• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

82سال قبل کی بات ہےمفکر اسلام سید ابوالا علیٰ مودودی ؒ نےشاعر مشرق علامہ محمداقبالؒ کی دعوت پر نقل مکانی کر کے پنجاب کے دل لاہور میں ڈیرہ لگا لیا اور عمر بھر اسی شہرمیں رہے ۔26اگست1941ء کو اسلامیہ پارک میں 75چیدہ چیدہ شخصیات نے مل کر اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی ،اس کا نام جماعت اسلامی رکھا گیا۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ ؒ کو پہلا امیر منتخب کر لیا گیا وہ 31سال تک جماعت اسلامی کے بلا شرکت غیرے امیر رہے جن شخصیات کوسید مودودی ؒ کی قربت حاصل رہی ان کا جماعت اسلامی او ر معاشرے کے اندر مقام رہا ابتدا میں جماعت اسلامی کے ارکان کی تعدا د انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی لیکن سید مودودی ؒ کی شخصیت کا بڑا دبدبہ تھا وہ اپوزیشن کی تحاریک کے روح رواں رہے۔ ایوب خان کی آمریت ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کی فسطائیت یہ سید مودودیؒ ہی کی شخصیت تھی جس نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی،ختم نبوت کی تحریک میں جن دو شخصیات کو سزائے موت سنانے کا حکم سنایا گیا ان میں ایک سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور دوسرے مولانا عبدالستار نیازی ؒ تھے جماعت اسلامی نے 1946ء کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹ کے مقابلے میںآل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کی ۔قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے سید مودویؒ کو ریڈیو پاکستان پر ’’پاکستان میں اسلامی نظام ‘‘ سے آگاہی پر لیکچر دینے کی ذمہ داری سونپی آج جماعت اسلامی ،پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے جس کے ارکان کی تعداد 46ہزار سے تجاوز کر گئی ہے،جماعت اسلامی کی اسٹریٹ پاور سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ،ملین مارچ ہو یا لانگ مارچ جماعت اسلامی نے اپنی سیاسی قوت کو منوایا ہے ملک میں سیلاب کی تباہ کاری ہو یا زلزلہ میں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ جائیں ہر جگہ جماعت اسلامی کے کارکن الخدمت کی شکل میں نظر آتے ہیں عام آدمی ہو یا کوئی صاحب ثروت اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو وہ الخدمت کو ہی عطیات دیتا ہےلیکن انتخابات میںجماعت اسلامی کو تعلیم یافتہ بستیوں یا مذہبی علاقوں کے سوا دیگر مقامات سے حوصلہ افزا ووٹ نہیں ملتےممکن ہے جماعت اسلامی کے اعلیٰ فورم پر اس پہلو پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ہوشایدیہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اتحادوں کی سیاست کو خیر باد کہہ دیا ہے جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کا موقف ہے کہ جماعت اسلامی کو انتخابی اتحادوں کی سیاست نے سب سے زیادہ نقصان پہنچا یاہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے جب تک جماعت اسلامی آئی جے آئی کے پلیٹ فارم پر مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت رہی دونوں نے اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھایا،اسی طرح جب وہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر جمعیت علما اسلام کی اتحادی جماعت رہی مذہبی ووٹ منقسم نہ ہو ا اس اتحاد کا زیادہ فائدہ جمعیت علما اسلام نے ا ٹھایاتوجماعت اسلامی اسی وجہ سے متحدہ مجلس عمل سے الگ ہو گئی اور سولو فلائٹ کا فیصلہ کیا۔