• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانپ کے زہر نے طویل عرصے سے سائنسدانوں کو متوجہ کر رکھا ہے اور ان کے زہر میں موجود اجزاء کے طاقتور امیزے نے تخیل کو متاثر کیا ہوا ہے ۔ یہ مادہ جو کہ ایک پیچیسہ مرکب ہے دراصل شکار کو پکڑنے ، دماغ اور زہریلے سانپوں کے لیے کسی ماحول کو اپنانے میں اہم کردار ادا کر تا ہے ۔ حالیہ برسوں میں پروٹیومکس اور جینو مکس (جینیاتی مطالعہ ) کے انضمام نے سانپ کے زہر کے بارے میں ہماری سمجھ میں انقلاب بر پا کر دیا ہے، جس سے ان کی ساخت ، ارتقاء اور ممکنہ بائیو میڈیکل کے شعبے میں اطلاق کے بار ے میں معلومات کا ایک خزانہ کھلا ہے۔ 

پروٹیو مکس لمحیات یا پروٹین کا بڑے پیمانے پر مطالعہ کرنے والا ایک مضمون ہے جو کہ سانپ کے زہر کی پیچیدہ ساخت کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک طاقتور ذریعے کے طور پر اُبھرا ہے ۔ اس مضمون میں جدید ماس سپیکٹروں میٹری تکنیک اور بائیو انفارمیٹکس جیسے کمپیوٹر پروگرام کو استعمال کرتے ہوئے زہر کے پروٹینوں کا جامع تجزیہ کیا گیا ہے اس سے حاصل ہونے والی معلومات زہریلے اثرات اور زہریلے اجزاء دونوں کے بارے میں اہمیت کو سامنے لے آتی ہے اور یہ پتہ چل جاتا ہے کہ زہر اعصاب ، خون کے گردشی نظام یا پٹھے اور خلیات میں سے کس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ 

مزیدبراں پروٹیو مکس سانپوں کی مختلف انواع کے درمیان زہر کے اجزاء کا موازنہ کرنے کے قابل بناتا ہے جو زہریلے سانپوں کے درمیان ارتقائی تعلقات اور موافقت کی حکمت عملیوں کے بارے میں بغیرت فراہم کر تا ہے، اسی طرح جینو مکس نے زہر کی پیداوار اور ارتقاء کی جینیاتی بنیاد کے بارے میں بصیرت فراہم کر کے سانپ کے زہر کے بارے میں ہماری سمجھ میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ بڑے پیمانے میں ڈی این اے کی ترتیب معلوم کرنے والی تکنیک اور ٹیکنالوجی نے سانپ کی جینیاتی بناوٹ خاص طور پر زہر کی تشکیل والی چیز کی تشریح کرنے میں سہولت فراہم کی ہے ۔اس طرح سے مختلف زہر کے پروٹینوں کی چین اور ان کی ارتقائی عمل کو شناخت کر نا ممکن ہوا ہے۔

محققین نے نسب سے متعلق مخصوص زہریلے پروٹین خاندانوں، جین کے نقل یا جین کے ایک سے دو ہو جانے کے واقعات اور زہر کے جینوں پر عمل کرنے والے مثبت انتخاب کو دریافت کیا ہے ۔ اس کے علاوہ زہر کے غدود میں زہر کی پیداوار اور اس کا قابو میں رہنا واضح ہوا ہے پھر خود زہر کی غدود کی نشو نما کس طرح ہوتی ہے اور زہر ان غدود کو نقصان کیوں نہیں دے سکتا حالانکہ زہر غدود میں بھرا رہتا ہے ان تمام تر سوالات کے جوابات پروٹیو مکس اور جینو مکس نے مل کر دیئے ہیں ۔ کسی بھی زندہ جسم یا خلیے کے بارے میں بنیادی عمل ڈی این اے سے شروع ہو کر پروٹین پر ختم ہو تا ہے۔ 

