• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلی کے نرخوں میں طوفانی اضافے کا سلسلہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ رواں برس ہونے والے معاہدے کے بعد شروع ہوا۔ مالیاتی ادارے کی جانب سے بجلی کے گردشی قرضوں کے حجم کو کم کرنے کے اقدامات کی شرط ان معاشی شرائط کا حصہ ہے جن پر عمل درآمد کی یقین دہانی پر مالیاتی ادارے سے معاملات طے پائے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ گردشی قرضے توانائی کے شعبے کیلئے بھیانک صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اس وقت اندازے کے مطابق ان قرضوں کاحجم ڈھائی ہزار ارب روپے سے تجاوزکر چکا ہے ۔ 30فیصد کے قریب پہنچی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے کم اور درمیانی آمدنی والے طبقے کیلئے روزمرہ کی ضروریات کا پورا کرنا ناممکن ہو چکا ہے بجلی کے بے تحاشا اضافی بوجھ نے اس طبقے کو چکراکر رکھ دیا ہے ۔ شہریوں کی جانب سے سخت رد عمل کا اظہار سامنے آیا ہے جو سوشل میڈیا پر حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو بددعائیں دیتے نظر آئے ۔ عوام بجا طور پر اس امر کا شکوہ کر رہے تھے کہ وہ پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیںان کیلئے بچوں کی فیس ادا کرنا اور دووقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو چکا ہے گھروں کے کرائے ادا کرنے کی بھی ان میں سکت نہیں رہی اور ادویات کی قیمتیں بھی انکی پہنچ سےباہر نکل چکی ہیں ۔ اب حکومت بجلی کے نرخوں میںمزید اضافہ کرکے انہیں قبرستان کی جانب ہی دھکیل رہی ہے۔ نیپرا نے اب سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے نرخ ساڑھے چار روپے فی یونٹ تک مزید بڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔ اب خبر ہے کہ جلد بجلی کی فی یونٹ قیمت 90روپے ہو جائے گی۔

بھارت میں ایک یونٹ بجلی کی قیمت 17روپے اور بنگلادیش میں 13روپے، افغانستان میں 8روپے اور ایران میں 10روپے ہے یہ تخمینہ پاکستانی کرنسی کے حساب سے ہے ۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستانی حکومت ہر سال اشرافیہ کو ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات و سہولیات مہیا کرتی ہے ۔ یہ نہایت حیرت انگیز اور افسوس ناک بات ہے کہ جو ملک ایک ایک دو دو ارب ڈالر کیلئے کشکول لے کر دنیا بھر کے ملکوں اور اداروں کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے وہاں ایک طبقے کو ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات و سہولیات دی جاتی ہیں۔ بجلی کے ٹیرف کا تعین نیپرا کرتا ہے ، نیپرا نے قیمت کے تعین کیلئے تین معیارات مقرر کر رکھے ہیں۔ ایندھن کی قیمت ،زرمبادلہ کی شرح اور قرضوں پر شرح سود اور ان تینوں چیزوں میں اضافہ ٹیرف بڑھنے کا لازمی سبب بنتا ہے ۔ اگر کھپت زیادہ ہو تو کیپسٹی چارجز میں کمی سے ٹیرف کم ہوتا ہے ۔ ملک اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ آج خانہ جنگی کے سے حالات پیدا ہو گئے ہیں ۔ اس صورتحال کی یکے بعد دیگرے حکومتیں بنانے والی سیاسی جماعتیں پوری طرح ذمہ دار ہیں ۔ یہ جماعتیں حکومت حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے سرکاری افسران اور اشرافیہ کو ایسی ایسی مراعات اور سہولیات دی جاتی ہیںجن کا دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی تصور نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک یہ مراعات و سہولیات کلی طور پر ختم نہیں کی جاتیں تب تک ملک کو مستحکم نہیں بنایا جاسکتا ۔ بجلی کے بلوں میں غیرمعمولی اضافے کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں ۔مختلف شہروں میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے عملے پر تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ2022ء میں واپڈا سے وابستہ سرکاری اداروں کے 189000ملازمین نے 8ارب 19کروڑ روپے مالیت کی بجلی مفت استعمال کی ۔ پی ڈی ایم حکومت کے گزشتہ 15ماہ میں 500ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی ۔ صرف شعبہ توانائی کے ریگولیٹر ادارے نیپرا کے مطابق سرکاری ملازمین نے ایک برس میں 34کروڑ 46لاکھ یونٹس بجلی استعمال کی۔

فرینک شمیڈٹ ایک جرمن الیکٹریکل انجینئر تھا جو جنرل مشرف کے دور میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا چیئرمین بنایا گیا ۔بجلی چوری روکنے کیلئے اسکو ٹاسک دیا گیا کہ دیکھا جائے کہ کون کون بجلی چوری میں ملوث ہے ۔ چھ مہینے تک کراچی اور اسکے مضافات کا سروے کر کے ایک رپورٹ وفاقی حکومت کے پاس بھجوائی گئی کہ پچاس فیصد حکومتی ادارے خود بجلی چوری میں ملوث ہیں ، چالیس فیصد صنعت کار یعنی انڈسٹرلسٹ چوری کر رہے ہیں اور دس فیصد کچی آبادیا ں اور غریب طبقہ بجلی چوری میں ملوث ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ پکڑ دھکڑ کی ابتدا غریب اور کچی آبادیوں سے شروع کی جائے ۔ پھر وہ اس ملک کو خیر باد کہہ کر جرمنی چلاگیا اور جاتے جاتے کہہ گیا کہ اس ملک میں ظلم حکومتی ادارے اور صنعت کار کرتے ہیں اور رگڑا غریب کو دیا جاتا ہے ۔ مفت بجلی بند ہونی چاہیے ۔ چاہے صدر ، وزیر اعظم ، وزیروں ، ججز ، جرنیل ، افسر شاہی ، واپڈا یا دوسرے بجلی کے محکمے کے ملازمین اور پارلیمنٹرین وغیرہ ہوں ۔ایک یونٹ بھی فری نہ دیا جائے ۔ آئی پی پیز سے معاہدے ختم ہو نے چاہئیں کہ یہ سب فراڈ پر قائم ہیں۔ ان کے مالکان کے اوپرایف آئی آر درج کر کےانہیں گرفتار کرنا چاہیے ۔ ملک میں فرنس آئل اور امپورئڈ کوئلہ سے بجلی بنانے پر پابند ی لگائی جائے۔ بجلی کی چوری عام طور پر محکمہ کی سہولت کاری سے ہوتی ہے ۔ اس پر سخت ترین سزائیں دی جائیں ۔ ہرسال تقریبا ~500ارب روپے کی چوری ہوتی ہے ۔ عوام کو بلا سود آسان شرائط پر سولر پینل اور تکنیکی مدد فراہم کی جائے ۔بجلی 500یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو حکومت سبسڈی دے ۔ یہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ ملک اور عوام کے مسائل کی بڑی وجہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات اور سہولیات ہیں جو قومی خزانے پر بھاری بوجھ ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ فی الفور ان مراعات و سہولیات میں مناسب کمی کرے اور اس کمی سے جو رقم حاصل ہو اسے عوام کو ریلیف دینے پر خرچ کیا جائے ۔ اگرحکومت نے اس موقع پر بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ وقت دور نہیں جب ملک میں حالات بہت زیادہ بگڑ جائیں گے اور عوام کا غم و غصہ اس نہج پر پہنچ جائے گا جہاں کوئی بھی اسے قابو نہیں کرسکے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین