رواں برس23ستمبر کووالد صاحب کو ہم سے بچھڑے پورے 19برس ہو جائیں گے۔ یہ مہ و سال ہم پر کیسے بیتے، ہم ہی جانتے ہیں۔ اُن کے انتقال کے بعد اوّلین برسوں میں تو ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے ہم پر ذمّے داریوں کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اوراس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کی زندگی میں ہم پر کوئی ذمّے داری ہی نہیں تھی۔ اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے والدین نےمجھے بڑے لاڈپیار سے پالا تھا اور اپنی استطاعت کے مطابق دُنیا کی ہر آسایش ، سہولت مہیّا کی تھی۔ والد صاحب کی ادبی اور پیشہ ورانہ زندگی سے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، لیکن اُن کی نجی زندگی سے بہت کم لوگ واقف ہیں ،تو اس مضمون میں بحیثیتِ فرزند، اُن کی ذاتی زندگی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
والد صاحب نے پیشہ ورانہ زندگی ہی کی طرح اپنی نجی زندگی بھی بھرپور اور منظّم انداز سے گزاری۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کی غیر موجودگی میں بھرا پُرا گھر بھی سُونا لگتا ہے۔ وہ نہایت نفیس، و ضع دار، مہذّب، منکسر و مستقل مزاج اور باوقار شخصیت کے حامل تھے۔ والد صاحب کی نفاست سے متعلق ڈاکٹر اسلم فرّخی کہتے تھے کہ ’’تابش صاحب کی سیرت و کردار سے اُن کی نفاست کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ وہ زبان، شاعری اور رہن سہن سے لے کر زندگی کے ہر معاملے ہی میں نفیس نظر آتے ہیں۔‘‘والد صاحب کی نفاست اُن کے لباس سے بھی جھلکتی تھی۔ گرچہ وہ کئی روز بعد کپڑے بدلتے تھے، مگر اس کے باوجود وہ اُن کی پیشانی کی طرح بے شِکن ہوتے تھے اور نہ ہی اُن سے کسی قسم کی بُو آتی تھی۔
والد صاحب گرمیوں میں ململ یا لان کا شریکِ حیات کے ہاتھ کا سِلا اور کڑھا ہوا کُرتا یا علی گڑھ کٹ پاجاما، بُش شرٹ اور پتلون، جب کہ جاڑے میں شیروانی یا درزی کے ہاتھ کا عُمدہ انداز سے سِلا ہوا کوٹ اور پتلون پہنا کرتے تھے۔ ادریس صدّیقی بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی نے اُن کی شیروانی دیکھ کر کہا کہ ’’تابش صاحب! آپ کی شیروانی کا رنگ بڑا دِل کش ہے۔ کپڑا کہاں سے خریدا ہے؟ تو جواب ملا کہ معاف کیجیے گا حضرت، یہ نئی نہیں… سترہ برس ہوگئے ہیں اسے۔‘‘ اسی طرح والدہ، محمودہ بیگم مہینے بعد اُن کے بستر کی چادر بدلنے کی کوشش کرتیں، تو کہتے، ’’بیگم صاحبہ! چادر صاف تو ہے۔ کیا ضرورت ہے اسے بدلنے کی؟‘‘ والدہ اکثر دھوبی سے مذاقاً کہا کرتی تھیں کہ ’’تابش صاحب کی چیزوں کے تو آدھے پیسے لگایا کرو، اُن پر تمہارا آدھا ڈیٹرجنٹ خرچ ہوتا ہے۔‘‘
ہر چند کہ والد صاحب کثرتِ مشاغل کے سبب عزیز و اقارب اور دوست احباب کے ہاں شاذ و نادر ہی جاتے تھے، لیکن اُن سے رابطہ مستقل برقرار رکھتے اور عیدین کے موقعے پر نماز سے فارغ ہو کر سبھی کو فون پر مبارک باد دیتے۔ باقاعدگی سے تمام اہلِ خانہ، مساکین اور ناداروں میں عیدی تقسیم کرتے، اسی طرح جب بیرونِ مُلک یا بیرونِ شہر منعقدہ نجی و ادبی تقاریب سے واپس لوٹتے، تو گھر والوں کے لیے تحائف اور سوغاتیں ضرور لے کر آتے اور اگر کبھی خُود سے کم عُمر رشتے دار کے ہاں جانا مقصود ہوتا، تو خالی ہاتھ ہرگز نہ جاتے۔
