• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وہ خوش لباس بھی، خوش دِل بھی، خوش ادا بھی ہے ...

تحریر: نرجس ملک

ملبوسات: شاہ پوش

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

کوآرڈی نیشن : سونیا احمد

عکّاسی: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

بہت مُمکن ہے، بہت سے لوگوں کے لیے ’’مسز پاکستان ورلڈ ایونٹ‘‘ کا نام یک سر نیا، قطعاً غیرشناسا ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اِس مقابلے کا اہتمام 2007ء سے’’ٹچ گیٹ گلوبل‘‘ کے پلیٹ فارم سے ہو رہا ہے اور پہلی بار اِس کا انعقاد ٹورنٹو، کینیڈا میں باقاعدہ ایک افتتاحی تقریب کے ساتھ ہوا۔ اِس کی رُوح رواں ایک بزنس وومین ہیں، جو اِس کے آغاز کا محرّک ’’شادی شدہ پاکستانی خواتین کی طاقت و عظمت، اختیارو صلاحیت، اور حُسن و ذہانت کو دنیا بھر میں روشناس کروانا اور منوانا‘‘ بتاتی ہیں۔ سالِ رواں یہ مقابلہ پاکستان کے قلب، لاہور میں منعقد ہوا اور پہلی باراِس کی فاتح کا اعزاز وفاق کی ایک سرکاری افسر، مسز فاطمہ فخر کے حصّے آیا۔

فاطمہ فخر، جوہر ٹائون، لاہور کی رہائشی ہیں۔ اُن کا آبائی شہر ننکانہ صاحب ہے۔ وہ ایک سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ جِم کی مالک اور سرٹیفائیڈ جِم ٹرینر، ویٹ مینیجمینٹ اسپیشلسٹ بھی ہیں۔ فاطمہ کے نصف بہتر، محمّد حنیف بھٹّی پاکستان ریلوے میں بطور ڈائریکٹر فنانس خدمات انجام دے رہے ہیں، والد سپریم کورٹ کے معروف وکیل ہیں۔ یہ کُل تین بہنیں ہیں اور بقول فاطمہ، ’’ہم آج جو کچھ بھی ہیں، جس بھی مقام پرہیں، یہ ہمارے والدِ گرامی کے ہم پرمکمل اعتماد اور بھروسے ہی کا ثمر ہے۔‘‘ 

فاطمہ خُود کو بہت خُوش قسمت مانتی ہیں کہ اُنھیں مرد کے رُوپ میں جو بھی رشتےملے،وہ بہت ہی کوآپریٹیواوراعتبار کرنے والے ملے۔ اُن کے میاں نے بھی شادی کے بعد قدم قدم پر اُن کا بھرپور ساتھ دیا۔ گرچہ فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ خُود آفس کے بعد ایک مکمل ہائوس وائف ہوتی ہیں، جہاں اُن کا گھر، شوہر، دو بچّے (کہ فاطمہ سات اور تین سال کے دو بیٹوں محمّد عبداللہ بھٹّی او جگنو بھٹّی کی بیسٹ ماما بھی ہیں) اوراُن کی ساری گھریلو ذمّے داریاں اُن کی منتظر رہتی ہیں اور جنھیں وہ اپنی ملازمت ہی کی طرح بحسن و خُوبی نبھا رہی ہیں۔

فاطمہ فخرنے اپنے’’مسز پاکستان ورلڈ‘‘ ٹائٹل کا دفاع کرتے ہوئے بتایا کہ ’’مجھے یہ ٹائٹل یوں ہی نہیں دیا گیا۔ مَیں نے اپنی اِس منظّم، خُوب صُورت اور آئیڈیل زندگی کے لیے اپنا تَن مَن دَھن سب وقف کر رکھا ہے۔ اور میرا یہ اعزاز حاصل کرنے کا مقصد بھی ہرگز کوئی ماڈل یا ہیروئن بننا نہیں بلکہ مَیں تو صرف پاکستانی خواتین کے لیے ایک رول ماڈل بننا چاہتی ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ مَیں اپنے والدین کی بیسٹ بیٹی تھی، تو دورانِ تعلیم بیسٹ اسٹوڈنٹ رہی۔ کالج، یونی ورسٹی کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کی صدر تھی، پھر یونی ورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ٹاپ کیا۔ 