ڈی این اے یا جینیاتی مادہ کسی بھی جاندار کی مکمل تخلیق کی تمام تر معلومات اپنے اندر رکھتا ہے کوئی بھی حیاتیاتی نظام ڈی این اے سے آر این اے بنا کر یہ معلومات نکال لیتا ہے اور پھر وہ آر این اے پروٹین بنانے کے لیے استعمال ہو تا ہے۔ ڈی این اے ایک لمبے دھاگے کی شکل میں خلیے کے مرکز ے میں ہوتا ہے اور پورے ڈی این اے میں مخصوص چھوٹے ٹکڑے جن کو جین کہا جاتا ہے ، وہ ہی مخصوص آر این اے بنا سکتے ہیں جو کہ ایک مخصوص پروٹین کے بننے کا باعث بنتے ہیں۔ 

اگر ہمیں پورے ڈی این اے کی ترتیب مل جائے تو اس میں سے ہر جین کے بارے میں معلومات حاصل ہو جاتی ہیں اور پھر ہر طرح کی پروٹین جو کہ اُن جین سے بن سکتی ہیں ان کے بارے میں بھی پتہ چل جاتا ہے۔ پروٹیو مکس اور جینو مکس کا انضمام اسی لیے ایک بہترین تکنیک ہے جو کہ ایک مکمل معلومات فراہم کر سکتی ہے۔ عالمی ادارئہ صحت نے سانپ کے کاٹے کو نظر انداز ٹراپیکل بیماری کی فہرست میں 2017ءمیں شامل کر لیا تھا ۔ اس کے بعد سے محققین اور اداروں نے سانپ کے تریاق کو مزید بہتر اور سستا بنانے میں سرمایہ لگانا شروع کیا ،مگر سانپ کے تریاق کی نئی اور جدید پور تیار کرنے میں ایک اہم رکاوٹ سانپ کے زہر کے بارے میں ہماری سمجھ میں فرق ہے، کیوں کہ سانپ کے زہر کے بارے میں ہمارا زیادہ تر علم پروٹیو مکس مطالعات پر مبنی ہے۔ 

ایسے مطالعات سانپ کے زہر کے اجزاء کی درست شناخت کے لیے پروٹین کے ڈیٹا بیس پر انحصار کرتے ہیں جو کہ انٹر نیٹ پر موجود ہوتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر اپ گریڈ ہوتے ہیں ۔ ان ڈیٹا بیس میں سانپ کے جینو مکس یا جنیاتی حوالے سے ڈیا سیٹ بہت محدود ہیں کیونکہ سانپ کی جینو مکس مطالعات بہت کم کیئے گئے ہیں۔ اس وجہ سے پروٹین کی شناخت کے لیئے یہ ڈیٹا بیس وسیع یا مکمل نہیں ہے۔ یہ کمی اس ضرورت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ زہریلے سانپ جو کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں انسانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں ان کے جینو مک ڈیٹا کا مطالعہ کیا جائے اور پھر پروٹیومک ڈیٹا سے اس کا موازنہ کر کے ایک بہتر حکمت عملی کے تحت اس سانپ کے زہر کا تریاق بنایا جائے جو کہ کار آمد اور انتہائی سستا ہو۔ 

کسی بھی سانپ یا کوئی اور زہریلے جانور کے مکمل جینیاتی معلومات سے نہ صرف اس جانور کے جینوم کا پتہ چل جائے گا بلکہ اس کے زہر کی پروٹینوں کی معلومات سے موازنہ کر کے زہر بنانے والی تمام جیز کی تفصیلی فہرست مرتب ہو جائے گی۔ اس طرح زہر کی ٹاکسن کی تعداد اور ان کی پروٹین فیملی سامنے آجائے گی اور اس فہرست میں سے مہلک ترین ٹاکسن پروٹینوں کو ہدف بنا کر ان کے خلاف تریاق یا دوائی بنائی جا سکے گی یہ ایک انتہائی ممکنہ ترکیب ہے جو کہ آج کل کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں تحقیقی مطالعات کے لیئے استعمال کی جا رہی ہے۔ 

