• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان میں ’عام آدمی‘ کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے تقریباً سات ماہ پہلے کہا تھا کہ جس دن نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اس کے بعد بلوچستان میں کسی سیاسی ورکر کو اٹھا کر غائب کیا جائے گا نہ کسی کو گولی مار کر اس کی لاش سڑک پر پھینکی جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے نواز شریف سے جو توقع باندھی تھی وہ سو فیصد تو پوری نہیں ہوئی لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اب نہ اتنے لوگ اٹھائے جا رہے ہیں نہ اتنی لاشیں گرائی جا رہی ہیں جو 2013 میں روزمرہ کا معمول تھیں۔ 2014 کا آغاز نسبتاً پرسکون ہے۔ مزاحمتی تنظیموں کی ’آجوئی‘کی جدوجہد جاری ہے مگر ان کی کارروائیاں زیادہ تر تربت، پنجگور اور ملحقہ علاقوں تک محدود اور قدرے کم ہو گئی ہیں۔ ان کے ٹارگٹ ہائی ویلیو‘ ہو گئے ہیں جیسے پنجگور ایئر پورٹ خضدار، مستونگ، کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں ان کا زور بتدریج ٹوٹ رہا ہے اور خوف و ہراس کی جس فضا نے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اس کی شدت میں کسی حد تک کمی آئی ہے۔ صوبائی حکومت کو صورتحال میں اس بہتری کا کریڈٹ نہیں تو شک کا فائدہ ضرور دیا جا سکتا ہے لیکن پورا نہیں کیونکہ جو لوگ پہلے سے لاپتہ ہیں ان کی بازیابی میں اسے عدلیہ کی زبردست حمایت اور وفاقی حکومت کی نیک خواہشات کے باوجود کوئی قابل ذکر کامیابی نصیب نہیں ہوئی بہت کم لوگوں کا سراغ مل سکا ہے جس کی وجہ سے بلوچ علاقوں میں بے چینی بدستور بڑھ رہی ہے۔ یہ مسئلہ حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہے لیکن جیسا کہ عدالتی کارروائیوں کے دوران ظاہر بھی ہوا جن ایجنسیوں کی تحویل میں یہ لوگ ہیں وہ انہیں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ ایک ایجنسی کے اعلیٰ افسر نے تو کہہ بھی دیا تھا کہ جن لوگوں نے ہمارے گلے کاٹے انہیں ہم کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ ایک سرکاری رپورٹ میں تقریباً 5 سو افراد کے لاپتہ ہونے کا ذکر کیا گیا ہے مگر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ بازیاب ہو گئے ہیں کچھ کی لاشیں مل چکی ہیں اور باقی کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔ طاقتور قوتوں کی مدد سے اگر یہ مسئلہ حل ہوگیا تو اس سے ڈاکٹر مالک کی حکومت پر عوام کا اعتماد بڑھے گا اور لوگوں کو یقین ہونے لگے گا کہ بلوچ و پشتون قوم پرستوں اور مسلم لیگ ن کے اعتدال پسندوں کی موجودہ حکومت کو صوبے میں کچھ اختیارات بھی حاصل ہیں اور لوگ جب اسے بااختیار سمجھنے لگے تو پھر وفاق پر بھی ان کا اعتبار بڑھے گا اور علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ فی الوقت ڈاکٹر مالک جتنا بھی زور لگائیں علیحدگی پسند بات چیت کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ کیونکہ وہ ماضی کی صوبائی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کو بھی وفاقی مقتدرہ کی تابع مہمل سمجھتے ہیں ان کی اس منطق میں کچھ وزن بھی ہے جس طرح سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اپنے فیصلے خود نہیں کر پاتے تھے اور چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے اسلام آباد کے اتنے چکر لگاتے تھے کہ انہیں بلوچستان کی بجائے اسلام آباد کا وزیراعلیٰ کہا جانے لگا تھا اسی طرح ڈاکٹر عبدالمالک کو بھی آئے روز اسلام آباد آنا پڑتا ہے اگر وہ پوری طرح بااختیار ہوں تو ماضی کی یہ روایت ختم ہو جائے اور بلوچستان کو واقعی داخلی خودمختاری مل جائے جو اٹھارہویں آئینی ترمیم کے باوجود عملاً نہیں ملی۔ وفاق دودھ بھی دیتا ہے تو مینگنیاں ڈال کر تاکہ استعمال نہ کیا جا سکے لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ صوبوں کو جن میں بلوچستان بھی شامل ہے حقیقی خودمختاری نہ ملی تو صوبائی عصبیتیں سر اٹھاتی رہیں گی۔ ڈاکٹر مالک اور ان کے اتحادیوں کو حکومت تو دے دی گئی مگر اختیارات پورے نہیں دیئے گئے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر یہ حکومت بھی جسے نوابوں، سرداروں کی موجودگی کے باوجود عام آدمی کی حکومت سمجھا جاتا ہے ناکام ہو گئی تو وفاق بلوچستان کے عوام کا اعتماد کبھی حاصل نہیں کر سکے گا۔
بلوچستان کی حقیقی قیادت کی باتوں پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے تو میرا ایمان ہے کہ مستقبل میں بلوچستان ہی پاکستان کی سیاسی شناخت اور اقتصادی قوت کا سرچشمہ بن سکتا ہے اگرچہ سرمایہ دارانہ جمہوریت، جاگیردارانہ سیاست، اکثریت کی سنگدلانہ حاکمیت اور اختیارات کی آمرانہ مرکزیت کے غیر منصفانہ ماحول میں کم آبادی والے بلوچستان کو، جس کی پارلیمنٹ میں نمائندگی برائے نام ہے اور جو جمہوری طور طریقوں سے دبائو ڈال کر اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں بھی نہیں، یہ مقام ملنا بعید از امکان نظر آتا ہے مگر بین الاقوامی سازشوں، اندرونی خلفشار اور معاشی بدحالی کے پس منظر میں حالات بتدریج ایسا رخ اختیار کر سکتے ہیں کہ بالآخر عقل سلیم غالب آئے گی اور بلوچستان کو اپنے ساتھ رکھنے اور پاکستان کو ناکام ریاست بننے سے بچانے کیلئے اکثریتی صوبوں اور ان کی سیاسی قیادت کو بلوچستان کے عوام کی بات سننا ہی پڑے گی۔ بلوچوں کی جدوجہد اپنی بقا اور وہاں کے پشتونوں کی جدوجہد اپنی شناخت کی جدوجہد ہے اور یہ دونوں مل کر پاکستان کی بقا کی جدوجہد بن جاتی ہیں۔ ایسے وقت میں جب بلوچستان کے انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور کے انکشاف کے مطابق صوبے کے مختلف علاقوں میں 60 سے 70 فراری کیمپ موجود ہیں جن میں لوگوں کو عسکری تربیت دی جاتی ہے پھر یہ کیمپ اپنی جگہ تبدیل بھی کرتے رہتے ہیں کیونکہ انہیں اکھاڑنے کے لئے کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ بلوچستان کے مسئلے کو آسان نہیں لینا چاہئے۔ پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل جو اہم ترین عسکری عہدوں پر فائز رہے کی یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ بلوچستان میں سارے ہتھیار انڈیا کے ذریعے امریکہ فراہم کرتا ہے۔ انڈیا فرنٹ پر ہے اور امریکہ اس کو سپورٹ کر رہا ہے اور سب کو پتہ ہے کہ یہ سب کچھ سی آئی اے کر رہی ہے ایسے میں بلوچستان کے حوالے سے کوئی حکومت لاتعلق اور سیاسی قیادت غیر سنجیدہ کیسے رہ سکتی ہے یہ درست ہے کہ علیحدگی پسند تنظیموں کو قوم پرست سیاسی پارٹیوں کی کھلی حمایت حاصل نہیں اور فی الوقت ان کے پاس اتنی قوت بھی نہیں کہ وہ بلوچستان کو پاکستان سے کاٹ سکیں لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بین الاقوامی فورموں پر ان کی بات سنی جا رہی ہے اور بعض غیر ملکی قوتیں خاموشی سے ان کی مدد بھی کر رہی ہیں پھر وہ خود بھی کافی منظم اور متحرک ہیں انہیں اتنا کمزور بھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ ان کے ہتھیار ڈالنے کا انتظار کیا جائے انہیں زبانی پیشکشوں سے نہیں براہ راست اور عملی رابطوں کے ذریعے مذاکرات کی میز پر لانا پڑے گا ڈاکٹر مالک تو یقیناً اپنے طور پر رابطے کر رہے ہوں گے لیکن وفاقی حکومت کی سطح پر کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔ ملک کی سلامتی اور قومی یکجہتی کا تقاضا ہے کہ ماضی کی روایات سے ہٹ کر جرأت مندانہ فیصلے کئے جائیں اور قرارداد پاکستان اور الحاق پاکستان کے معاہدے میں طے شدہ اصولوں کے تحت بلوچستان کو بامقصد داخلی خودمختاری دی جائے۔ صوبائی حکومت کو صوبے کے وسائل بروئے کار لانے سمیت تمام داخلی معاملات میں فیصلے کرنے کے اختیارات دیئے جائیں اور اس کے مشوروں پر عمل کیا جائے۔
تازہ ترین