نیز، بیرونِ ملک سے اگر کوئی ادبی شخصیت پاکستان آتی، تو اُسے اپنے گھر کھانے کی دعوت ضرور دیتے۔ ہمیں اچّھی طرح یاد ہے کہ جب بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب اُن کی شخصیت پر پی ایچ ڈی کے سلسلے میں پاکستان آئے، تو والد صاحب نے اُن کی خُوب خاطر مدارت کی اور واپسی پراُنہیں تحائف بھی دیے۔ انہیں اپنے تہذیبی وَرثے پر بڑا ناز تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر سیّد وقار احمد رضوی کے مطابق، ’’جناب تابش ایک بڑے شاعر ہی نہیں، بلکہ مشرقی تہذیب کا ایک جیتا جاگتا نمونہ بھی ہیں۔ تہذیب و شائستگی تو جیسے اُن کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔‘‘
والد صاحب کے انتہائی مہذّب ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کو ’’جناب‘‘ یا ’’صاحب‘‘ کہے بغیر مخاطب نہیں کیا۔ حتیٰ کہ اپنے بچّوں کو پکارتے ہوئے بھی اُن کے نام کے ساتھ ’’میاں‘‘ یا ’’بیٹی‘‘ ضرور لگاتے اور شریکِ حیات کو ہمیشہ’’ بیگم ‘‘کہہ کر مخاطب کرتے۔ ایک مرتبہ ہم پی آئی اے کی گاڑی پر گھر پہنچے، تو ڈرائیور نے پانی مانگا۔ ہم نے ملازم سے کہا کہ ’’ڈرائیور کو پانی پلادو۔‘‘ یہ سُنتے ہی والد صاحب اپنی لائبریری سے نکلے اور کہا کہ ’’بیٹا! ڈرائیور نہیں، ڈرائیور صاحب کہتے ہیں۔‘‘
والد صاحب کبھی بھی کُرتے پاجامے اور سلیم شاہی جُوتے کے بغیر گھر سے نہیں نکلتے تھے اور نہ ہی کبھی گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر کسی سے بات چیت کی۔ وہ سڑک پر کھڑے ہو کر یا نچلے و درمیانے درجے کے ریستورانوں میں کھانا کھانے کے سخت مخالف تھے ، عموماً بازاری اشیاء کھانے سے منع کرتے تھے۔ البتہ کہا کرتے تھے کہ ’’اگر باہر کی کوئی چیز پسند ہے، تو وہ گھر لاکر کھائو۔‘‘
گرچہ لفظ، ’’سلیقہ‘‘ خواتین کے لیے مخصوص ہے، لیکن والد صاحب خواتین سے بھی زیادہ سگھڑ اور سلیقہ مند تھے۔ اُن سے کسی بھی وقت ضرورت کی کوئی چیز طلب کی جاتی، تو فوراً مل جاتی۔ آرٹ پیپر اور نیوز پرنٹ سے لے کر کیلیں، اسکریو، ہتھوڑی، ڈرل مشین اور حتیٰ کہ ٹیکنشنز کے زیرِ استعمال رہنے والے آلات بھی اُن کے پاس موجود ہوتے۔ اسی طرح اگر کسی چیز کی مرمّت کے لیے سیمنٹ یا بجری کی ضرورت ہوتی، تو وہ بھی والد صاحب سے مل جاتی۔ ہمارے پُرانے الیکٹریشنز اور پلمبرز جب بھی کسی مرمّتی کام کی غرض سے گھر آتے، تو ہمیشہ خالی ہاتھ ہوتے۔
والد صاحب اُن سے اوزاروں کا پوچھتے، تو جواب دیتے کہ ’’ہمیں اپنے ساتھ اوزار لانے کی ضرورت ہی نہیں، کیوں کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے پاس ہر قسم کے ٹُولز سمیت سوئچ، ڈِمر، تار، ٹونٹیاں اور پائپ تک مل جائے گا۔ والد صاحب کے پاس ایک نہایت قدیم برطانوی ساختہ تھرما میٹر تھا، جو آج بھی محفوظ ہے۔ یہ تھرما میٹر ہمیشہ دُرست ریڈنگ بتاتا تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے میرے دریافت کرنے پر بتایا کہ یہ تھرما میٹر وہ پچھلے 55برس سے استعمال کر رہے ہیں۔
