• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی اتنی زیادہ راہ و رسم نہیں تھی۔ بس ہیلو ہائےاور سب ٹھیک ہے، والی بات تھی۔ بازار کی کسی کشادہ سڑک یا گلی کوچے میں اچانک ٹکرائو ہوجاتا تو مسکراہٹوں کا تبادلہ اور ہاتھوں کا فضا میں خیرسگالی انداز میں لہرانا ایک عام سی بات تھی۔ ایک دن جب آسمان پر گھنگھور گھٹائیں برسنے کو تیار کھڑی تھیں۔ مَیں سودا سلف والی بھاری ٹوکری اُٹھائے اپنےرستے پرتیزی سے بڑھ رہی تھی کہ اُس سے ٹکراؤ ہوگیا۔ 

معمول کے مطابق مَیں نے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھیر کر آگے بڑھ جانا چاہا کہ اُس وقت آنگن کی لمبی تارکے پچھتّر کپڑے میری آنکھوں کےسامنےناچ رہے تھے، جو مَیں نے صبح کوئی دو گھنٹوں میں دھوئے تھےاورجن کاکوئی دس بارمیاں کے سامنے ذکر کیا تھا۔ بارش شروع ہوگئی تو اچھے بھلے سوکھے سُکھائے کپڑے مسئلہ بن جائیں گے۔ اسی لیے مَیں نے تیزی سے اپنا راستہ ناپنا چاہا، مگر مجھے محسوس ہوا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے اورخواہش مند ہے کہ مَیں رُک کراُس کی بات سُنوں۔ ’’پلیز، میرے گھرکا پتا ہے ناں، آنا۔ بیٹھیں گے، تو بات ہوگی۔‘‘

موٹی موٹی بوندیں شاید اِسی انتظار میں رُکی ہوئی تھیں کہ کب مَیں کپڑوں کا کلاوہ بھرکراندرجائوں اور کب وہ چَھم چَھم کرتی دھرتی کی پیاس بجھانے آئیں۔ تب ہی جل تھل ایک ہوگیا۔ نالیاں، نالوں اور نالے، دریائوں میں بدل گئے۔ لیکن چڑھا ہوا پانی ابھی اُترا بھی نہ تھا کہ وہ گلی کُوچوں کے ندی نالے الانگتی پھلانگتی میرے گھر داخل ہوئی۔ 

کاہی رنگ کی شلوار، پائینچوں سے پوری ایک بالشت اوپر گدلے پانی میں غوطے کھاتی آئی تھی۔ اُس نے باتھ روم میں پائوں دھوئے۔ گیلری میں کھڑے ہو کر نیفے میں ٹھنسی شلوار نیچے کی اور ڈرائینگ روم میں صوفے پر آبیٹھی۔ اُس وقت ہوائوں کے چلنے کا انداز البیلی نازنینوں جیسا تھا۔ مَیں نے بیٹھنے سے قبل کہا ’’موسم خوش گوار سی خنکی لیے ہوئے ہے۔ چائے ٹھیک رہے گی۔‘‘

چولہا جلاتےاوراُس پرکیتلی چڑھاتے مَیں نے بےاختیارسوچا۔ ’’اِسے بھلا مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے‘‘؟ اور جب مَیں ٹرے میں دو مگ رکھے اندر آئی، مجھے یوں محسوس ہوا، جیسےگراموفون مشین کے ریکارڈ پر سوئی رکھ دی گئی ہو۔ ’’جِمی ایسا وجیہہ اور مدّبر ہے کہ سیزر آگسٹس بھی اس کے آگے پانی بَھرے۔ وہ ایسا نیک سیرت ہے کہ اُسے آج کےدَور کاعُمر بن عبدالعزیز کہاجاسکتا ہے۔ اُس کی قابلیت اور لیاقت ڈاکٹر قدیر خان کو مات کرتی ہے۔‘‘ مجھے اچّھو لگ گیا تھا۔ چائے میری سانس کی نالی میں چلی گئی تھی۔ جب شعلہ بیانی کا یہ عالم ہو۔ 

