آج 6 ستمبر ہےوطن عزیز کا 58واں یومِ دفاع قوم ہر سال ملی جوش و جذبے اور ملک کی بقاءو سلامتی کی خصوصی دعاؤں کے ساتھ یومِ دفاع مناتی ہے۔ گزشتہ سال افواج پاکستان نے سیلاب زدگان کی معاونت و بحالی کیلئے خدمات سرانجام دینے کے باعث یومِ دفاع کی تقریب منسوخ کر دی تھی۔آج دن کا آغاز مساجد میں نماز فجر کے بعد شہدائے جنگ ستمبر کیلئے قرآن خوانی اور ملک و قوم کی سلامتی و استحکام کی خصوصی دعاؤں سے ہوگا جبکہ دفاع وطن کیلئے جانیں نچھاور کرنیوالے پاک فوج کے جوانوں اور افسران کی قبور اور یادگاروں پر پھول چڑھانے کی تقاریب کا انعقاد ہوگا اور شہداءکیلئے فاتحہ خوانی کی جائیگی۔ دفاع وطن کی ذمہ داریوںکیلئے افواج پاکستان میں یکسوئی کی ضرورت ہے‘ آج ایک ماحول موجود ہے جس کی وجہ سے شر پسند عناصر قومی دفاع کو چیلنج کر رہے ہیں لیکن مسلح افواج اور اس کی قیادت عوام کے دلوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والوں کی بیخ کنی کر نے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن انہیں علم نہیں کہ جس دھرتی پر ہمارے عظیم شہداءکیپٹن سرور شہید‘ میجرعزیز بھٹی‘ میجر طفیل‘ کرنل شیر خان‘ میجر شبیر شریف‘ میجر محمد اکرم‘ لانس نائیک محمد محفوظ‘ سوار محمد حسین‘ لاک جان‘ راشد منہاس‘ اور ان جیسے دیگر بہادر‘ نڈر‘ دلیر جوانوں کا پاکیزہ اور گرم لہو گرا ہو وہ دھرتی تاقیامت دشمن کے لیے خوف کی علامت بنی رہے گی‘ پاک فوج نے ہر دور میں ملک کی سلامتی کیلئے اپنے سینوں کو گولیوں کے حوالے کیا ہے۔
ستمبر1965ءکی جنگ میں بری فوج نے چونڈہ، برکی سمیت ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کیے، اس جنگ میں نندی پور میں جنرل ضیاءالحق شہید(اس وقت آرمڈ ڈویژن کے جے ایس او تعینات تھے) چونڈہ کے محاذ پرکمپنی کمانڈر کیپٹن عبدالوحید کاکڑ تعینات تھے، جہاںانڈین فوج سے بھرپور معرکہ ہوا، دشمن نے دو تین سو ٹینکوں کے ساتھ حملہ کیا جبکہ پاکستان کی سرحد کے دفاع کیلئے محض دوسو فوجی تھے جو مختلف جگہوں پر تھے ہمارے جوانوں نے بھارتی فوج کا بھرکس نکال کر رکھ دیا بہت سے فوجی ہم نے قیدی بھی بنا لیے ۔دنیا میں جنگوں کی تاریخ میں کسی اور جگہ ٹینکوں کی اتنی بڑی جنگ نہیں ہوئی جتنی بڑی جنگ چونڈہ کے محاذ پر ہوئی تھی ہماری پلٹن آرمڈکور کی یونٹ 25کیولری نے 8ستمبر کو ہندوستان کے ٹینکوں کے ساتھ اورآرمڈکورکی یونٹ گریژن کیولری نے بہت اچھے کارنامے انجام دیئے تھے‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلح افواج میں آرمی چیف سے سپاہی تک ہر افسر و اہلکار حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے ،اس سال یوم دفاع کی اہمیت اس لئے زیادہ ہو گئی ہے کہ آج خطہ میں بھارت سازشوں کے نئے جال بچھا رہا ہے‘ وہ مقبوضہ کشمیر اور اپنے تعلیمی داروں میںا نسانی حقوق کی بد ترین پامالی کر رہا ہے ۔ ہمارے اس مکار دشمن نے اب پاکستان پر 65ءاور 71ءجیسی جارحیت مسلط کی تو اسے وہی جواب دیا جائے گا جو راجیو گاندھی کو جنرل محمد ضیاءالحق شہید نے دیا تھا۔ ہمارے سپہ سالار جنرل عاصم منیر بھارتی عزائم سے واقف ہیں وہ کنٹرول لائن سمیت اگلے مورچوں پر جا کر جوانوں کا حوصلہ بڑھاتےہیں۔