جینو مکس کے مضمون میں انقلاب بر پا کر نے والی ٹیکنالوجی نیکسٹ جنریشن سیکونیسنگ ہے ۔ اس تکنیک نے حیاتیاتی علوم کو نئی بلندیوں کی طرف دھکیل دیا ہے اس میشن کے ذریعے سے کسی بھی جاندار سے حاصل شدہ ڈی این اے کی مکمل ترتیب معلوم کی جا سکتی ہے۔ یہ تکنیک کم وقت میں مختلف ترکیب استعمال کرتے ہوئے ڈی این اے یا آر این اے یا دونوں مالیکیولز کو ایک ساتھ ایک ہی وقت میں ان مالیکیولز میں موجود نیو کلیوٹائڈ کی ترتیب کا تعین کر سکتی ہے ڈی این اے اور آر این اے دراصل نیو کلیو ٹائڈ کی مختلف ترتیب سے مل کر بنتے ہیں اور مختلف ترتیب ہی کسی بھی ڈی این اے کے لمبے دھاگے میں مختلف جین کو تشکیل دیتی ہے یہ ڈی این اے سے بنی جین آر این اے بناتی ہے اور آر این اے سے پروٹین بنتا ہے جو کہ کسی بھی جاندار میں تمام تر کام انجام دینے والا مالیکیول ہوتا ہے۔ 

چناچہ اگر تمام جین کی معلومات دراصل تمام ممکنہ بننے والی پروٹین کی معلومات ہوتی ہے البتہ یہ ضرورت ہو تا ہے کہ حیاتیاتی نظام میں ہر جین ہر وقت کوئی پروٹین نہیں بناتی بلکہ عمر ، ماحول ، مختلف بیماریوں اور دیگر اثرات کے باعث مختلف اوقات میں مختلف جین سے پروٹین بنتی رہتی ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب اس پروٹین کا کام ختم ہو جاتا ہے تو وہ پروٹین بھی جسمانی نظام ختم کر دیتا ہے۔ 

لہذا تمام جہیز کی معلومات سے ہمیں یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ کتنے پروٹین بن سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر کوبرا کے زہر کے غدود میں ساری جہیز میں سے صرف بارہ ہزار جہیز کام کر رہی ہیں جن میں ے ایک سو چالیس ایسی ہیں جو زہر کی ٹاکسن بنا سکتی ہیں ۔ جب ان ٹاکسن کی جین کو مزید پرکھا گیا تو یہ معلوم ہوا کہ صرف سولہ پروٹین کو برا کے زہر میں ایسی تھیں جو کہ ٹاکسن کے طور پر زہر میں موجود ہوتی ہیں۔ 

باقی ساری یا تو بنتی ہی نہیں یا پھر بننے کے بعد غدود کے خلیے سے خارج ہو کر زہر کا حقہ نہیں بنتی یا بننے کے بعد غدود کے خلیوں میں ختم کر دی جاتی ہیں۔ یہ مشاہدہ اس طرف نشاندہی کر تا ہے کہ ہر فعال جین جو پروٹین بنا سکتی ہے کسی بھی جاندار کی عمر کے مختلف حصوں میں ظاہر ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہو نا بند کر سکتی ہے اور دوسری جیز ظاہر ہو نا شروع کر سکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی جاندار اپنے ظاہری اور اندرونی تبدیلیوں سے گزرتا ہے اور اپنی عمر پوری کر تا ہے۔ 

