• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا یہ پختہ یقین ہے کہ جب اللہ کسی کو شہادت کا رتبہ عطا کرنا چاہتا ہے تو اس کے دل سے موت کا خوف اور دنیاوی ڈر نکال دیتا ہے۔ یہی کچھ شہید چوہدری اسلم کے ساتھ بھی ہوا جب اللہ نے انکے دل سے موت کا خوف نکال دیا اور انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف دلیری اور بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ ان کے قتل نے پورے ملک کو صدمے سے دوچار کردیا ہے اور کوئی آنکھ ایسی نہیں جو اشکبار نہ ہو۔ چوہدری اسلم غیرمعمولی جرات و شجاعت کا پیکر اور دہشت گردوں و سماج دشمن عناصر کیلئے خوف کی علامت تھے۔ انہوں نے اپنے خون کے آخری قطرے تک دہشت گردوں سے مقابلے کا عزم کررکھا تھا جس پر وہ آخری دم تک ڈٹے رہے۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی اس بزدلانہ کارروائی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ چوہدری اسلم کی بے مثال قربانی کا جہاں ملکی سطح پر اعتراف کیا گیا وہاں بین الاقوامی میڈیا نے بھی ان کی قربانیوں اور خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ برطانوی اخبار ’’ٹیلی گراف‘‘ نے چوہدری اسلم کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ وہ رات کے اندھیرے میں باہر نکلتا تھا اور جب دن ڈھل جاتا تھا تو اس کی صبح ہوتی تھی، اس کے جانباز رات کی تاریکی میں دہشت گردوں کو للکارتے تھے۔ اخبار نے چوہدری اسلم کو مشہور انگریزی فلم ’’ڈرٹی ہیری‘‘ کے پولیس انسپکٹر سے تشبیہ دی اور Super Cop یعنی غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل پولیس افسر قرار دیا۔ برطانوی روزنامہ ’’گارجین‘‘ نے چوہدری اسلم کو پاکستان کا سخت جان افسر قرار دیا جو دہشت گردوں کیلئے دہشت بن گئے تھے جبکہ امریکی اخبار ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ لکھتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے پاکستان کے سب سے ہائی پروفائل افسر کو مار ڈالا جس نے سیکورٹی کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر سوال اٹھادیئے ہیں۔بی بی سی اور الجزیرہ نے بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا جس سے دنیا میں پاکستانی پولیس کا وقار بلند ہوا۔کچھ عرصے قبل جب دہشت گردوں کی طرف سے مجھے دھمکی آمیز ٹیلیفون کالز موصول ہوئیں جس سے میں نے پولیس اور ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا اور اس سلسلے میں چوہدری اسلم سے بھی ملاقات کی۔ دوران ملاقات میں نے چوہدری اسلم کو نڈر اور بہادر پولیس افسر پایا جو اپنے پیشے سے انتہائی مخلص اور وطن پر جان قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور قبر میں جو رات میں نے گزارنی ہے، اسے کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ان کی جب ایس ایس پی کے عہدے سے تنزلی کی گئی تو وہ دلبرداشتہ تھے، کئی دوستوں نے انہیں اپنی جان خطرے میں نہ ڈالنے، تبادلہ کرانے یا ملازمت چھوڑنے کا مشورہ دیا لیکن ان کا یہ موقف تھا کہ وہ پولیس کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کیلئے نوکری کرتے ہیں اور پاکستان کو ان کی ضرورت ہے۔ چوہدری اسلم پر تقریباً 10 حملے ہوئے۔ ان کے گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے۔ ان کا یہی جذبہ، یہی نڈر پن اور یہی بہادری ان تمام پولیس اہلکاروں اور ہر اس افسر کیلئے بہترین مثال تھی جو دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے وسط میں واقع گزری کا قبرستان جہاں چوہدری اسلم شہید کو سپرد خاک کیا گیا ہے، میرے گھر سے کچھ فاصلے پر ہے۔ میرا یہ روز کا معمول رہا ہے کہ میں آفس جانے سے قبل اپنی والدہ محترمہ کی قبر پر فاتحہ کیلئے جاتا ہوں۔ چوہدری اسلم کی تدفین کی اگلی صبح جب میں قبرستان پہنچا تو پولیس کی بھاری نفری وہاں تعینات تھی اور لوگوں کی آمد و رفت روزانہ کی نسبت کچھ زیادہ ہی تھی۔ یہ بھی بڑا عجیب اتفاق تھا کہ چوہدری اسلم کی قبر میری والدہ محترمہ کی قبر کے سامنے ہے۔ والدہ کی قبر پر فاتحہ سے فارغ ہوکر میں نے شہید چوہدری اسلم کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ میری موجودگی میں ڈیفنس کی رہائشی کئی فیشن ایبل خواتین و حضرات بھی چوہدری اسلم کی قبر پر فاتحہ کیلئے تشریف لائے جن کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان کا اپنا کوئی عزیز اس قبر میں دفن ہو۔ شاید وہ افسردہ تھے کہ ان کی حفاظت کرنے والا بہادر شخص اس دنیا میں نہیں رہا تھا جس کی موجودگی میں کراچی کے باسی اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے اور سکون کی نیند سوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایک نڈر پولیس والا سینہ تانے شہر کی سڑکوں پر گھوم رہا ہے۔ میں جب قبرستان سے نکلا تو دل بہت اداس تھا، میری اداسی میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب میری نظر انگریزی اخبار میں شائع ہونے ایک کارٹون پر پڑی جو موجودہ صورتحال کی غمازی کررہا تھا۔ کارٹون میں ایک بچے کوجس پر کراچی تحریر تھا، کو شہید چوہدری اسلم کی قبر سے چمٹے روتادکھایا گیا تھا جس کے سر پر کلاشنکوف تانے ایک دہشت گرد یہ کہہ رہا تھا کہ (Lets move now, Graves and Govt can't do anything for you) ’’یعنی رونا دھونا بند کرو اور یہاں سے دفع ہو کیونکہ یہ قبر اور حکومت اب تمہارے لئے کچھ نہیں کرسکتی۔‘‘
چوہدری اسلم کی موت سے دہشت گردوں نے ریاست کے خلاف طبل جنگ بجادیا ہے۔ شرمناک امر یہ ہے کہ حکمرانوں، ان کی بیگمات اور دفاتر میں بیٹھے سیکریٹریز کو بلٹ پروف گاڑیاں دی جارہی ہیں لیکن دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے والے چوہدری اسلم جیسے ہیرو ان سہولتوں سے محروم ہیں۔ آخر حکمراں کب تک ان جرأت مند افسران کو درندوں کے آگے پھینکتے رہیں گے؟ گزشتہ حکومت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حکومت نے دہشت گروں کی کمر توڑ دی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ دہشت گرد پہلے سے زیادہ منظم اور طاقتور بن کر ابھررہے ہیں اور انہوں نے ہماری کمر توڑ دی ہے۔ آج پاکستان اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے جس میں قوم دہشت گردوں کے معاملے میں تقسیم ہوچکی ہے اور سیاستدان کنفیوژن کا شکار ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کو دوسروں کی جنگ قرار دے کر دہشت گردوں سے مذاکرات کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ مسلح افواج بھی اس معاملے پر خاموش نظر آتی ہے۔ قوم روایتی دشمن بھارت کا چہرہ اچھی طرح پہچانتی ہے مگر اس بار ہمارے دشمن نے مذہب کی نقاب پہن رکھی ہے اور چوہدری اسلم کی شہادت سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام کے دشمن کون ہیں۔
چوہدری اسلم کی شہادت ایک ہیرو کی موت ہے جنھیں قوم نے ’’قومی ہیرو‘‘ کا درجہ دیا ہے۔ چوہدری اسلم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جب ارادے پختہ، عزم جوان اور ایمان تازہ ہو تو پہاڑوں کے سینے چیر کر بھی ان سے راستے بنائے جاسکتے ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنا اب صرف پولیس یا سیکورٹی فورسز کا کام نہیں بلکہ اب قوم کے ہر فرد کو چوہدری اسلم بننا ہوگا اور چوہدری اسلم کو رول ماڈل بناکر کراچی آپریشن کو کامیاب بنانا ہوگا۔چوہدری اسلم کے الفاظ میرے ذہن میں اب بھی گونج رہے ہیں کہ ’’دہشت گرد مجھے آزما کر دیکھ لیں، میں وطن کیلئے اپنی جان دے دوں گا مگر دہشت گردوں کے سامنے نہیں جھکوں گا۔‘‘ چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد پولیس کا مورال مزید بلند ہوا ہے یا وہ مایوسی کا شکار ہوئی ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر چوہدری اسلم کی شہادت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید کبھی پر نہ ہوپائے۔ دنیا میں ہر کسی کا متبادل ہے، کل کوئی دوسرا شخص چوہدری اسلم کی جگہ لے لے گا لیکن وہ چوہدری اسلم جیسا دبنگ نہیں ہوگا۔
تازہ ترین