تشبیہات واستعارات کی یوں فروانی ہو، تو اچھو لگنا فطری امر ہے۔ مگرمَیں نےاُس کی ذہانت و لیاقت کی داد دی تھی کہ کس خُوب صُورتی سے اُس نے ماضی بعید، ماضی اورحال کی شخصیات کے ساتھ جِمی کو منسلک کیا تھا۔ جِمی کون ہے؟ اُس کا بھائی، بھانجا، بھتیجا، خلیرا، چچیرا یا ممیرا بھائی مَیں نہیں جانتی تھی اوروہ تھی کہ باتوں کی شاہراہ پر پیجارو کی طرح سرپٹ بھاگے جارہی تھی۔ مَیں نے خالی کپ تپائی پر رکھا اورچاہا کہ پیجارو کے بریک کلچ پر پائوں رکھ کراُس کی تیز رفتاری کا زور توڑوں اور اِس قصیدہ خوانی کا مُدعا تو جانوں، تبھی وہ خُود ہی مقصد کی پٹری پر چڑھ گئی۔ ’’جِمی کے لیے لڑکی دیکھنی ہے۔خُوب صُورت، کانونٹ یا کسی بھی اونچے اسٹینڈرڈ کے ادارے کی تعلیم یافتہ، انگریزی روانی سے بولے۔ 

گھر، گھرانہ پڑھا لکھا، مہذّب ہو اور لڑکی کی ماں کا پڑھا لکھا ہونابہت ضروری ہے۔ جِمی اونچی سوسائٹی میں اُٹھنے بیٹھنے والا لڑکا ہے۔ یار دوست سبھی ہائی جینٹری سے ہیں۔‘‘ مَیں ساری بھڑکیلی باتیں صبر کے میٹھے گھونٹوں کی طرح پی رہی تھی، مگر جب پیتے پیتے اپھارہ سا ہونے لگا، تب اُس کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’اب ذرا جِمی کی ذاتِ شریف کا تعارف تو کروائو‘‘۔ ’’جِمی میرا چھوٹا بھائی ہے۔ اُس نے گردن فخریہ انداز میں بلند کی۔ مجھے یوں دیکھا، جیسے وہ ماشہ بروم کی چوٹی پربیٹھی ہواورمَیں کسی زمین گڑھے میں دھنسی پڑی ہوں۔ سب بہن بھائیوں میں چھوٹا ہے۔ ڈاکٹر ہے، گولڈ میڈلسٹ۔ امریکا سے فُل برائٹ اسکالر شپ پرہارٹ سرجری میں اسپیشلائزیشن کر کے آیا ہے۔ نہایت ذہین فطین لڑکا ہے۔‘‘وہ بولے چلی جا رہی تھی۔

سچّی بات ہے، اب میرے مرعوب ہونے کی باری تھی اور مَیں ہوئی بھی۔ مَیں نے سوچا، ایسا نوجوان اگر زندگی کی ساتھی کے لیےایسی شرائط پیش کرتا ہے، تو اسے گوارا کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت میں اچھے لڑکوں کا قحط پڑا ہوا ہے۔ ایک انار،سو بیمار والی بات ہے۔ بہتیری ملنے جُلنے والیوں نے اپنی بیٹیوں، بہنوں کے لیے کہہ رکھا ہے۔ چلو، کسی کا بھلا ہوجائے تو اِس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟’’ثمینہ نے مجھے آپ کے پاس آنے کا کہا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ آپ کے تعلقات کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ اب آپ میری مدد کریں۔‘‘ اُس نے اُمید کا دامن پھیلا دیا تھا۔ مَیں نے ہنس کر کہا۔ ’’وسیع تو خیرکیا، بس عادت ہے، یونہی بے تکلف ہوجانے کی۔‘‘

اُس نے لمبا سانس بھرا اور بولی۔ ’’مَیں سخت پریشان ہوں۔ جِمی کو اپریل میں انگلستان جانا ہے اور وہ دلہن کو اپنےساتھ لےجاناچاہتا ہے۔ مجھے ہنگامی حالت میں دلہن تلاش کرنا پڑ رہی ہے‘‘۔ مَیں اُس کے پھیلے ہوئے دامن میں فی الفور کچھ ڈالنے سے معذورتھی، لیکن مَیں نے وعدہ کیا کہ اِس کارِخیر میں اُس کی ہرممکن مدد کروں گی۔ یہ اور بات ہے کہ اُس کے چلے جانے کے بعد کتنی دیراِس الجھن نے میرا پیچھا نہ چھوڑا کہ خدایا کیسا زمانہ آگیا ہے۔ لڑکا لائق ہوجائے، تو مائوں بہنوں کے دماغ عرشِ معلیٰ پر جاپہنچتے ہیں۔

پھر شرائط کی کسوٹی پر میل ملاقات والوں کی لڑکیوں کو پرکھتے پرکھتے دفعتاً مجھے خیال آیا کہ مَیں اُس کے بارے میں کیا جانتی ہوں؟ ماسوائے اِس کے کہ وہ میری امّاں کے محلّے کی ایک ایسی گلی میں رہتی ہے، جو اپنے بلند و بالا، خُوب صُورت گھروں کی وجہ سے ممتاز ہے، لیکن اُس کا گھر کون سا ہے، گھر کے لوگ کیسے ہیں، معیارِ زندگی کس صف میں آتاہے؟ مجھے کچھ علم نہیں۔ اب مَیں جس کسی سے بھی بات کروں گی، انہوں نے کچھ پوچھ لیا تو لاعلمی کا مظاہرہ ٹھیک نہیں ہوگا، لہٰذا پہلے اپنی تسلّی ہونی چاہیے۔

پوچھ گچھ کےبہترین ذرائع میں سے ایک ہم سائے ہوتے ہیں، جو پوتڑوں تک سے واقفیت رکھتے ہیں، خصوصاً گلی محلوں میں۔ ثمینہ میری دوست کی چھوٹی بہن تھی، سو، اُسی سے گھر کی صحیح نشان دہی کروائی۔ پھر ایک شب اُسی گلی میں دائیں ہاتھ والے گھر پہنچ گئی۔ گھرکی معّمرخاتون رضائی میں بیٹھی چلغوزوں سے شوق فرما رہی تھیں۔ کمرے میں داخل ہوتی ایک اجنبی عورت دیکھ کراُن کی آنکھوں کے سمندر میں حیرت و استعجاب کی بلند و بالا موجیں اٹھیں۔ َمیں قریب جا بیٹھی اور آہستگی سے اپنا مدعا بیان کیا۔ انھوں نے نرمی سے کہا۔ ’’دیکھوبیٹی! حقیقت تویہ ہے کہ سارا خاندان جھگڑالو قسم کا ہے، لیکن جمیل جِسے سب جِمی کہتے ہیں، ایک ہیرا ہے۔ نہایت خُوب صُورت، بہت ذہین،انتہائی قابل اوربیبا لڑکا، جتنی تعریف کرو، اُتنی کم ہے۔ واقعی وہ بہترین گھر میں بیاہنے کے قابل ہے، مگر بیٹی اِس کی بہن کہیں ٹکےتب ناں۔‘‘ میری تسلی ہوگئی تھی۔ مَیں نے بات چیت مخفی رکھنے کا وعدہ لیا اور باہر نکل آئی۔

اب مَیں اُس کےگھرکی انگنائی میں کھڑی تھی۔ دو منزلہ گھر جتنا باہر سے عالی شان نظرآتا تھا۔ اندر سے اُسی قدر بُجھا بُجھا سا تھا۔ سامنے والی دیوار کے ساتھ گھرکا باورچی خانہ تھا، جہاں اُس کی چندھی آنکھوں والی ماں کچھ پکانے میں جُتی ہوئی تھی۔ مَیں نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور تعارف کروایا تو فوراً اونچی سی پیڑھی دہلیز پر رکھتے ہوئے بولیں۔’’آئو آئو بیٹھو۔ مسرت کل تمہارے گھر گئی تھی۔ بتا رہی تھی مجھے۔‘‘’’کہاں ہے وہ؟‘‘مَیں نے نگاہیں صحن میں اِدھر اُدھر دوڑائیں۔ ’’بازار گئی ہے۔ لوٹنے ہی والی ہو گی۔‘‘ میری تنقیدی نظریں اب باورچی خانے کے در و دیوار پر تھیں۔ گجرات کے سستے چینی کے برتنوں سے دیواروں میں لگے تختے بَھرے ہوئے تھے۔ اُس کی ماں نے چولہے پر چائے کا پانی چڑھا دیا تھا۔ 

