• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: سیا خان

ملبوسات: عرشمان بائے فیصل رضا

آرایش: SLEEK BY ANNIE 

کوارڈی نیشن: سلیم شیخ

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

’’حُسن، دیکھنے والی آنکھ میں ہوتا ہے۔‘‘ یہ حکایت بھی اپنی جگہ درست سہی، لیکن دورِ حاضر میں یہ فلسفہ تھوڑا بدل گیا ہے۔ آج اگر آپ خُود کو خُوب صُورت مانتے ہیں، تو درحقیقت آپ خُوب صُورت ہیں۔ مطلب، اب خُود کو دوسروں سے منوانے، تسلیم کروانے سے پہلے، اپنے آپ سے تسلیم کروانا کہیں ضروری ہے اور شاید اِسی لیے آج کل ’’سیلف گرومنگ‘‘ پر بے حد توجّہ اور زور ہے۔ فی زمانہ، بلکہ ازل ہی سے ’’بےعیب حُسن‘‘ کا تو تصوّر بھی محال ہے، ہاں البتہ کمیوں، خامیوں کو سدھارنے، سنوارنےاوراجالنے کی سعی ضرور کی جا سکتی ہے۔ اب خواہ وہ باطنی عیوب پر ظاہری خواص کی ملمّع کاری کی شکل میں ہو یا باہر کے اندھیارے کو، اندر کے اُجیارے سے جِلا بخشنے کی صُورت۔

بہرکیف، خوش خیالی و خوش خصالی سے آغاز ہونے والے سفر کی، خوش اندامی و خوش نُمائی کی منزل تک رسائی، خُود آرائی و خُود اعتمادی کا زینہ چڑھے بغیر ممکن نہیں۔ وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’ہر طرح کی آرائش و زیبائش، زیب و زینت اعتماد اور خُوشی جیسے پہناووں، گہنوں کے آگے مات ہے۔‘‘ تو بات تو بالکل سچ ہے، لہٰذا سب سے پہلے تو ہمارے لیے اپنے ہونے اور ہزاروں لاکھوں سے بہتر و افضل ہونے کے اعتماد سے مالا مال ہونا ناگزیر ہے اور پھر اِس اعتماد کی قلب و ذہن اور رُوح تک گہری، اُجلی تاثیر سے خُوب لُطف اندوز ہونا بھی۔ تب ہی ہم، خصوصاً خواتین اپنی زندگیوں میں مظلومین کے کرداروں سےنکل کےہیروئنز کے کرداروں میں ڈھلیں گی۔ سطحی تصوّرات و خیالات سے کسی شہزادی، ملکہ کی سوچ تک کا سفر طے ہوگا۔

بہرکیف، ہمارا خیال ہے، آج کے لیے اِتنا ہی فلسفہ بہت ہے۔ یوں بھی آج کی بزم کی شہزادی تو ’’سیلف گرومنگ‘‘ کی ہر ہر ہُنرکاری سے خُوب آراستہ و پیراستہ معلوم ہورہی ہے۔ یوں ہی توخُودشناسی و خُود آرائی سے خُود اعتمادی و جامہ زیبی تک سب مجسّم دکھائی نہیں دے رہا۔ بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ شخصیت سے ہم آہنگ رنگ و انداز سے شناسائی ہے، تو موسم، موقع محل سے مناسبت و موزونیت کا طریقہ سلیقہ بھی۔ 

کہیں ڈارک کلر کے ساتھ لائٹ کا کامبی نیشن اپنایا ہے، تو کہیں ایک دوجے کو کمپلیمنٹ کرتے دو رنگوں کا جلوہ ہے۔ ذرا دیکھیں تو دل آویز چارسوتی اسٹائل تھریڈ ورک سے مرصّع پہناووں کا ایک ایک انداز کیسا جداگانہ و شاہانہ ہے۔ سیاہ پہناوے کے ساتھ سُرخ رنگ ایمبرائڈری اوردوپٹّے کا جلوہ قیامت ڈھا رہا ہے، تو عنّابی مائل سُرخ رنگ لباس پر گہرے سرمئی رنگ کی کڑھت اور اُسی رنگ کے دوپٹے کی ہم آمیزی کا بھی کیا ہی کہنا۔ 

گہرے زرد رنگ کے ساتھ سُرخ کا سدابہار امتزاج ہے، تو سیاہ و سُرخ کے کامبی نیشن میں ذرا مختلف انداز کڑھت کے ساتھ ایک اور حسین تر پہناوا ہے۔ گلابی رنگ کا سفید کے ساتھ تال میل غضب ہے، تو سلور رنگ پہناوے پر رائل بلیو رنگ کی کڑھت اور اُسی رنگ کا دوپٹّا بھی خُوب ہی بہار دِکھا رہا ہے۔

اور … جب بزم ایسی شعلۂ جوّالا ہو، تو ایسی شعر و شاعری کرنا، سُننا تو بنتا ہی ہے۔ ؎ زیست محوِ سحاب ہو جیسے … مجھ میں تیرا شباب ہو جیسے … اِس عقیدت سے چُپ ہی رہتے ہیں … تیری سُننا ثواب ہو جیسے … اُس کی نظروں میں دیر تک دیکھا … میری آنکھوں کا خواب ہو جیسے … اُس کے خط کو سنبھال رکھا ہے … اِک مقدّس کتاب ہو جیسے … ایسے رکھا رہا کتابوں میں … حُسن اُس کا گلاب ہو جیسے۔