اب جماعت اسلامی ملکی سیاست میں تیسری قوت بن کر ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے ،جماعت اسلامی مسلم لیگ (ن) کی فطری طور پر اتحادی جماعت ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے اندر ’’روشن خیال‘‘ عناصر دائیں بازو کی جماعت کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار نہیں اور وہ اپنے آپ پر روشن خیالی کی ’’تہمت ‘‘ لگانے پر فخر کرتے ہیں دوسرے یہ کہ وہ جماعت اسلامی کے بڑھتے ’’مطالبات‘‘ کے سامنے سر تسلیم کرنے پرتیار نہ تھے ۔ مسلم لیگ (ن) کے روشن خیال عناصر نے طے شدہ ایجنڈے کے تحت دونوں جماعتوں کے درمیان فاصلے بڑھا دئیے جماعت اسلامی اورمسلم لیگ (ن) آئی جے آئی میں اکھٹے ر ہے ہیں جب کہ جمعیت علما اسلام بوجوہ الگ تھی۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام متحدہ مجلس عمل کا حصہ تھیں تو دونوںمسلم لیگ (ن) سے دور تھیںجماعت اسلامی کا نظم و نسق مثالی رہا ہے ماچھی گیٹ میں نکتہ نظر کا اختلاف ، جماعت اسلامی کو تقسیم نہ کر سکاسید مودودیؒ جماعت اسلامی کو سیاسی تحریک طور پر آگے لے کر چلنا چاہتے تھے لیکن کچھ شخصیات اسے محض دعوتی تحریک تک محدود رکھنا چاہتی تھیں ڈاکٹر اسرار احمد ، ارشاد حقانی ، مصطفی صادق اور امین احسن اصلاحی جماعت اسلامی سے الگ تو ہو گئے لیکن جماعت اسلامی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اسی طرح قاضی حسین احمد کی امارت میں جماعت اسلامی کے اندر’’بغاوت‘‘ ہوئی لیکن یہ سب کچھ صرف قاضی حسین احمد کے طرز سیاست کے خلاف رد عمل تھا۔حکیم محمود احمد سروسہارنپوری نے اپنی سرگرمیاں اصلاح معاشرہ تک محدود رکھیں اور یہ تحریک ان کی زندگی تک ہی قائم رہی جماعت اسلامی میں انتخابات کیلئے امیدوار بننا ’’جرم ‘‘ تصور کیا جاتا تھا لیکن شاید اب یہ کلچر تبدیل ہو گیا ہے اب جماعت اسلامی کا ٹکٹ ہولڈر بننے کے لئے لابی کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا اسلام آباد میں ہمارے ایک دوست نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ کے لئے ’’امارت‘‘ تک قربان کر دی اور ایک ایسی جماعت جائن کر لی جو ان کی سیاسی سوچ سے دور دور تک مطابقت نہیں رکھتی تھی سید ابولا علیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، اور سراج الحق علی الترتیب ووٹ کی پرچی سے امیر جماعت اسلامی منتخب ہوئے۔ اتحادوں کی سیاست میں ہمیشہ جماعت اسلامی نے سیکریٹری جنرل کے عہدے کو ترجیح دی۔ جماعت اسلامی کا انتظامی ڈھانچہ اس قدر مضبوط ہے کہ اس میں شگاف ڈالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی جماعت اسلامی میڈیا کے محاذ پر ایک متحرک جماعت سمجھی جاتی ہے امیر الاعظیم کے بعد قیصر شریف میڈیا کے محاذ پر سرگرم عمل ہیں صفدر چوہدری مرحوم کی کمی پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جس تیزی سے سوشل میڈیا کا رول بڑھا ہے مالی وسائل رکاوٹ بن رہے ہیں۔ 2013کے انتخابات میں جماعت اسلامی ساڑھے دس لاکھ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن پچھلے 10سال میں جماعت اسلامی کے ووٹ بینک میں خطرناک حد تک کمی آئی ہے جماعت اسلامی کی اسٹریٹ پاور میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ امیر جماعت اسلامی کی اپیل پر چند گھنٹوں میں کلمہ طیبہ کے پرچم اٹھائے کارکن سڑکوں پر نکل آتے ہیں جماعت اسلامی کا یہ طرہ امتیاز ہے۔ سید مودودیؒ سے لے کر سراج الحق تک جتنے امراء منتخب ہوئے لوگ ان کی دیانت داری اور پاک دامنی کی قسمیں اٹھاتے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین