہیں ان کا انکار تو نہیں کر سکتے۔