کسی بھی قوم کے لیے اپنے آزاد اور خود مختار وطن کے حصول سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں ہو سکتی۔اسی لیے زندہ قومیں وطن کی تشکیل کا دن پورے جوش و جذبے سے مناتی ہیں۔اس کے استحکام کے لیے اپنا جان و مال قربان کرنے کے عزم کا اعادہ کرتی ہیں۔قومی قائدین کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے
جن لوگوں نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کیا انہیں سلام پیش کیا جاتا ہے۔مادر وطن کی حفاظت کے لیے مختلف جنگوں کے دوران اپنی جانیں قربان کرنے والوں کو سیلوٹ پیش کیا جاتا ہے۔پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے تمام کرداروں کو یاد کیا جاتا ہے۔خصوصی طور پر پاکستان کا جشن آزادی ہمارے ازلی دشمن بھارت کے لیے بھی ایک پیغام ہوتا ہے کہ جس پاک وطن کو مٹانے کے لیے آپ اپنے وسائل صرف کر رہے ہیں وہ نامساعد حالات کے باوجود آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہے۔مختلف نوعیت کے سیاسی اختلافات کے باوجود پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ جشن آزادی کی تقریبات اور قومی پرچم کی حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستانی قوم 76 واں یوم آزادی جوش و خروش سے منا یا۔سرکاری تقریبات سے جشن کی رونقیں دو بالا کرنے کی کوشش کی گئیں۔غربت اور مہنگائی کی ماری قوم کے لبوں پر مسکراہٹیں لانے کے لیے نت نئے پروگرام پیش کیے گئے۔وطن عزیز کا رخ روشن قوم کے نوجوانوں کے سامنے لایا گیا۔یہ جشن آزادی اس حال میں منایا گیا ہے کہ ایک پارلیمنٹ نے اپنی مدت'' جیسے تیسے'' بھی پوری کی۔اس پارلیمنٹ نے جشن آزادی سے کچھ دن قبل انتہائی برق رفتاری سے قانون سازی کے نئے ریکارڈ بھی قائم کیے۔لیکن جشن کا رنگ جم نہیں رہا۔آپ بار بار قوم کو جشن آزادی کی طرف بلائیں،جھنڈا لہرانے کی ترغیب دیں،سرکاری و غیر سرکاری تنظیمات کو متحرک کریں،لیکن وہ بات نہیں بن رہی جو بننی چاہیے تھی،چہروں پر وہ مسکراہٹ نہیں لائی جا سکی جس کی اشد ضرورت تھی،نوجوانوں کے اندر امید کا دیا نہیں جلایا جا سکا جس کی روشنی میں وہ وطن عزیز میں رہ کر ہی اپنی زندگی کا سفر طے کریں،چند سال قبل اس ارض وطن کی تشکیل کے دن کو قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا تھا،جشن آزادی کی تیاریوں میں انفرادی اور اجتماعی کاوشیں نظر آتی تھیں،سرکاری اور نجی عمارتوں پر قومی پرچموں کی بہار ہوتی تھی،تعلیمی اداروں میں جشن آزادی کے پروگرام نظر آتے تھے،گاڑیوں موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں پر قومی پرچم لہراتے نظر آتے تھے،پی ٹی وی پر جشن آزادی کا پورا مہینہ ایک خاص طرز کے پروگراموں کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا تھا۔ قومی پرچم والے بیجز ہر سینے پر نظر آتے تھے،اور 14 اگست کو واقعتا پورے ملک میں جشن کا سماں ہوتا تھا۔پھر حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا،کہ کامرانیاں سکڑتی گئیں،ناکامیاں بڑھتی گئیں،بنیادی حقوق سمٹتے گیے،محرومیوں کے سائے طویل ہوتے گئے،دھواں اگلنے والی چمنیاں ٹھنڈی ہوتی گئیں،غم روزگار نے پوری قوم کو ایسا جکڑا کہ نہ جشن یاد رہے اور نہ آزادی کا احساس رہا۔شہباز حکومت کے ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں اس بیچاری قوم پر ایسے ایسے تازیانے برسائے گئے کہ ان کے لیے دکھ اور خوشی کا احساس ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔آج ''مفکرین'' یہ کہتے ہوئے پائے جا رہے ہیں کہ قوم کو جان بوجھ کر مایوسی کی طرف نہ دھکیلا جائے ان کا یہ فرمان بجا ہے لیکن کچھ اس کا علاج بھی تو کریں،بھوک کے ننگے ناچ کے ہوتے ہوئے جشن آزادی منائیں تو کیسے،بے روزگاری کے عفریت کے چنگل میں جکڑے ہوئے لوگ آزادی کا احساس بھی کریں تو کیسے؟جمہوریت کے معنی و مفاہیم تبدیل کر دیے جائیں تو کسے آزادی کا احساس ہو؟کوئی کارواں سے ٹوٹ کر رہ گیا ہے،تو کوئی حرم سے بدگماں ہے،کیونکہ نہ تو کاروان کا امیر دستیاب ہے،اور جو امراء ہیں وہ خوئے دل نوازی سے محروم ہیں،76 سال گزرنے کے بعد،بہت سی مایوسیاںہیں،اس نڈھال قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کسی ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو نیک نیت ہو اور قوم کا درد رکھنے والا بھی ہو،جو قوم کو نیک و بد بھی سمجھائے،اور اسے صحیح راستے پر گامزن بھی کرے،وہ شہباز حکومت کے لگائے ہوئے زخموں پر مرہم رکھے اور آئندہ کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل بھی اختیار کرے۔شدید ترین مایوس کن حالات میں امید کی واحد کرن قوم میں احساس زیاں کا بیدار ہونا ہے۔آج ہر شخص ملکی حالات پر فکر مند ہے۔ملکی حالات میں تبدیلی کا خواہشمند ہے لیکن راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔اب ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں غلطی کی گنجائش نہیں۔اب ماضی پر ماتم کے بجائے بہتر مستقبل کے لیے ٹھوس فیصلوں کی ضرورت ہے۔اپنے ہمسایہ ممالک سے ہی سبق سیکھ لیں۔آج افغانستان ہم سے بہتر حالت میں ہے۔بھارت خلا کو تسخیر کر رہا ہے۔چین بڑی معاشی طاقت بن رہا ہے۔بنگلہ دیش پاؤں پر کھڑا ہو چکا ہے۔ہماری اشرافیہ کو اب ذاتی مفادات کےبجائے ملکی بھلائی کا سوچنا ہوگا۔اب عوام کا معیار زندگی بلند کرناہوگا۔ملکی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ معاشی محاذ پر جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔تب ہی آزادی کا احساس دوبارہ جاگزیں ہوگا۔اب ملک میں جمہوریت اپنے سفر پر گامزن ہے، انوار الحق کاکڑ نگران وزارت عظمی کا منصب سنبھال چکے ہیں،نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے،قوم ایک مرتبہ پھر انتخابات کے مرحلے سے گزرنے کو ہے۔کاش اس جشن آزادی کے بطن سے حقیقی آزادی کا سورج طلوع ہو۔عوام آزادانہ طریقے سے نئی قیادت منتخب کر سکیں تاکہ ملک درست سمت پر گامزن ہوسکے۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو