پاکستانی معاشرہ اس وقت ہمہ گیر نوعیت کے سماجی بحران کا شکار ہے۔انتہا پسندی،عدم برداشت، غصہ، تعصب اور نفرت جیسے ناسور ہماری معاشرتی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔مختلف نوعیت کی سماجی و اخلاقی بیماریوں نے پورے معاشرے کو ایک عفریت کی صورت میں اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔روزانہ کی بنیاد پر ایسی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں جو ایک خطرناک معاشرتی بحران کی نشاندہی کرتی ہیں۔رانی پور کے واقعہ نے معاشرے کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے،ایک جج صاحب کی اہلیہ کی جانب سے معصوم بچی پر تشدد اسی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے،اور پھر سانحہ جڑانوالہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔اس سانحے نے بطور قوم ہمارے سر شرم سے جھکا دئیے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ جس جگہ انصاف کا چراغ گل ہو چکا ہو،تحقیقی و تفتیشی ادارے اختیارات کے نشے میں بد مست ہوں،سیاسی قیادت محض کٹھ پتلی ہو،اعلیٰ ترین عدالتیں محض ربڑا سٹمپ ہوں،سزا اور جزا کا تصور ہی ناپید ہو،وہاں سانحہ جڑانوالہ وقوع پذیر نہ ہو تو کیا ہو؟،جہاں اسلام جیسے روشن دین کی من پسند تشریح کی جائے،ادھورے فہم پر مبنی خطبات پر کوئی قدغن نہ ہو،نیم خواندہ ان پڑھ اور جاہل مبلغوں کی کثرت ہو،وہاں پر اسی طرح کے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔جہاں تعلیمی ادارے کاروبار کا روپ دھار چکے ہوں،اساتذہ تعلیم دینے کے بجائے محض کاروبار کر رہے ہوں،جہاں سوال و جواب پر پابندی ہو،مذہبی قائدین اسلام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوں،محبت رسول جیسا مقدس استعارہ اپنے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھا دیا جائے،،قانون ختم نبوت پر سیاست کی جائے،اپنے دشمنوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے جائیں وہاں پر سانحہ پہ سانحہ نہ ہو تو کیاہو؟یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ اس کے محبوب کے امتیوں کی شکلیں نہیں بگڑتیں،یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین کا صدقہ ہے کہ ہم پر پتھروں کی بارش نہیں ہوتی،یہ تو محبوب خدا کی آمد کا ثمر ہے کہ ہمارے گناہ ہماری پیشانیوں پر رقم نہیں ہوتے، ورنہ آج بطور قوم ہمارے اجتماعی احوال اس قابل ہیں کہ پتھروں کی بارش بھی روا ہے۔سانحہ جڑانوالہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ واقعات ایک سیریز ہے۔اگست 2009 گوجرہ میں قران کریم کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں۔چار عورتوں ایک مرد اور دو بچوں سمیت چھ انسان بستی میں زندہ جلا دیے گئے۔لیکن کسی ملزم کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا گیا۔مارچ 2013 میں لاہور کے علاقے بادامی باغ کی جوزف کالونی میں قران پاک کی بے حرمتی کی افواہ پر ہزاروں مشتعل افراد نے اس بستی کا محاصرہ کیا۔سینکڑوں گھر،تین چرچ،متعدد دوکانیں نذر اتش کر دی گئیں۔لیکن ملزمان نامعلوم ہی رہے۔دسمبر 2021 سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کو دردناک انداز میں موت کے گھاٹ اتارا گیا،پھر اس کی لاش سڑک پر گھسیٹی گئی اور پھر اسے جلا دیا گیا۔یہ واحد واقعہ تھا جس کے بعد ''قانون 'حرکت میں آیا،اور 18 اپریل 2022 کو 88 ملزمان کو سزا سنائی گئی جن میں سے 6 ملزمان سزائے موت کے حقدار ٹہرے۔مذکورہ بالا تینوں واقعات میں نہ توہین قرآن کا کوئی ثبوت ملا اور نہ ہی جھوٹا اعلان کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی گئی۔اور اگر کوئی شخص توہین کا مرتکب ہوا تو اسے بھی کٹہرے میں لانے میں بری طرح ناکامی ہوئی۔کیا ان واقعات کو یہ کہہ کر سند جواز بخشی جا سکتی ہے کہ ہم سے توہین قرآن برداشت نہیں ہوتی،؟کیا ان واقعات کو اس نظریے کی آڑ میں تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے کہ ہم توہین رسالت برداشت نہیں کر سکتے،؟کیا واقعی ہمارے معاشرے میں محبت قرآن کی وہ سطح موجود ہے جس کو جواز بنا کر ہزاروں کا ہجوم حملہ آور ہو جاتا ہے؟کیا ہماری عملی زندگیوں میں محبت رسول کی وہ جھلک موجود ہے جس کا دعوی کرتے ہوئے معصوم لوگوں کو تہ تیغ کر دیا جاتا ہے؟ انتہا پسندی اور تشدد کا رجحان صرف مذہبی طبقات میں ہی موجود نہیں بلکہ،پورا معاشرہ اسی رجحان کا شکار ہے،یہاں پارکنگ کے لیے مناسب جگہ نہ ملنے پر،پارکنگ کا ملازم قتل کر دیا جاتا ہے،یہاں وکلا اور ڈاکٹروں کی لڑائی میں،اسپتالوں کی ایمرجنسی میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے کی روایات بھی موجود ہیں،گھریلو تنازعات پر قتل کر دینے کی وارداتیں بھی معمول کا حصہ ہیں،لیکن مذہب کا معاملہ قدرے حساس ہے۔مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کو اگر آپ ہیرو بنائیں گے تو اسکا یہی نتیجہ برآمد ہوگا،کیا ان واقعات کا تدارک ممکن ہے؟تو میرا جواب یہ ہے کہ ان واقعات کا تدارک کیا جا سکتا ہے،تاہم اگر کوئی خوش گمان، محراب و منبر یا مروجہ تدریسی نظام کے بطن سے تبدیلی کے جنم کا منتظر ہے تو وہ جان لے کہ یہ نظام مکمل طور پر بانجھ ہوچکا ہے۔اب اس قوم کو خود بیدار ہونا پڑے گا۔جاپان،سنگاپور اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح نظام تعلیم میں جوہری تبدیلی لانا پڑے گی۔کنویں کے مینڈک پیدا کرنے کی بجائے اہل علم تیار کرنا ہوں گے۔تب اس مرض کاعلاج ممکن ہوگا،دوسری طرف ہمارا نظام انصاف اپنی حقیقی روح کے ساتھ متحرک ہو،مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے تب اس کا تدارک ہو سکتا ہے۔لیکن اگر ہماری عدالتوں میں بیٹھنے والے منصف،عدالتوں سے زیادہ میڈیا میں آنا پسند کریں گے،ایک اور جسٹس افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کی روح عدالت عظمی کی راہداریوں میں بھٹکے گی تو پھر اس قوم کے مقدر میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔بدترین مہنگائی اور معاشی گراوٹ کے اس دور میں تشدد کو روکنا محض انتظامی مشینری سے ممکن نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ہمہ جہت اقدامات کی ضرورت ہے۔