پھر انہوں نے مُجھے یہ نصیحت کی کہ ’’ بیٹا! ہمیشہ اعلیٰ اور عُمدہ چیز خریدو اور پھر اُسے سنبھال کر رکھو، تو اُس کی میعاد بڑھ جاتی ہے۔‘‘ ایک دفعہ میری شریکِ حیات نے انہیں شیو کرتے دیکھ کر پوچھا کہ ’’ابّا! یہ آئینہ اور پانی کی کٹوری کتنی پُرانی ہے۔‘‘ تو کہنے لگے کہ ’’ یہ دونوں چیزیں کوئی 52برس سے میرے پاس ہیں۔‘‘ والد صاحب کے پاس شیو کے لیے ایک وکٹورین طرز کا آئینہ، بُرش اور پانی کی کٹوری تھی۔ البتہ ریزر جدید سے جدید تر استعمال کیا کرتے تھے۔
والد صاحب کی بھرپور، کام یاب زندگی میں نظم و ضبط کا کلیدی کردار تھا۔ قلم، کاغذ، کُتب، جوتے، ٹوپی، مسواک، منجن الغرض روز مرّہ استعمال کی ہر شئے صفائی اور قرینے سے اپنی جگہ موجود ہوتی۔ یعنی اگر کوئی تاریکی میں اُن سے سوئی بھی طلب کرتا، تو وہ اُنہیں بہ آسانی مل جاتی تھی۔ اُن کے کمرے میں اشیاء کی ترتیب کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی اُن کی غیر موجودگی میں کمرے میں جاتا، تو وہ گھر آکر پوچھتے کہ ’’کیا میرے کمرے میں کوئی داخل ہوا تھا؟‘‘ وقت کے بھی بے حد پابند تھے۔ مثلاً اگر اُنہیں کسی فرد نے کہیں لے جانے کے لیے گھر آنا ہوتا، تو وہ مقرّرہ وقت سے خاصا پہلے ہی تیار ہو کر بیٹھ جاتے ۔ اسی طرح اگر اہلِ خانہ کے ساتھ کسی تقریب میں جانا ہوتا، تو مقرّرہ وقت پہ پہنچنے پر مُصر ہوتے۔
جب ہم اُن سے کہتے کہ، ’’آج کل کسی تقریب میں کون وقت پر پہنچتا ہے؟‘‘، تو جواب دیتے کہ ’’اگر ہر فرد کی یہی سوچ ہو، تو پھر چیزیں کیسے دُرست ہوں گی۔‘‘ اکثر کہتے تھے کہ ’’میرا تعلق ریڈیو، بالخصوص نیوز کے شعبے سے ہے اور میرے لیے وقت بہت اہمیت رکھتا ہے۔‘‘ وہ اپنا ہر کام ہی وقت پر کرنے کے عادی تھے۔ فجر کے وقت بیدار ہوتے اور نماز ادا کر کے دوبارہ تھوڑی دیر کے لیے لیٹ جاتے، پھر آٹھ بجے اُٹھ کر ناشتا کرتے۔ ناشتے میں عموماً مکھن، ڈبل روٹی اور اُبلے ہوئے انڈے کے ساتھ چائے کی دو پیالیاں پیتے اور کبھی کبھار پراٹھا، روغنی روٹی، آلو کی ترکاری اور پوریاں بھی کھاتے تھے۔
ہمیں یاد ہے کہ جوانی کے ایّام میں اکثر چُھٹّی کے روز صبح سویرے ماہر القادری اور چار، پانچ دیگر دوست احباب نہاری لے کر گھر پہنچ جاتے یا پھر وہ کبھی والد صاحب کو کسی دوست کے ہاں ناشتے کے لیے ساتھ لے جاتے۔ چُھٹّی کے روز ناشتے میں اقبال صفی پوری، محشر بدایونی، ارم لکھنوی اور کبھی کبھار نظر جعفری اور عروج بجنوری بھی، جو اُن کے شاگرد تھے، شامل ہوتے۔ ناشتے سے فارغ ہوکر نہایت دل جمعی سے تمام کثیر الاشاعت قومی اردو اور انگریزی اخبارات کا مطالعہ کرتے۔ اُن میں سے زیادہ تر اخبارات انہیں مالکان کی جانب سے تحفتاً ملتے تھے۔
وہ شہہ سُرخی سے لے کر مراسلات تک پڑھتے۔ اخبار بینی کے بعد چند ضرور کالز کرتے اور پھر ڈیڑھ بجے تک ادبی کُتب کا مطالعہ۔ ظہر کی نماز اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ایک سے ڈیڑھ گھنٹا قیلولہ کرتے اور قیلولے کے بعد پھر کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیتے۔ ٹھیک پانچ بجے اہلِ خانہ کے ساتھ شام کی چائے پیتے اور پھر عشا تک شریکِ حیات کے ساتھ شطرنج کھیلتے۔ عشا کی نماز پڑھ کر ٹی وی اور ریڈیو پر خبرنامے کے ذریعے حالاتِ حاضرہ سے آگہی حاصل کرتے۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد کچھ وقت اہلِ خانہ کے ساتھ گزارتے اور پھر کچھ دیر مطالعے کے بعد سو جاتے۔ اکثر مغرب کے بعد ہی دعوتوں، مشاعروں اور تقاریب میں شرکت کرتے تھے اور اگر کہیں مدعو نہ ہوتے، تو پھر اُن کے یہی معمولات تھے۔