پانی کھول رہا تھا اور وہ پتّی ہاتھوں میں لیے بیٹھی تھی۔ جب پانی جی بھر کر کھول چُکا تو چُٹکی بھر پتّی ڈال کر پھر کھولانے لگی۔ اُس کے بعد دودھ ڈالنے کی باری آئی۔ دودھ ڈالا، ساتھ ہی مُٹھی بَھر چینی بھی۔ سلور کی پتیلی کے نیچے آنچ تیز ہوگئی تھی۔ یہ چائے پک رہی تھی۔ مَیں نےبہت لمبا سانس کھینچا تھا۔ یہ اونچے گھر کی فرفر انگریزی بولتی لڑکی لانا چاہتی ہیں۔ بُھرے کناروں والی پیالی میں چائے ڈال کرانھوں نے مجھے وہ پیالی تھمائی،توسانپ کےمنہ میں چھچھوندر والی بات ہوگئی تھی کہ نہ اُگلے بنے اور نہ نِگلے۔ مَیں توجاپانیوں کی طرح چائے بنانے کوعبادت کا درجہ دیتی تھی۔ بمشکل نگلی اوراُٹھ کرپیالی خُود اُن برتنوں میں رکھی، جو قریبی کُھرے میں نل کے نیچے دُھلنے کے انتظار میں مکھیوں کی دعوتِ طعام تھے۔

حالات جس نہج پرہیں، اُن کے پیش نظر ایسی لڑکی کا ملنا کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ والدین کو تو آج کل صرف ہیرا سے لڑکوں کی تلاش رہتی ہے۔ سو، اگلے دن مَیں نے مسز شمیم احسان سے بات کی۔ پانچ بیٹیوں کی ماں، جو اُن کی شادیوں کے لیے بہت پریشان تھیں۔ جب ملو، پہلی بات یہی ہوتی۔ خدا کے لیے کوئی اچھا سا رشتہ تو بتائو۔ اُن سے بات چیت کے بعد مَیں نے مسرت سے رابطہ کیا۔ دن اور وقت بتایا۔ جس دن لڑکی کو دیکھنےجانا تھا، مَیں اُن ماں بیٹی کی سَج دھج دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ مسرت کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں والی ماں مہارانی جے پورکومات دے رہی تھی۔ خُود مسرت ایسی بنی سنوری کہ بےاختیار کسی اشتہارکا گمان گزرا۔ 

مسز شمیم احسان بچھی جارہی تھیں۔ کھانےکی میزچیزوں سے بَھر دی تھی۔ تینوں ہی بیٹیاں سامنے آگئی تھیں۔ اچھی بھلی،خوش شکل لڑکیاں جنھیں مسرت نے بےاعتنائی سے دیکھا۔ واپسی پر مسرت میرے اس استفسار کے جواب میں کہ ’’کہو کیسی لگیں؟‘‘۔ بولی۔ ’’مَیں نے آپ سے کہا تھا کہ لڑکی بہت خُوب صُورت چاہیے۔‘‘ ’’ارے…مَیں آسمان سے اُتری حُوریں تو تمہیں دِکھانے سے رہی۔‘‘ ’’پلیز…‘‘ اُس کا ملتجی سا اندازمجھےمتاثر کرنے کی بجائے مشتعل کرگیا۔ مَیں نے رکھائی سے کچھ کہنا چاہا، مگروہ فوراً میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر بولی۔’’آپ میرے ساتھ گھر چلیے۔ جِمی اسلام آباد سے آیا ہوا ہے۔ اُسے ایک نظردیکھ لیں۔‘‘وہ مجھے زبردستی اپنے گھر لے گئی۔ جِمی کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ وہ گُدڑی میں لعل ہے۔ مہذّب اور برخوردار قسم کا وجیہہ لڑکا، جسے واقعی ایک اچھی لڑکی ملنی چاہیے تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مسز شمیم احسان کے سلسلے میں مسرت نے جو رویّہ اختیار کیا، مَیں نے اُسے بُھلا ڈالا۔

چاروں کھونٹ ایک بار پھر میری نظروں کی زَد میں تھے۔ اس بارجوگھرتاکا، وہ سو فی صد اُس معیارپرپورااُترتا تھا، جو مسرت چاہتی تھی۔ مسزربّانی میری ایک دوست کی عزیز تھیں۔ کاروباری اور زمیں دار گھرانہ، وضع داری گُھٹی میں پڑی تھی۔ گھر عالی شان تھا۔ گیٹ ہی سے نوکر نہایت عزت و احترام سے اندر لائے۔ مسز ربّانی انتہائی شائستہ، مہذّب اوردین دار خاتون تھیں۔ اُن کی نوعمر بیٹی زوبیہ، جو بی اے فائنل میں تھی‘ چندے آفتاب، چندے ماہتاب تھی۔ 

