• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نسل انسانی اس وقت تباہ کن دھماکےکےدرمیان ہے، یہ دھماکہ انسانی آبادی میں بے پناہ اضافہ کا دھماکہ ہے جو بڑی مصیبتوں کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی نے زمین کے ہر خطے میں قدرتی وسائل کے بوجھ میں اضافہ کردیا ہے، اس وقت آبادی میں اضافہ کی شرح تین لاکھ یا ساڑھے تین لاکھ افراد روزانہ ہے، اس طرح سالانہ ،دنیا کی آبادی میں7کروڑ کا اضافہ ہورہا ہے۔ ان تمام لوگوں کو غذا، پانی، کپڑا اور مکان کی ضرورت ہوگی، مشکل یہ ہے کہ آبادی میں اس اضافہ کا بہت بڑا حصہ ان علاقوں سے متعلق ہے جہاں پہلے ہی وسائل کی فراہمی نازک حالات سے دوچار ہے۔ آبادی میں زبردست اضافے نے دنیا کے مختلف علاقوں میں انسان کو بھوک، بیماری، آلودگی اور قحط جیسی مصیبتوں میں مبتلا کردیا ہے، اس اضافے پر روک ٹو ک نہ لگائی گئی تو اندیشہ ہے کہ صورت حال مزید تباہ کن ہوجائے گی۔

انسانی زندگی تہذیب کے ارتقاء کے اولین دور میں دس بارہ ہزار سال پہلے50لاکھ سے زیادہ تھی لیکن جیسے جیسے زرعی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور انسان بستیوں میں بسنے لگے، خیال ہے کہ14ویں صدی عیسوی تک دنیا میں لگ بھگ ایک ارب لوگ ہی آباد تھے، بیماریوں کی بہتات اور دوائوں اور غذائی وسائل کی محدود فراہمی نے دنیا میں آبادی کو کنٹرول رکھا۔ چنانچہ ماہرین نے یہ بات تسلیم کی کہ500برسوں تک آبادی میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا لیکن جیسے ہی صنعتی انقلاب نے دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کی توسائنس اور خاص طور پر طبی سائنس کی ترقی نے صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ چنانچہ1850ء میں دنیا کی آبادی ایک ارب5کروڑ تک جا پہنچی مگر محض ایک سو سال کے اندر اندر یعنی1987ء تک دنیا میں پانچ ارب لوگ بس رہے تھے اور اب اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے دنیا کی آبادی ساڑھے8ارب ہوگئی ہے لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ صنعتی انقلاب کی جائے پیدائش یورپ میں یورپی یونین کی آبادی میں2050ء تک ڈرامائی کمی واقع ہوجائے گی اور ایسا لاکھوں تارکین وطن کی آمد کے باوجود ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق یورپ میں اموات بدستور پیدائش سے زیادہ ہوں گی اور یہ سلسلہ پوری یورپی یونین میں جاری رہے گا۔ یورپین یونین میں ایک حالیہ سروے کے مطابق2029ء تک اٹلی کی آبادی کم ہونا شروع ہوجائے گی، اس کے ایک سال بعد یعنی2030ء میں جرمنی، سلواکیہ اورپرتگال کی آبادی کم ہونا شروع ہوجائے گی جبکہ برطانیہ کی آبادی قدرے بڑھتی رہے گی لیکن2040ء میں برطانیہ بھی اس کی زد میں آجائے گا۔ 2050ء تک یورپین یونین کے ممالک کی آبادی450ملین ہوگی جو20ملین کم ہوگی۔ یہ سروے یورپ میں پنشن کا بحران پیش آنے پر حفظ ماتقدم کے طور پر کیا گیا ہے کیونکہ اکثر حکومتیں ریٹائرمنٹ کے بینیفٹ کی رقم ملازمت کرنے والوں کے ادا کردہ ٹیکسوں سے دیتی ہیں۔ ادھر یورپ سے دور جاپان کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے۔ جاپان کی آبادی کا پانچواں حصہ معمر افراد پر مشتمل ہے، جاپان کی حالیہ مردم شماری کی ایک رپورٹ کے مطابق جاپان کی آبادی کا پانچواں حصہ65سال اور اس سے زائد عمر کے افراد پر مشتمل ہے جبکہ ملک میں نوجوانوں کی تعداد میں2004ء کے بعد تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے جس کی وجہ جاپان میں خاندانی منصوبہ بندی ہے۔ جاپانی حکومت کے مطابق ملک میں بوڑھے افراد کی آبادی میں اضافے اور نوجوانوں کی کمی سے ملکی اقتصادیات اور ترقی کو بڑا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ جاپان میں21فیصد آبادی65سال یا اس سے زائد عمر کے معمر افراد پر مشتمل ہے۔

یورپی یونین کے ہمسائے روس میں بھی اس سے ملتی جلتی صورت حال ہے لیکن روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اس کے لیے ایک دلچسپ حل ڈھونڈا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں اپنے سالانہ خطاب میں قوم کو اس گمبھیر صورت حال کا حل تجویز کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت روسی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ کم ہوتی آبادی ہے۔ شرح پیدائش میں کمی اور شرح اموات میں اضافے کے باعث مردم نگاری (ڈیمو گرامی) کی صورت حال تشویشناک ہوگئی ہے۔ انہوں نے ایک قومی اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ جس کے تحت عورتوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جائے گی اور حکومت انہیں بہت سی سہولتیں اور مراعات دے گی۔ انہوں نے کہا کہ رو س کی آبادی میں سالانہ سات لاکھ افراد کی کمی ہورہی ہے، جس کی وجوہات گرتی ہوئی شرح پیدائش، شرح اموات میں اضافہ اور ملک سے ہجرت کرجانا شامل ہیں۔ انہوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایک دس سالہ پلان کے خدوخال کا اعلان کیا۔ اس منصوبے کا ایک اہم حصہ بچوں اور نوجوان عورتوں کی فلاح و بہبود کے اقدامات ہیں، اس ضمن میں ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے والی خاتون کو انعام و اکرام سے نوازا جائے گا اور دوسری مراعات دی جائیں گی۔ یاد رہے کہ یہی طریقہ کار سوویت یونین میں بھی اپنایا گیا تھا۔

تازہ ترین