والد صاحب خوش لباس ہونے کے ساتھ خوش خوراک بھی تھے اور شریکِ حیات کے ہاتھ کے بنے کوفتے اُن کی پسندیدہ ترین ڈِش تھی۔ میری والدہ محترمہ کے ہاتھ کے بنے کوفتے واقعی بے حد لذیذ ہوتے تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مرزا ادیب، قیوم نظر اور دیگر حضرات نے اپنی تحریروں میں ان کا ذکر کیا ہے۔ والد صاحب کو آم اور آئس کریم بھی مرغوب تھی۔ دوپہر کے کھانے میں آم، خربوزہ، پپیتا یا کوئی اور پھل ضرور شامل رکھتے، جب کہ رات کے کھانے کے بعد بھی میٹھا لازماً لیتے۔ اگر ملبوسات کی بات کی جائے، تو کراچی میں رہتے ہوئے بھی کئی قسم کے اوور کوٹ اُن کے پاس تھے، جب کہ موسمِ گرما اور موسمِ سرما کے کُرتے اور شیروانیاں الگ الگ تھیں۔
والد صاحب کے دوستوں سے متعلق مختار زمن نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’تابش صاحب کے دوستوں کا حلقہ اُن کے دِل کی طرح وسیع ہے۔ میرے خیال میں تو ساری دُنیا ہی ان کی دوست ہے۔‘‘ بِلاشُبہ والد صاحب کا حلقۂ احباب خاصا وسیع تھا۔ اُن میں کراچی اور لاہور سے لے کر دِلّی اور حیدر آباد دکن تک سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ اپنے پیشے کی نوعیت کے سبب نہ صرف موسیقی سے گہرا شغف رکھتے تھے بلکہ مختلف اقسام کے سُروں سے بھی واقف تھے۔ انہیں گلوکاروں میں بڑے غلام علی خاں، روشن آراء بیگم اور اقبال بانو پسند تھے۔
والد صاحب کی زندگی کُتب کے بغیر ادھوری تھی اور اکثر مصنّفین خود ہی اُنہیں کتابیں بھیجتے تھے۔ علاوہ ازیں، مختلف لُغات جمع کرنے کا بھی شوق تھا۔ اِس وقت بھی ہمارے گھر فرہنگِ عامرہ، فرہنگِ آصفیہ، اردو بورڈ کی شایع کردہ لُغت کی جلدیں اور فارسی اور عربی کی لُغات موجود ہیں۔ مشفق خواجہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’تابش صاحب کی پسندیدہ کتاب لُغت اور پسندیدہ شاعر غالب تھا۔‘‘ وہ الفاظ کے صحیح معنی و مفہوم اور تلفّظ تلاش کرنے کے لیے دن میں کئی مرتبہ لُغات سے رجوع کرتے۔ ریڈیو پر23برس تک خبریں پڑھنے کی وجہ سے ہر لفظ دُرست تلفّظ کے ساتھ ادا کرتے۔ ہاشم رضا کہا کرتے تھے کہ ’’تابش کو خبریں پڑھتے سُن کر ہم اپنا تلفّظ ٹھیک کرتے ہیں۔‘‘
اکثر اپنے اہلِ خانہ کا تلفّظ بھی ٹھیک کرواتے رہتے تھے۔ ہمیں اچّھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ زیڈ اے بخاری، ماہر القادری اور سلیم احمد وغیرہ ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران کسی لفظ کی دُرست ادائی پر والد صاحب اور اُن کے درمیان بحث چِھڑ گئی۔ بحث اس قدر شدید تھی کہ تلخی کے آثار پیدا ہونے لگے۔ انہوں نے والد صاحب سے کہا کہ وہ جامع اللّغات کی فلاں لفظ کی تختی لے آئیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’لُغت تو اُسے دیکھنی چاہیے، جسے اس لفظ کے معنی اور تلفّظ معلوم نہیں ہیں۔‘‘ اسی اثنا والدہ ماجدہ نے جوش صاحب سے رجوع کرنے کی تجویز دی، جس پر سب نے اتفاق کر لیا۔ والدہ نے جوش صاحب سے بات کی، تو انہوں نے کہا کہ ’’جو تابش کہہ رہے ہیں، وہی ٹھیک ہوگا۔‘‘ وہ اپنے شاگردوں کو بھی ہمیشہ محنت، مطالعے، مشقِ سُخن جاری رکھنے اور لُغت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے رہتے تھے۔
عالمی شُہرت یافتہ شاعر ہونے کے باوجود نہایت منکسرا لمزاج شخص تھے۔ جب کوئی فرد اُن کے سامنے اُن کی تعریف کرتا، تو صرف اتنا کہہ کر خاموش ہو جاتے کہ ’’بڑے بڑے لوگ آئے اور چلے گئے، باقی رہے نام اللہ کا۔‘‘ ادبی حلقوں میں گروہ بندیوں اور سیاست کے بھی سخت مخالف تھے۔ کوئی بھی اُنہیں مشاعرے کی دعوت دیتا، تو فراغت کی شرط پر قبول کر لیتے۔ ہم اکثر اُن سے کہتے تھے کہ ’’آپ ہر چھوٹی، بڑی تقریب میں چلے جاتے ہیں۔ اس طرح آدمی کی اہمیت کم ہو جاتی ہے، تو بگڑ کر جواب دیتے کہ’’ میاں! تم اپنا فلسفہ اپنے پاس رکھو۔
لوگ مُجھ سے بہت محبّت کرتے ہیں اور مَیں اُنہیں منع نہیں کرسکتا۔‘‘ ایک مرتبہ برطانیہ کے ایک مشہور ادارے، ’’Who is Who‘‘ کا، جو ہر سال اسی نام سے ایک کتاب بھی شایع کرتا ہے، جس میں مختلف شعبہ ٔہائے زندگی میں ممتاز مقام کی حامل شخصیات کی فہرست اور ان سے متعلق مضامین ہوتے ہیں، ایک وفد تابش صاحب کے پاس آیا۔ یہ ادارہ اُن کا نام اپنے اگلے شمارے میں شامل کرنا چاہتا تھا اور وفد کو اُن کی شاعری کے بعض نمونوں کا انگریزی ترجمہ اور دیگر معلومات درکار تھیں۔ وفد کے جانے کے بعد ہم سے کہنے لگے کہ ’’مَیں منع کیے دیتا ہوں۔ میں کس سے ترجمہ کروائوں گا اور پھر ڈھیر سارے فارمز بھی بَھرنے پڑیں گے۔‘‘
ہم نے انہیں اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے دِل چسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اِسی طرح 1980ء کی دہائی میں دِلّی کی مشہورِ زمانہ اُردو کانفرنس کے منتظمین کی جانب سے اُنہیں مومن خان مومن ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا ،مگر انہوں نے شکریے کے ساتھ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ ہم نے وجہ پوچھی، تو جواب دیا کہ ’’بھارتی حکومت پاکستان کی دُشمن ہے اور پاکستانیوں کو اپنے ہاں مدعو کر کے ایوارڈز وغیرہ سے نوازنا اس کی ایک سیاسی چال ہے۔‘‘ اپنے وطن سے بہت محبّت کرتے تھے، مگر پاکستانی حُکم رانوں سے نالاں رہتے۔ اُن کا ماننا تھا کہ مُلک کی سیاست میں خواجہ ناظم الدّین کے بعد بگاڑ شروع ہوا۔ اکثر ملائیشیا کے مہاتیر محمّد کے طرزِ حُکم رانی کی مثال دیتے تھے۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد کئی روز تک بڑے کرب میں مبتلا رہے، جب کہ 14اگست اور23مارچ کو کافی پرُجوش نظر آتے تھے۔
یادداشت بھی غضب کی تھی ۔ ادبی حلقوں میں بھی اُن کی یادداشت کا بڑا چرچا رہتا ۔ ہم نے کبھی انہیں ٹیلی فون ڈائری سے نمبر تلاش کر کے فون کرتے نہیں دیکھا۔ فارسی، عربی اور اردو کے ہزاروں اشعار کے علاوہ ان گنت حکایات اور ضرب الامثال بھی ازبر تھیں۔ ڈاکٹر اسلم فرّخی، سحر انصاری اور احمد بشیر سمیت دیگر دوست احباب نے اُن سے بارہا اپنی یادداشتیں یا سوانح عُمری لکھنے کو کہا۔ پہلے پہل تو بینائی کی کم زوری سمیت دیگر بہانے بنا کر ٹال مٹول کرتے رہے، لیکن بالآخر سحر انصاری کے بے حد اصرار پر سوانح عُمری نہ لکھنے کی حقیقی وجہ بتا کر جان چُھڑوالی۔ انہوں نے سحر انصاری سے کہا کہ ’’بھئی! مَیں اپنی ابتدائی زندگی اور ادبّاء و شعراء کے بعض مخفی پہلو منظرِ عام پر نہیں لانا چاہتا۔‘‘
والد صاحب ادویہ سے دُور بھاگتے تھے اور نہایت مجبوری ہی میں کوئی دوا استعمال کرتے تھے۔93برس میں وفات سے قبل اُنہیں ذیابطیس اور بلڈ پریشر سمیت دِل کا کوئی عارضہ لاحق نہیں تھا، البتہ 70برس تک تمباکو نوشی کی وجہ سے اُن کے پھیپھڑے کسی حد تک کم زور ہوگئے تھے۔ اُن کا مستقل طبّی معائنہ کرنے والے ماہرِ امراضِ قلب، ڈاکٹر عبدالحق چیک اپ کے بعد ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ’’تابش صاحب! آپ کا دِل بہت اچّھا ہے۔‘‘ والد صاحب 93برس کی عُمر میں بھی ہر چیز شوق سے کھاتے تھے۔ اُن کے نزدیک مرغّن اور غیر مرغّن غذا کا کوئی تصوّر نہ تھا۔
البتہ خوردنی تیل اور بناسپتی گھی سے شدید نفرت کرتے تھے اور اِنہیں انگریز کی چال قرار دیتے تھے۔ زندگی کے آخری ایّام میں بھی اُن کی ذہنی و جسمانی صحت قابلِ رشک تھی ۔ گھر میں بیوی، چار بیٹیوں اور ملازمین ہونے کے باوجود اپنے سارے کام خود انجام دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ہم ایک واقعہ بھی بیان کرتے چلیں۔ وہ شدید گرمی کے دِن تھے۔ ہم نے دفتر سے واپس آتے ہوئے اُنہیں ہاتھ میں خط لیے گھر کے قریب واقع ڈاک خانے کی جانب جاتے دیکھا، تو گاڑی رُکوا کر پوچھا کہ ’’ کیا گھر میں ملازم نہیں ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ، ’’بیٹا! ہر طرح کے کام خود کرنے کی عادت ہونی چاہیے۔‘‘
والد صاحب ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ اللہ تعالیٰ پر اُن کا یقین پُختہ و کامل تھا۔ وہ بہ ظاہر ناممکن دکھائی دینے والے کام اللہ پر چھوڑ دیتے اور پھر وہ ہو بھی جاتے۔ ہمیشہ تازہ وضو کر کے نماز پڑھتے اور زندگی کے آخری ایّام میں جب آئی سی یو میں تھے، تب بھی وضو کے لیے بے چین رہتے۔ ڈاکٹرز کے مطابق اُن کی تمام میڈیکل رپورٹس ٹھیک تھیں، مگر شاید اُن کا وقت پورا ہوچُکا تھا۔ گرچہ تابش صاحب کو اس فانی دُنیا سے رخصت ہوئے 19برس گزر چُکے ہیں، لیکن اُردو ادب، ریڈیو اور ہمارے لیے وہ آج بھی زندہ ہیں۔
ہمیں اب بھی کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی گھر کے کسی کمرے سے ’’سعود میاں! بات تو سنو‘‘ کہتے ہوئے باہر آئیں گے کہ آج بھی اُن کا کمرابالکل اُسی حالت میں ہے، جیسا کہ اُن کی زندگی میں رہتا تھا۔ اُن کے استعمال کی ہر چیز اُسی جگہ موجود ہے، جہاں وہ رکھتے تھے۔ ہم اپنی یہ ’’یادداشتیں‘‘ ادریس صدیقی صاحب کے ان الفاظ پر ختم کرتے ہیں کہ ’’تابش صاحب سے مَیں پہلی بار ملا، تو اُن کی شرافت سے متاثر ہوا۔ دوسری ملاقات میں اُن کی ذہانت کا قائل ہونا پڑا اور تیسری ملاقات میں اُن کی وضع داری کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا۔