• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دنیا کی سب سے بڑی عیاشی کیا ہے ؟ دولت کے انبار ، ایک طاقتور اور کسرتی جسم ، بے پناہ شہرت یا اقتدار ۔حیرت انگیز طور پر یہ سب نعمتیں عارضی ہیں ۔آپ نہیں جانتے کہ کب محمد علی جیسا طاقتور شخص پارکنسن زدہ زندگی گزارنے پر مجبورہو جائے۔ طاقت کا مظاہرہ تو رہا ایک طرف ،اسے بولنے میں دقت ہو رہی ہو ۔دولت کا بھی یہی حال ہے ۔ ارب پتی لوگ فٹ پاتھ پہ آجاتے ہیں ۔ شہرت کا معاملہ بھی یہی ہے ۔ شوبز کے کتنے نامور لوگ آخر اذیت ناک گمنامی اور تنہائی سہتے ہیں ۔

اس دنیا میں کئی چیزیں ایسی ہیں ، جہاں انسان کی دولت اس کا کچھ ساتھ نہیں دے سکتی ۔ امیر اور غریب ایک برابر ہو جاتے ہیں ۔ جسمانی تکلیف ایک ایسی چیز ہے، جس سے دنیا کا کوئی بھی شخص بچ نہیں سکتا۔ کسی بھی وقت کوئی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ کوئی بیماری سر اٹھا سکتی ہے۔گاڑی ٹکر مار سکتی ہے ۔ ٹائیفائیڈ سے لے کر پتّے میں پتھری اور بڑی آنت کے کینسر سے لے کر بد ہضمی تک، کسی نہ کسی صورت ہر امیر اور غریب شخص کو زندگی میں جسمانی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی بیماریاں لا علاج ہوتی ہیں ۔ایک امیر عورت کو بھی بچّے کو خود ہی جنم دینا پڑتا ہے۔ گو کہ تکلیف سے بچنے والے انجیکشن بن چکے ہیں لیکن سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ آپ تکلیف برداشت کریں ۔ اگر آپ یہ انجیکشن آخری وقت پر لگا بھی لیں تو 9 ماہ تک اس بچّے کو پیٹ میں رکھنا ہوگااور متلی کی اذیت توسہنا ہوگی۔

نوزائیدہ بچّہ ماں کو کتنا ستاتا ہے ، یہ سب جانتے ہیں ۔ اس بچے کو ماں کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ بار بار اسے صفائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپ دنیا جہان کی دولت خرچ کر لیں مگراس دنیا میں اپنی زندگی کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ کبھی نہیں بنا سکتے۔ وجہ؟ دنیا آزمائش کیلئے بنی ہے۔

بعض اعتبار سے امیر لوگ زیادہ مجبور ہوتے ہیں۔ امیر شخص یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ سب لوگ میری دولت کے حریص ہیں ،مخلص کون ہے؟ اسے تو اپنی اولاد میں سے بھی کوئی اپنے تخت کا حریص نظر آ رہا ہوتا ہے۔ محلات میں سازشوں پہ سازشیں جنم لیتی رہتی ہیں۔ بادشاہ ساری عمر سرکوبی کرتا رہتا ہے ۔

یہ سب چیزیں اپنی جگہ لیکن دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے ، جذباتی تواز ن۔ دماغ میں کیمیکلز کا balance، جو زندگی کو آرام دہ اور انسان کو شکر گزار بناتا ہے۔ ایک صوفی کو ساری دنیا کیوں حسرت بھری نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس لیے کہ اس کے دماغ میں کیمیکلز کا توازن ہمیشہ اسے پُرسکون رکھتا ہے۔ انسان ہمیشہ سے سکون کی تلاش میں بھٹک رہا ہے ۔پریشانی سوار کرلینے والا گاڑی میں معمولی خرابی کی وجہ سے ساری رات جاگتا رہتا ہے۔

اپنی اپنی نفسیات کی بات ہے۔ جب ایک شخص تھکا ہارا گھر پہنچتا ہے اور اس کی بیٹی اس کے جوتے اتار کر پائوں سہلاتی ہے تو اسے سکون محسوس ہوتا ہے۔ اس کے دماغ میں ایسے کیمیکلز خارج ہوتے ہیں، جو اسے سکون اور خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔ جب ایک غریب بیٹا اپنی ماں کا بوسہ لے کر گھر سے نکلتا ہے تو دونوں کے دماغ میں خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے کیمیکل خارج ہوتے ہیں جو خوشی کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں سے مناسب کیمیکلز کا مناسب مقدار میں اخراج وہ سب سے قیمتی چیز ہے، جسے دنیا کی ساری دولت خرچ کرکے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ قسمت والوں کو ہی ملتی ہے۔ امیر شخص کو بھی یہ نعمت حاصل ہو سکتی ہے اور کوئی غریب شخص بھی اس معاملے میں بدقسمت ہو سکتا ہے۔ یہ رشتے، دماغ میں کیمیکلز کا یہ بیلنس کسی بھی شخص کی امارت یا غربت سے منسلک نہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے، جہاں امیر اور غریب برابر ہو جاتے ہیں۔

سات برس قبل آصف علی زرداری کے دستِ راست ڈاکٹر عاصم حسین کو جب گرفتار کیا گیا تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے ذہنی معالج اور ادویات تک رسائی مانگی تھی؛ حالانکہ دولت کے انبار ان کے پاس تھے ۔یہ وہ زمانہ تھا، جب اسٹیبلشمنٹ کے مطابق زرداری اور شریف خاندان کرپٹ اور پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ آج وہ سب پوتر ہیں۔ ہر شخص، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، بڑھاپے کا شکار ہوتا ہے۔ اسے کوئی بھی چیز اچھی نہیں لگتی، جبکہ جوان شخص خواہ مخواہ چھلانگیں مارتا پھرتا ہے۔ بچّوں کو تو جون جولائی کی گرمی کچھ نہیں کہتی ۔ وہ باہر جا کر کھیلنے پر بضد ہوتے ہیں۔ اسی طرح شدید سردی میں بھی ان کا یہ جوش و جذبہ کم نہیں ہوتا ۔ ایسے میں بوڑھے شخص کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا کمرہ گرم ہو اور پاس چائے یا کافی کا ایک مگ پڑا ہو، جسے وہ رضائی اوڑھ کر پیتا رہے۔

بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو تکلیف سے گزرتا ہے اور اس کی ماں بھی۔انسان اس دنیا سے جاتا ہے تو بے پناہ تکلیف سہہ کر ۔ موت کوئی معمولی تکلیف نہیں۔ جس نے کسی جاندار کو مرتے دیکھا ہو، وہی اس کا اندازہ کر سکتا ہے۔ ذبح ہوتا ہوا بکرا فوراً ہی تکلیف سے نجات پا جاتا ہے ۔ بہت سے انسان کئی کئی سال بیماری اور بڑھاپے کی تکلیف سہتے ہیں۔

یہ خیال کتنا تکلیف دہ ہے کہ ہمیں اور ہمارے پیاروں کو ہر حال میں موت کی تکلیف سے گزر کے رہنا ہے ۔ موت تو ہمیں بھی آکے رہنی ہے اور کون جانے کتنی تکلیف کے ساتھ ۔سفاک موت غریب اور امیر کو ایک برابر کر دیتی ہے۔آدمی اس دنیا میں اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی خوشی رخصت ہوتا ہے !

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

تازہ ترین