ایسی نازک، جیسے گلاب کی لچکیلی شاخ، ایسی شگفتہ، جیسے چنبیلی کی کلی صبحِ دَم کِھلی ہو۔ مسرت نےاُسےدیکھا اورمجھ سے کہا۔ ’’مَیں آپ کی ممنون ہوں کہ آپ ہمیں یہاں لائیں۔ یہ لڑکی ہزاروں میں نہیں، لاکھوں میں ایک ہے‘‘۔ مَیں نےخدا کا شُکرادا کیا کہ چلو، میرے طفیل کوئی نیکی کا کام ہوا۔ باوردی بیروں نے چائے سرو کی۔ چائے سے فارغ ہو کر بات چیت شروع ہوئی اور جب کوئی دوگھنٹے بعد ہم اُٹھنے لگے، تو مسز ربّانی نے کھانے کے لیے روک لیا۔ مَیں نے کہا بھی کہ اِس تکلّف کی ضرورت نہیں، مگر وہ رسان سے بولیں۔ ’’عین کھانے کے وقت مہمان گھر سےچلاجائےتو رحمت اور رزق کےفرشتے دُور چلے جاتے ہیں‘‘۔

بہرحال، مسرت اوراُس کی ماں کووہ لڑکی اور گھرانہ بہت پسند آئے۔ دو دن بعد مسرت کا پورا خاندان دو گاڑیوں میں لد لدا کر پھر مسز ربّانی کے ہاں جا پہنچا۔ مسرت چاہتی تھی، بھاوجیں بھی وہ اَن مول ہیرا دیکھ لیں، جس پراُس کی نگاہ ٹِکی ہے۔ مسزربّانی نے خوش آمدید کہا۔ لڑکی سارے کنبے کو پسند آئی۔ بَردکھوے کا مرحلہ آیا۔ لڑکا تو خیر لاکھوں میں ایک تھا، لیکن گھر دیکھ کر مسز ربّانی پریشان ہوگئیں۔ شوہر سےکہا۔’’ایسے پُر آسائش ماحول کی پروردہ لڑکی اُس ماحول میں نہیں رہ سکتی، زمین آسمان کا فرق ہے۔ ربّانی صاحب نے بیگم کو سمجھایا۔ ’’احمق مت بنو۔ مجھے لڑکا بہت پسند آیا ہے۔ ذہین وفطین بچّہ ہے۔

شان دارمستقبل اُس کے سامنے ہے،اعلیٰ تعلیمی قابلیت کا اثاثہ پشت پر ہے۔ مال و دولت کی ہمارے پاس کمی نہیں۔ اُسے کلینک بنا دیں گے، نیا گھر خرید دیں گے۔ ہمارے لیےاُسے سیٹ کرنا کون سا مسئلہ ہے۔ بات ٹھیک تھی۔ بیوی کے خانے میں بیٹھ گئی۔اب دونوں گھروں میں آمد و رفت شروع ہوگئی۔ مسرت جاتی،خُوب خُوب آئو بھگت کرواتی۔ ہونے والی بھاوج کے واری صدقے ہوتی۔ مَیں اُن دنوں لاہور سے باہر تھی۔ جب منگنی کی رسم ادا ہوئی۔ سُننے میں آیا کہ طرفین نےبہت دھوم دھام کا مظاہرہ کیا۔

پھرایک شام مسرت مجھ سے ملنے آئی۔ مَیں گھر پرنہیں تھی۔ وہ رقعہ لکھ کر چھوڑ گئی کہ ’’پھرآئوں گی۔‘‘ مَیں نے پڑھا اور سوچا۔ یقینًاشادی کےحوالے سےکسی صلاح مشورے کے لیے آئی ہوگی۔ یہ بھی خیال آیا، اُسے بھلا میرے مشوروں کی کیاضرورت؟ وہ خیر سےخود بہت بڑی فلاسفر ہے۔ اُس کے بعد ایک دن مَیں بازار میں لہسن، پیاز خرید رہی تھی کہ مجھے اپنی ایک پرانی دوست نظر آگئی۔ مَیں نے ٹوکری ریڑھی پر پھینکی اور فوراً اُس کی طرف لپکی۔ وہیں سڑک کنارے ہم ایک دوسرے سے بغل گیر ہوگئیں۔ میری یہ دوست پہلے فیصل آباد میں رہتی تھی۔ کوئی چھےماہ قبل میاں کے تبادلےکی وجہ سے لاہورآئی تھی۔ اب آفیسرزکالونی میں رہائش پذیر تھی۔ 

باتوں باتوں میں دفعتاً اُس نے کہا۔ ’’دو تین دن ہوئے، یہیں اپنی اسکول کی ایک دوست مسرت سے ملاقات ہوئی۔ مَیں تو حیران رہ گئی، کیسی طرح دار شخصیت نکالی ہے اُس نے۔ اسکول کے زمانے میں توایویں سی تھی۔ ’’اچھا، کہاں ملی؟‘‘ مَیں مسرت کا نام سُن کر بےاختیار چونکی۔ ’’اپنے ڈاکٹر بھائی جمیل کے لیے میرے مالک مکان کی بیٹی دیکھنے آئی تھی۔ مَیں اتفاقاً نیچے گئی تو اُسے بیٹھے دیکھا۔ اُس کی سج دھج اور بناؤ سنگھار تو لیڈی ہملٹن کو شرما رہا تھا۔ مَیں تو سچّی بہت متاثر ہوئی‘‘ ’’ارے دیکھو، اُس بد ذات کو۔ مَیں آگ بگولا ہو اُٹھی۔’’میرے ملنے والوں کے ہاں بات تک پکّی کر بیٹھی تھی اوراب اُنہیں چھوڑ کر اورطرف چل نکلی ہے۔‘‘ 

میرے غصّے اور اضطراب کا یہ حال تھا کہ جی کیا، ابھی اُسی وقت اُس کے گھر جاؤں، لیکن اُس وقت بارہ بج رہےتھے اور بچّوں کے اسکول سے آنے کا وقت تھا۔ پھربچّوں کو کھانا وغیرہ کِھلا کراورظہرکی نماز سے فارغ ہوکرمَیں اُس کے گھر گئی۔ گھر ویران پڑا تھا۔ میرے اندرنےجیسے کہا۔’’کہیں دفع ہوئی ہوگی، کسی اور کو بےوقوف بنا رہی ہوگی۔‘‘ لیکن پھر بھی زور سے آوازلگائی۔ خوش قسمتی سے میرے پکارنے پر وہ اندر کے کسی کمرے سے آنگن میں آگئی۔مَیں نے چُھوٹتے ہی کہا کہ ’’تم کیا کرتی پِھر رہی ہو؟‘‘جواباً وہ کسی شرمندگی یا تاسف کا اظہار کرنے کی بجائے ڈھٹائی سے بولی۔’’عجیب لوگوں سے آپ نے ہمارا ملاپ کروایا۔ وہ تو لڑکا پھانسنے کے چکر میں تھے۔ بس ہم نے انکار کردیا ہے۔ خدا کا شُکر ہے کہ نکاح وغیرہ نہیں کیا تھا۔‘‘ 

مَیں گم صُم اس کی صُورت دیکھ رہی تھی۔ دیربعد ڈوبتی آواز میں کہا۔ ’’تم بیٹیوں کےمعاملات کومذاق سمجھتی ہو۔ منگنیاں کرتی ہو اور پھر توڑ دیتی ہو۔ کچھ خدا کاخوف کرو۔‘‘ مگر اُس کے الفاظ اُس کے اطوار، اِس درجہ کٹیلے تھے کہ مزید کچھ کہنا ایسا ہی تھا، جیسا بھینس کے آگے بین بجانا۔ مَیں کانوں کو ہاتھ لگاتے واپس آگئی۔ سوچ رہی تھی کہ فضول نیکیاں سمیٹنے کے چکر میں نکو بنتی پِھر رہی ہوں۔

اُسی شام مسز ربّانی آگئیں۔ خُشک ہونٹوں اوراُڑے ہوئے رنگ و رُوپ کے ساتھ بڑی دل گیر سی لگیں، بولیں۔ ’’ اُف کیسے لوگوں سے ہماراواسطہ پڑا۔ زوبیہ کو دیکھا، پسند کیا۔ سارا خاندان گاڑیاں بَھربَھرآتا رہا۔ خاطر تواضع کرواتا رہا۔ منگنی پراصرار ہوا۔ مَیں صرف لڑکے کی خاطر رضامند ہوئی کہ نیک، شریف بچّہ ہے۔ پندرہ لوگ منگنی پر آئے۔ سب کو کپڑے لتّے دئیے۔ لڑکے کو ہیرے کی انگوٹھی پہنائی۔ ماں کی کلائیوں میں کنگن ڈالے۔ اُس بد ذات مسرت کو چوڑیاں دیں۔ 

اب سُنو، کل کی بات۔ زوبیہ اپنی ایک دوست کے گھر گئی۔ وہاں شام کی چائے پر کچھ مہمان آرہے تھے۔ خصوصی انتظامات دیکھتے ہوئے زوبیہ نے مذاقاً دوست سے کہا۔ ’’یہ اکیلے اکیلے کیا چکر چلا رہی ہو؟‘‘وہ جواباً بولی۔ ’’میرا تو ابھی چلا نہیں اور تُونے بغیر بتائےچلا بھی لیا۔‘‘ زوبیہ کے اصرار پراُس نے جِمی کے متعلق بتایا کہ لڑکے کی بہن تو پسند کرگئی ہے۔ آج اُس کی ماں آرہی ہے۔ زوبیہ کا اوپر کا سانس اوپر، تلے کا تلے رہ گیا، فوراً گھر بھاگی۔ مجھے بتایا۔ مَیں اُسی وقت اُس کی دوست کے گھر گئی اور ساری بات اُنہیں بتائی۔ پروگرام یہ طے ہوا کہ جونہی یہ لوگ آئیں۔ مَیں سامنے آکراُن کی خُوب تواضع کروں۔ لیکن وہ وہاں گئےہی نہیں۔ 

ربّانی صاحب نےجِمی سے رابطہ کیا، تو صُورتِ حال پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتاہے۔’’مَیں شرمندہ ہوں، لیکن اپنی بہن کے سامنے کچھ نہیں کرسکتا۔‘‘ دراصل مسرت نے باپ کے مرنے کے بعد بھائی کومحنت و مشقّت کرکےپڑھایا لکھایا ہے۔ اب اگر وہ اُس کی مرضی کے خلاف کوئی بات کرتاہے، تو بڑھاپے کی دہلیز میں داخل ہوتی کنواری بہن پل بَھر میں اس کا تیاپانچا کر دیتی ہے اور طعنےدے دے کرجینا حرام کر ڈالتی ہے۔ کیسی الم ناک بات ہے۔ پولیس سے ہم شرفاء مدد نہیں لےسکتے۔ جگ ہنسائی کا ڈرہے۔ یوں بھی ہمارا کیس کم زور ہے۔ لڑکا ایسی ذمّےدار پوسٹ پر بیٹھا ہے کہ اُس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘ مسز ربّانی کی دُکھ بَھری کتھا سُن کر مَیں بھی ایک لمبی آہ بَھرنے اور اِس ساری صورتِ حال پرافسوس کے سوا کیا کرسکتی تھی۔

دِنوں بعد ایک شام مَیں نے مسرت کی بھاوج کوبازارمیں دیکھا، تو روک لیا اور پوچھا کہ مسز ربّانی کے سلسلے میں ایسا کیوں ہوا؟ اُس کی بھاوج کے ہونٹوں پر بڑی زہرخند ہنسی اُبھری۔ میرے چہرے پرچند لمحے نگاہیں جمانے کے بعد بولی۔ ’’دراصل مسرت کی ویران، بےرنگ، یک سانیت کی شکار زندگی لڑکیاں دیکھنے دِکھانے اور خاطر مدارت کروانے میں ایک ایسے گلیمر سے آشنا ہوئی کہ جس نے اُس کی شامیں رنگین کردیں۔ 

جِمی کی شادی ہوجانے سے تویہ مشغلہ ختم ہوجائے گا کہ اللہ میاں کی گائے ایک جِمی ہی تواس کی جیب میں وہ وی آئی پی کارڈ ہے، جس سے وہ کسی بھی اونچے گھر کا دروازہ کھٹکٹا ہی نہیں سکتی بلکہ بےدھڑک اندر بھی داخل ہو سکتی ہے۔‘‘ ’’اومیرے پروردگار! تیری دنیا کے بندے انسانیت کی اعلیٰ اقدارمحض اپنی تسکینِ طبع کے لیے کن کن زہریلے ہھتکنڈوں سے ذبح کرتے ہیں۔‘‘ مَیں نےزیرِ لب کراہتے ہوئے خود سے کہا۔ اور خاموشی سے گھر لوٹ آئی۔

سنڈے میگزین سے مزید