ایک بہترین ٹرینر، کام یاب افسر ہوں، تو اچھی بیوی، اچھی ماں اور اَن گنت خواتین کے لیے ایک مثال بھی۔ مطلب مَیں نے اپنی شخصیت کے ہر ہر رُوپ کو ہمیشہ اپنا سو فی صد ہی دیا۔ ایک بیٹی، بہن، سہیلی، بیوی، ماں اورافسر…جو بھی کردار نبھایا، الحمدُللہ اپنا بیسٹ ورژن ہی بنی۔ وہ کیا ہے کہ ؎ محبّت ہو تو بے حد ہو، جو نفرت ہو تو بے پایاں… کوئی بھی کام کم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا۔ مَیں بے دِلی، نیم دلی کی قائل ہی نہیں۔ 

جو کام کرتی ہوں، پوری ایمان داری، خلوصِ نیّت اورتَن دہی سےکرتی ہوں۔ میری دلی خواہش ہےکہ پاکستان کی ہرعورت اپنی ذات میں مکمل ہو۔ ہرعورت نہ صرف خُوب صُورت، صحت مند، اسمارٹ، تعلیم یافتہ بلکہ صاحبِ کردار، باشعور، بااختیار، ہُنرمند اورخُودمختار بھی ہو۔ فرائض نبھانا، حقوق حاصل کرنا جانتی ہو اور اِس ضمن میں، مَیں خُود بھی اپنےتیئں جوکچھ کرسکتی ہوں،اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے مسلسل کر رہی ہوں۔‘‘

فاطمہ نے اپنی روزمرّہ مصروفیات اور پسند، ناپسند، خصوصاً اوڑھنے پہننے کے ضمن میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرےدن کا آغاز صُبح چھے بجے ہو جاتا ہے۔ مَیں چھوٹی عُمر سے Early Riser ہوں اور اِس عادت کو اپنی کام یابی کی کُنجی مانتی ہوں۔ صُبح سویرے جِم جاتی ہوں، اپنی گاڑی خُود ڈرائیو کرتی ہوں۔ 10 سے 4 میرا آفس ٹائم ہے، جس کی سختی سے پابندی کرتی ہوں۔ کڑی محنت کی عادی ہوں اور آفس کے بعد میرا سارا وقت میرے شوہر اور بچّوں کا ہوتا ہے۔ اُن کے لیے کھانا ہمیشہ خُود بناتی ہوں۔ 

اُن کا دن بھر کا شیڈول دیکھتی ہوں۔ خُود کھانا بہت کم کھاتی ہوں، پھل، سبزیوں اور پروٹین سے بھرپورغذائوں کی دل دادہ ہوں۔ وارڈروب میں 500 سے زائد ملبوسات ہیں، ہر برانڈ افورڈ کرسکتی ہوں، لیکن موقع محل کی مناسبت سے ڈریسنگ پہلی ترجیح ٹھہرتی ہے۔ عمومی طور پر بہت لائٹ میک اَپ اور سادہ ملبوسات پسند ہیں۔ سفید رنگ پسندیدہ، زیورات میں انگوٹھیاں، چین اچھی لگتی ہے۔ گھر کو سجانے سنوارنے، صفائی ستھرائی کی بھی رسیا ہوں۔ 

تقریبات میں کم ہی شریک ہوتی ہوں، زیادہ وقت گھر اور فیملی کودینااچھا لگتا ہے۔ لوگوں کی منفی باتوں پرکچھ زیادہ دھیان نہیں دیتی، کیوں کہ مَیں سمجھتی ہوں کہ اب وہ دَور نہیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘جیسی فضول، فرسودہ سوچ پراپنا وقت، توانائی اورصلاحیتیں ضایع کی جائیں اور یہی میرا ہر پاکستانی عورت کے لیے بھی پیغام ہے کہ خدارا! اپنی قیمتی زندگی اپنے نام کریں۔ ہرعورت بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال ہے اورہرعورت خُوب صُورت ہے۔ بس، ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ آپ کو اپنا ہُنر تلاشنا، صلاحیتیں آزمانی اورحُسن سنوارنا و نکھارنا آتا ہو۔‘‘

ہماری آج کی بزم کے لیےفاطمہ نے بطورِ خاص شام سمے، موسم میں گُھلتی تھوڑی خنکی و طراوت کی عین مناسبت سے کچھ گہرے، اُجلے، کِھلے کِھلے، بھیگے بھیگے رنگوں سے مزیّن پہناووں کا انتخاب کیا ہے۔ ذرا دیکھیے تو ڈارک بلیو، آتشی گلابی، تیز سبز، گہرے پِیچ اورخُوب زرد رنگ نےبزم کے حُسن کو کیسے سہ آتشہ کر ڈالا ہے۔