پروٹین اور جین کے ان مضمونوں نے مل کر آج کے دور میں ہونے والے تحقیقی مطالعات کو انتہائی وسیع کر دیا ہے ۔ پہلے سے نہ معلوم جینیاتی ڈھانچے اور زہر کے جیز میں تعمیرات کے بارے میں حاصل ہو نے والی بصیرت ایک مفید جینو مک وسیلہ فراہم کرتی ہے جو کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود زہریلے جانوروں کے زہر کے بارے میں تقریبا ً مکمل معلومات فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس طرح کے مطالعات کسی بھی جانور کے زہر کے بارے میں حیاتیات ، ارتقاء ، نئی دوا کی ایجاد اور تریاق کی تحقیق میں سہولت فراہم کر سکتی ہے زہر اور خاص طور پر سانپ کے زہر پر پرومیٹومکس اور جینو مکس کے انضمام سے مکمل معلومات حاصل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زہر کی مہلک فطرت کے باوجود یہ قدرت کے خوبصورت ترین تضادات میں سے ایک ہے۔ 

ڈیزائن کے لحاظ سے زہر کا مقصد مارنا ہے اور یہ کام زہر خوفناک طور پر جلد اور مؤثر طریقے سے کر تا ہے پھر بھی وہی خصوصیات جو اس کو مہلک بناتی ہیں ان کا استعمال شفا فراہم کرنے میں بھی کیا جا سکتا ہے ۔ زہر کے کئی اجزاء اکثر انسانی جسم میں ان مالیکیولز یا سالموں کو نشانہ بناتے ہیں جن کو دوائیں بیماریوں کے علاج کے لیے نشانہ بناتی ہیں امریکہ میں ایف ڈی اے کی طرف سے استعمال کے لیے پہلے ہی سے ایسی چھ دوائیں موجود ہیں جو کہ زہر کے اجزاء سے ہی موخوذ کی گئی ہیں۔ دس مزید ایسی ہی زہر سے ماخوذ دوائیں کلینیکل آزمائش کے مختلف مراحل میں ہیں۔ 

دیکھا جائے تو ایک اندازے کے مطابق تقریبا ً تین لاکھ زہریلے جانور پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں اور ہر ایک نسل میں پچاس کے قریب منفرد قسم کے ٹاکسن ہو سکتے ہیں اس طرح تقریبا ً دو کروڑ کے قریب ایسے اجزاء دنیا میں پائے جاتے جانے والے تمام زہریلے جانوروں کے زہر میں موجود ہونگے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ انسان نے ابھی تک صرف سطحی طور پر ہی زہر کا مطالعہ کیا ہے اور بہت کچھ کر نا ابھی باقی ہے۔ سانپوں کے زہر کو اس لیے بھی ترجیح حاصل ہے کیونکہ روز مرہ کی زندگی میں ان سے واسطہ پڑتا رہتا ہے خاص طور پر زراعت کے شعبے سے وابستہ گائوں اور دیہی علاقے عام طور پر سے مختلف قسم کے سانپوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ 

ان کے علاوہ زہریلے کیڑے ، سمندر میں موجود جیلی فش، بچھو اور دیگر جل تھلیا جنور بھی انتہائی مہلک زیر رکھتے ہیں۔ پروٹیومکس اور جینو مکس کے انضمام نے تحقیق کا ایک نیا شعبہ پروٹیو جینو مکس تخلیق کیا ہے جو ان دونوں شعبے کے علیحدہ علیحدہ معلومات کو ملا کر کئی گناہ زیادہ معلومات فراہم کر سکتا ہے وہ معلومات جو کہ پہلے حیاتیاتی تحقیق میں محقیقین کی نظروں سے اوجھل تھیں اب کھل کر سامنے آرہی ہیں اور اسی لیے طب کے شعبے میں خاص طور پر لا علاج بیماریوں سے متعلق تحقیق ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے ایسا ممکن ہے کہ بہت سارے لا علاج مرض مستقبل قریب میں علاج کے قابل ہو جائیں اور علاج بھی سستا ہو البتہ اس بات کا دیھان رکھنا ہوگا کہ غلط منبت نتائج اور منبت نتائج کے درمیان فرق کو اچھے سے پرکھ لیا جائے تاکہ غلطی کی گنجائش باقی نہ رہے ۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید