• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

24دسمبر1979ء کو روس کا افغانستان پر قبضہ اور اسکے بعد دس برس تک جارہی رہنے والاجہاد ہویا7اکتوبر 2001ء کو امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کی جدید ترین فضائی قوت کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی ۔ ان دونوں مواقع پر پوری دنیا میں صرف پاکستان ہی تھا جس نے افغان عوام کاساتھ دینے کا فیصلہ کیااور اسکے نتیجے میں بے پناہ نقصان اُٹھایا۔ ایک طرف سویت افواج کیخلاف مزاحمتی جنگ لڑنے والے افغان مجاہدین کو ہر طرح کی امداد فراہم کی تو دوسری طرف پاکستان آنے والے افغان مہاجرین کے محفوظ قیام اور ملک میں ان کیلئے خوراک وعلاج معالجہ اور ہر طرح کے آرام کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ قربانیوں کا سلسلہ دوسری بار اکتوبر 2001ء میں اس وقت شروع ہواجب امریکی اورنیٹوافواج نے ڈیزی کڑبموں اور ٹوماہاک میزائلوں کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا۔ پاکستان نے دوہائیوں تک افغانستان میں حملہ آور افواج کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغان طالبان کی حمایت کا سلسلہ جارہی رکھا اور بدلے میں 100ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی نقصان اور 80ہزار پاکستانیوں کی شہادت کی صورت میں قیمت ادا کی۔ اس عرصہ میں پاکستان میں 1979ء سے موجودافغان مہاجرین میں مزیداضافہ ہوا۔

پاکستان نے افغا نوں کو پناہ دی ، ان کیلئے کاروبارکے مواقع پیدا کئے ہرسال 30لاکھ ٹن گندم غیر سرکاری طریقے سے افغانستان گئی ۔صرف گندم ہی نہیں بلکہ چاول، گھی، خوردنی تیل ،الو، پیاز، جوس، مالٹے ،نمک، مرچیں،اورسینکڑوں غیر زرعی اشیاء پاکستان سے ان تک جاتی رہیں۔ 2007ء کے دوران ٹی ٹی پی کے قیام کے بعد اسکے سربراہ بیت اللہ محسود کی سربراہی میں خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی لہر نے جنم لیاجو رفتہ رفتہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں پھیلتی گئی ۔پاک فوج کے انسداد دہشت گردی آپریشنز کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے پاکستانی قبائلی پٹی سے فرار ہو کر سرحد پار افغانستان میں اپنے اڈے بنالیے ۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حال ہی میں ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میںکہاکہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک بشمول پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائیوں میں استعمال نہیں ہورہی اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کی کوئی بھی پناہ گا ہ موجود نہیں ۔ بدقسمتی سے ذبیح اللہ مجاہد کایہ دعویٰ زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہے ۔ اسلحہ جو امریکی اورینٹو افواج بھاری تعداد میں اپنے زیر استعمال اڈوں پر چھوڑ کر افغانستان سے چلی گئیں اور اربوں ڈالرمالیت کا یہ خطرناک اسلحہ افغان طالبان کی عبوری حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا۔

ایک عرصے سے افغانستان سے ابھرنے والی دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف بلوچستان ہے ا ور اس صورتحال کو غور سے دیکھا جائے توپاک چین اقتصادی راہداری دہشت گردی کی ان کارروائیوں کا بنیادی ہدف نظر آتی ہے۔افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء یا دوسرے لفظوں میں اقتدار بلا شرکت غیرے افغانوں کے ہاتھ میں آنے میں پاکستان کی یہ دلچسپی بھی تھی کہ ہمسایہ ملک خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ ملکر استحکام کی طرف بڑھے اور سی پیک سے منسلک علاقائی معاشی ترقی کے امکانات کا شراکت دار بنے۔اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔افغانوں نے علاقائی امن و ترقی کا حصہ دار بننے کی امیدوں کو کچل دیا۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے واضح طور پر کہا ہے کہ مسلح افواج ملک سےدہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے تک سکون سے نہیں بیٹھیں گی۔

اگست 2021ء میں جب طالبان کابل پرقبضہ کررہے تھے توپاکستانی حکمرانوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ پڑوسی ملک میں پاکستان کی خیر خواہ حکومت آنے والی ہے،انکا خیال تھا کہ دوحہ معاہدے کے تحت طالبان اس بات کی پابندی کریں گے کہ وہ اپنی سر زمین دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کے فروغ کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔گزشتہ دنوں باجوڑ میں ہونے والی دہشت گردی میں دہشت گردوں کا تعلق بھی واضح طورپر افغانستان سے ہے۔اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں صاف صاف لکھا ہے کہ طالبان حکومت کی نگرانی میں 20ـــ دہشت گرد گروپ افغانستان میں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیںاور ٹی ٹی پی انکا سب سے نزدیک ترین گروپ بلکہ انکی اسلامی امارات کا مکمل حصہ ہے۔افغانستان اپنی تمام درآمدات و بر آمدات اور دوسرے معاشی و ثقافتی حوالوں سے پاکستان پر انحصار کرتا ہے۔ضروری ہے کہ پاکستان،چین اور ایران مل کر افغانستان پر زور ڈالیں کہ وہ اپنی سر زمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے اور کسی بھی قسم کے ترقیاتی معاہدوں سے پہلے اس بات کی تصدیق کر لیں کہ افغانستان دوحہ معاہدے کی مکمل طور پر پابندی کرے گا۔ورنہ ٹی ٹی پی کی دہشت گردی صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گی۔ دوسرے پڑوسی ممالک بھی جلد یا بدیراس کی لپیٹ میں آئیں گے۔پاکستان ، افغانستان اور ایران کے درمیان ہزاروں میل کا غیر محفوظ سرحدی علاقہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔جس کیلئے ضروری ہے کہ ایران اور پاکستان ایک ایسا سرحدی معاہدہ کریں کہ دہشت گرد ان علاقوں کو اپنی کارروائیوں کیلئے استعمال نہ کر سکیں۔

تازہ ترین