76 سال قبل، لاکھوں قربانیوں کے بعد ،یہ پیارا پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا،یہ دن ہمیں آزادی کے سرشار لمحوں سے ہمکنار کرتا ہے۔ 1947ء میں ہم نے بے سرو سامانی کے عالم میں اپنا سفر شروع کیا تھا،آج بفضل ِ تعالیٰ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں اور ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی قوم کی حیثیت سے دنیا میں جانے جاتے ہیں۔پاکستان کی جغرافیائی اور ا سٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے دنیا ہمیں کبھی نظر انداز نہیں کر سکتی۔76سال کا یہ عرصہ ہم نے ایسے نہیں گزارا کہ جسے رائیگانی کا سفر کہا جا سکے،ہم ایک مضبوط فوج کے مالک ہیں اور پر عزم قوم ہمارا اثاثہ ہے ‘دنیا میں امن کیلئے ہمارے کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے،اقوام عالم میں ہم نے ہمیشہ ایک مثبت اور جاندار موقف اپنا کر اپنے وجود کو منوایا ہے، ہم اپنے پارلیمانی سیاسی نظام حکومت کیلئے ایک متفقہ آئین رکھتے ہیں اور اس کی اساس پر ایک مضبوط جمہوری و پارلیمانی نظام کے وارث ہیں، ہماری نئی نسل جدید علوم سے فیض یاب ہو کر نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں ہماری ترقی بڑے ممالک جیسی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اس شعبے میں تیز رفتار ترقی کی ہے پاکستان دنیا کے اُن ممالک کی صف ِ اول میں کھڑا ہے جنہوں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیابی حاصل کی اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر اپنے حصے کا فرض ادا کیا، آج ہمارے بڑے شہر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے شہروں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔بلاشبہ ہم اپنے گزرے سفر پر فخر کر سکتے ہیں تاہم قوموں کی زندگی میں خود احتسابی کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے،اسی کے نتیجے میں ہم بہتر سے بہترین کی طرف جا سکتے ہیں، ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم نے قائداعظمؒ کے فرمان اتحاد، ایمان اور یقین محکم کو فراموش کیا ہے،خاص طور پر اتحاد کے معاملے میں، ہماری سوچ انتشار کا شکار رہی ہے، سیاسی سطح پر ہم نے قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر ذاتی و گروہی جھگڑوں کو فروغ دیا، کوئی قوم منتشر ہو کر ترقی نہیں کر سکتی، اتحاد ہی ترقی کا واحد راستہ ہے، اسی لیے قائداعظمؒ نے اس پر بہت زور دیا تھا۔سیاسی اختلافات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں مگر وہ ایشوز کی بنیاد پر جنم لیتے ہیں،سیاسی تقسیم نفرتیں پیدا نہیں کرتی بلکہ صحت مند مقابلےکا باعث بنتی ہیں، ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ قومی مسائل پر بھی ہمارے سیاست دان مل کر نہیں بیٹھتے، سیاست دانوں کی تفریق کے باعث عوام بھی تقسیم ہو جاتے ہیں،اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے۔معیشت مگر اِس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک جگہ مل بیٹھیں اور میثاق معیشت کی بنیاد رکھیں مگر انتشار پیدا کر کے بے یقینی اور بے چینی کو جنم دیا جا رہا ہے جو معیشت کیلئے زہر قاتل ہے ۔ ہم حقیقی آزادی تب پائینگے جب ہم اپنی اس آزادی کی نعمت کو ایک ملی‘ قومی اور اسلامی ذمہ داری تصور کریں گے اور باہم مل کر ملک کو اتحاد و اتفاق سے آگے لے جانے کی سعی کریں گے، پاکستان مسلم لیگ( ضیاء الحق شہید ) کے کارکن یہ خواہش رکھتے ہیں کہ معاملات کو بگاڑ سے بچایا جائے، تمام اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں اور درپیش مسائل کا حل تلاش کریں، فوج ہمارا قومی ادارہ ہے تمام سیاسی جماعتیں اپنے دائرے میں کام کریں اور عوام کی جانب دیکھیں فوج ایک قومی ادارے کے طور پر ہم سب سے اعتمادکا متقاضی ہے اِس وقت ہمیں ایک ایسے سیاسی اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے جو بنیادی قومی مسائل پر ہماری رہنمائی کر سکے، ہماری سیاسی تاریخ ہنگامہ آرائی،تحریکوں اور انتشار سے بھری پڑی ہےجسکے باعث پاکستان استحکام سے محروم رہا ہے، آج کے دن یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ استحکام پاکستان کیلئے سیاست سے بالاتر ہو کر کام کریں گے، اِس امر کی بھی اشد ضرورت ہے کہ سیاست سے غیر شائستگی کے عنصر کو ختم کیا جائے، اس کلچر کی وجہ سے قوم کے اندر تقسیم اور نفرتوں نے جنم لیا ہے جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ہمیں پاکستان کو اپنی امیدوں کا محور بنا کر اپنے کردار و عمل کا ازسر نو تعین کرنا چاہئے۔یہ آج کے دن کا اصل تقاضا ہے۔ ملک میں اگرچہ انتخابات میں ایک یا دو سال کی تاخیر کی بحث جاری ہے تاہم معاشی بحران پر کسی حد تک قابو پائے جانے کے بعد اِس تاخیر کی کوئی منطق باقی نہیں بچتی ملک کی دو بڑی جماعتوں نے اِس بات کا اظہار کر دیا ہے جبکہ پی ڈی ایم اور دیگر اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے اور پی ٹی آئی سمیت تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں بروقت انتخابات چاہتی ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ دستور کے مطابق ملک میں بروقت انتخابات کرائے جائیں تاکہ عوام جس پر بھی اعتماد کریں وہی ملک کی باگ ڈور تھام لے اور معاملات کو آگے چلائے ملک میں جو کچھ اب تک ہو چکا ہے اس کے منفی اثرات سب کے سامنے ہیں، اب دوبارہ ملک اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے کی تگ و دو میں ہے، ایسے میں ہم مزید کسی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے بہتر یہی ہے کہ صرف آئینی طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