جنگ ستمبر ہو یا کوئی اور آزمائش کی گھڑی قوم اور پاک افواج نے نامساعد حالات، محدود جنگی سازوسامان کے باوجود ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ دشمن پر سکتہ طاری ہو گیا۔ دنیا کے عسکری ماہرین بھی حیران اورپریشان ہیں کہ پاک افواج نے ایسے علاقوں میں جہاں عالمی طاقتیں ناکام ہوتی رہیں وہاں فتوحات کیسے حاصل کیں۔6ستمبر’ یوم دفاعِ‘ پاکستان تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔اس روز بھارت نے رات کی تاریکی میںکئی انفنٹری ڈویژن،ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے 3 اطراف سے لاہور پر حملہ کیا لیکن ستلج رینجرز کے نوجوانوں نے بی آر بی نہر کا پل تباہ کرکے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دئیے ۔ بھارت کے لیفٹیننٹ ہربخش سنگھ نے بھی اپنی کتا ب میں میجر عزیز بھٹی کی جرات و بہادری کا ذکرکرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستانی افواج نے بہادری سے لڑتے ہوئے زمین کے ایک ایک انچ کا خوب دفاع کیا۔ لاہور میں صرف 150 جوانوں کی ایک کمپنی نے 12 گھنٹے تک ہندوستان کے ہزاروںفوجیوں کو روک کرپاک فوج کو دفاع مضبوط کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ میجر عزیز بھٹی شہید جو برکی میں کمپنی کمانڈر تعینات تھے مسلسل 5 دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیواربن کر ڈٹے رہے۔آپ کی یونٹ 17 پنجاب103 بریگیڈ کا حصہ تھی جو 10ڈویژن کا دفاعی بریگیڈ تھااس کمپنی کی2پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھیں۔بھارتی فوج ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہی تھی مگر راجہ عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دباؤ کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔بھارتی دعوؤں کی قلعی کھولنے کے لئے لاہور کے محاذ پر ہونے والے حملے کو بھی ہی ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔قصور، بیدیاں، برکی، بھیسن اور مقبول پورہ سائفن پر انڈین آرمی کی 11ویں کور نے جو حملہ کیا اس کا مرکز واہگہ، باٹا پور اور کچھ دور شمال میں بھینی کے مقام پر تھا۔ بھارتی افواج کی یہ کوشش تھی کہ پاکستانی دستے لاہور کے بڑے دروازے یعنی باٹا پور اور بھینی پر اپنی دفاعی قوت کو مرکو ز نہ کر سکیں۔ بھارت نے پاک فوج کی توجہ لاہور محاذ سے ہٹانے کیلئے600 ٹینکوں اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارواہ،باجرہ گڑھی اورنخنال کے مقام پر چڑھائی کی، عددی برتری کے لحاظ سے دشمن کے پاس بہت اسلحہ تھا لیکن پاکستان کے عظیم سپاہیوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوںکو تباہ کردیا۔ ہندوستان کا سب سے بڑا اور خطرناک حملہ سیالکوٹ کے محاذ پر ہوا جس کا مقصد لاہور، گوجرانوالہ شاہراہ کو کاٹنا تھا۔ چونڈہ کا مقام اب بھی”ٹینکوں کے قبرستان“ کے نام سے مشہور ہے۔ وطن کے ان بہادر سپوتوں کے کارناموں کی لازوال داستانیں رہتی دنیا تک بہادری کی جاویداں مثالوں کے طور پر یاد رکھی جائیں گی۔ اقوام عالم کی نسبت وطن عزیز کادفاع ابتدائی ایام سے ہی سازشوں اور مشکلات در مشکلات سے دوچاررہا ہے۔تاہم مسلح افواج نے ہمیشہ دلیری اور ہمت کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں جن کا بین الاقوامی سطح پر عسکری تاریخ میںہمیشہ حوالہ د یا جا تا ہے۔