• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم کے بغیر پروان چڑھتی نسل کے بارے میں کسی حکمراں فیصلہ ساز کو فکر نہیں کہ جب ہم ایسی نسل کے ہاتھوں میں پاکستان چھوڑ کر جائیں گے تو کیا حشر ہوگا؟ تیزی سے بڑھتی آبادی بھی اس وقت پاکستان کا سنگین ترین مسئلہ بن چکی ہے۔ ایک وقت تھا کہ حکومتیں خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیتی تھیں۔ محکمہ خاندانی منصوبہ بندی باقاعدہ گلی محلوں، دیہات، شہروں میں گھر گھر جا کر خواتین و مردوں کو آگاہی دیتا تھا۔ اب کوئی اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ ایک دن، مہینے اور سال میں کتنے ہزار اور لاکھ بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہماری معیشت اور ترقی کی شرح کہاں کھڑی ہے اور بڑھتی آبادی کی شرح دیکھتے ہیں تو کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ آبادی بڑھنے سے معاشی مشکلات مزید بڑھیں گی۔ دوران گفتگو نئی دہلی کے وزیراعلیٰ عام آدمی پارٹی کے سربراہ کجری وال کا نظام حکومت بھی زیر بحث آیا کہ اگر وہ چند سال میں عوام کو300یونٹ تک مفت بجلی، خواتین کو مفت ٹرانسپورٹ، اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولتیں اور سرکاری اسکولوں میں یکساں نظام تعلیم کو فروغ دے سکتے ہیں تو یہ نظام حکومت ہمارے ہاں کیوں رائج نہیں ہوسکتا؟ یہ سب شامی صاحب فرمارہے تھے ان کا مزید کہنا تھااس کی بنیاد ٹیکس کا مستحکم نظام ہے۔ اگر لوگ دیانت داری اور بلاخوف و خطر ٹیکس ادا کریں۔ اپنے سماجی رویوں میں تبدیلی لائیں، ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کو محترم جانیں ، احتجاج کے نام پر قومی املاک اور سرمائے کو آگ نہ لگائیں تو پھر آپ ایسی سہولتوں کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ ہر وقت سڑکوں پر نکل کر احتجاج کے نام پر اپنے انفراسٹرکچر کو تباہ و برباد کر دیں اور یہ توقع رکھیں کہ آپ کے ٹیکس کا پیسہ آپ کی زندگی میں

آسانیاں لائے گا کیونکہ توڑ پھوڑ سے ہونے والا نقصان آپ کے ٹیکس کی رقم سے ہی پورا کیا جائے گا۔ انہوں نے دنیا میں ایسے واقعات کی مثالیں دیں جہاں قومی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو کڑی سزائیں دی گئیں اور نقصان کی رقم جرمانے کی شکل میں وصول کی گئی۔ نتیجتاً دوبارہ کسی نے توڑ پھوڑ کی جرأت نہیں کی ۔ فوری انصاف کی فراہمی کےبارے میں بھی ایک شناسا بیرسٹر صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے ایک قریبی جاننے والے بیرسٹر صاحب بیرون ملک وکالت کرتے تھے۔ کسی مقدمے کے سلسلے میں عدالت میں پیش ہو رہے تھے کہ پیشی کے روز ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ انہوں نے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ آج ان کے والد کی تدفین ہے برائے مہربانی اگلی تاریخ دے دیں، جج صاحب نے اظہار افسوس کے پیغام کے ساتھ پوچھا کہ کتنے بجے تدفین ہے۔ تو انہیں آگاہ کیا گیا کہ صبح 10 بجے، جج صاحب نے خصوصی رعایت دیتے ہوئے لکھا کہ آپ ساڑھے گیارہ بجے عدالت میں پیش ہو جائیں، عدالتی نظام ایسے چلتے ہیں مقدمات کی پیروی میں تاخیری حربے یا تاریخ پر تاریخ کے بہانے تراشنے پر دس دس ہزار ڈالر تک جرمانہ یا اضافی فیس بحق سرکار وصول کی جاتی ہے۔ یہاں تو وکلا ءاور جج صاحبان تاریخ لینا اور دینا بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتے ہیں۔ شامی صاحب نے ڈالر کی بے لگام قیمت بارے بھارت میں اپنے ذاتی مشاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک بار نئی دہلی گیا، مشہور زمانہ چاندنی چوک میں کچھ خریداری کرنا تھی، شام کا وقت تھا،مصروفیات کے باعث میری جیب میں صرف ڈالر تھے۔ میں نے مختلف دکانداروں سے ڈالر کے عوض خریداری کرنا چاہی لیکن کسی بھی دکاندار نے ڈالر وصول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین