14 ؍اگست1947ءکو پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد، عزم اور قربانیوں کے ثمر کے طور پر وجود میں آیا۔ قائداعظم اور ان کے رفقاء نے دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک کی بنیاد رکھی ،اسے برطانوی تسلط سے چھین لیا ۔ایسے وقت میں جب مسلم قومیں اپنی لسانی، نسلی ،علاقائی شناخت اور اسلامی تشخص کو قائم رکھنے کی جدوجہد کر رہی تھیںوژن ایک فلاحی ریاست تھی۔پاکستان کا آغاز انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہوا ۔ تجارت تباہ ، ریلوے تقسیم کے دوران برباد ، بجلی کی لائنیں خراب ، مرکزی بینک دیوالیہ ہونے کے قریب ، حکومت وسائل سے تہی اورمہاجرین کی آباد کاری سمیت بہت سےسنگین مسائل۔ بہت سے لوگوں نے پیش گوئی کی کہ پاکستان زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔ لیکن قائداعظم اسے اس حالت میں بھی چلانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے بصورتِ دیگر ناکامی کی بڑی بھاری قیمت چکانا پڑتی ۔ قائد کے نظریات کے مطابق پاکستان کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
قائد کی ابتدائی برسوں میں ہی وفات اس ملک کے لئے پہلا دھچکا ثابت ہوئی جس کے بعد دراڑیں پڑنے لگیں۔ فوجی اور سول قیادت کے مابین توازن بگڑتا چلا گیا۔جنرل ایوب خان نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی اور ملک کو طاقت کے عدم توازن کی راہ پر گامزن کر دیا۔ ان کا یہ اقدام دوسرے فوجی آمروں کے لئے جواز بن گیا۔ قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کو بیحدنقصان پہنچا۔ جنرل یحییٰ نے حکمرانی کی ایک اور بری مثال قائم کی۔ متعدد سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت یا سرپرستی حاصل رہی۔ کئی وزرائے اعظم آئے اور چلتے بنے۔ 1971نے سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ ایک اور ملک پاکستان کے برے انتخاب اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ جنرل ضیا نے تقسیمِ سیاست کے نئے دور کا آغاز کیا اور مذہبی نظریات کو ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا۔ بھٹو کو سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے پھانسی دی گئی یوں ایک عظیم لیڈر کھودیا گیا۔ جنرل ضیاء کے اقتدار نے پاکستانی سفر کی دو دہائیاں کھا لیں۔ سیاسی جماعتیں اتفاق رائے قائم کرنے میں ناکام رہیں،ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی دوڑ میں بدعنوانی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ کرپشن کے عروج نے ایک اور فوجی بغاوت کی راہ ہموار کی۔ اس بار جنرل مشرف نے عنانِ اقتدار سنبھالی۔ مشرف نے جمہوریت کو پٹڑی سے اتار دیا ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور نائن الیون رونما ہوئے، پاکستان کو عجلت میں فریقین کا انتخاب کرنا پڑا۔ یہ پاکستان کی جنگ نہیں تھی لیکن پاکستان اس سے لا تعلق بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ بہت سی مثبت پیش رفتیں بھی ہوئیں، میڈیا، مواصلات اور سوشل نیٹ ورکنگ نے فروغ پایا۔ پاکستان نے عالمی ترقی کی دوڑ میں شمولیت اختیار کرلی۔
بالآخر جنرل مشرف کے بعد جمہوریت کو ایک بار پھر موقع دیا گیا۔اس بار عمران خان کی پی ٹی آئی کا مقابلہ پرانی جماعتوں سے تھا۔عمران خان کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں بیس سال لگے۔ 2018ء میں بالآخر تیسرے فریق نے عام انتخابات جیت کر حکومت بنائی۔ یہ جمہوری ترقی اور پاکستان کے نوجوانوں کا جوش تھا ۔عام لوگ روایتی سیاسی نظام سے تنگ آچکے تھے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے تمام تر وعدوں ، خاص طور پر 100دن کے منشور پرعمل نہیں کر سکی لیکن اس نے اقتدار میں سابقہ سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل کی۔عدم اعتماد کے باعث بننے والی پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت نے عوام کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر دیا بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں نے اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر کے عام آدمی کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے یہی وجہ ہے کہ اس بار عوام میں روایتی جوش و جذبہ نظر نہیں آ رہا ۔ خوش گمانیوں اور خوش فہمیوں سے ہٹ کر دیکھیں تو آج پاکستانی مایوس بے بس اور بیزار نظر آتے ہیں ۔سیاسی اور معاشی مستقبل کے حوالے سے اس بے یقینی کا ہونا کوئی ایسا بے وجہ بھی نہیں ۔ اگرچہ اس وقت بھی حوصلہ افزاء مستقبل کے کئی اشاریے موجود ہیں لیکن موجودہ حالات نے جیسےیقین کرنے کی صلاحیت ہی چھین لی ہو ۔ 76سال بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے ۔ تجربات نے ہمیں سوائے رسوائی اور جگ ہنسائی کے کچھ نہیں دیا اب مزید تجربات کی نہ قوم متحمل ہو سکتی ہے نہ ملک ۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ مایوسی اور بے یقینی کا خاتمہ بہت ضروری ہو گیا ہے ۔ آنے والے اچھے دنوں کا یقین دلائے بغیر اس مایوسی کا خاتمہ ممکن نہیں تیزی سے پھیلتی اس بے یقینی کے خاتمے کے لئے ٹھوس معاشی پیش بندی کرنا ہو گی ۔ پاکستان سے پیار کرنے والوں کو مجبورِ محض نہیں ثابت کرنا چاہئے ۔ یہ ملک قائم رہنے کےلئے بناہے ان شاء اللہ قائم رہے گا اس سے محبت اس کے شہریوں کے خون میں شامل ہے یہ خون کبھی سفید نہیں ہو سکتا وقتی طور پر آنے والی مشکلات کا سامنا یہ قوم پہلے بھی کرتی آئی ہے اس بار بھی سرخرو رہے گی لیکن ہر کسی کو سوچنا ہو گا کہ اب غیر متزلزل ترقی کا سفر شروع ہونا چاہئے ۔ہمیں اپنے ماضی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کرنا ہو گی ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا تا کہ ہماری آنے والی نسلوں میں یومِ آزادی کا روایتی جوش و جذبہ پیدا ہو سکے وگرنہ ہم ہر سال سوائے لائٹیں لگانے، باجے بجانے، شورو غل کرنے اور ون ویلنگ کرنے کے کچھ اور حاصل نہیں کر سکیں گے۔
(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)