• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ بھارت کی کامیابیوں کی فہرست گنوائی جائے، اُسکی کھلے دِل سے تعریف کی جائے، اپنے ملک کا بھارت کے ساتھ تقابل کیا جائے، تجزیہ کیا جائے کہ ہم سے کہاں، کب اور کون سی غلطیاں ہوئیں اور پھر اِس تجزیے کی روشنی میں اپنی روِش بدلنے کی کوشش کی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں اور خاص طور سے مسلمانوں کی نسل کُشی پر فوکس کیا جائے اور یہ سوچ کر خود کو تسلی دی جائے کہ بھارت کی انتہا پسندانہ پالیسی کی وجہ سے اُسکی تمام ترقی بیکار ہے، بھارت کا خلائی جہاز چاند پر تو پہنچ گیا مگر آج بھی انڈیا کی بیس کروڑ آبادی ٹوئلٹ کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اور غربت کا یہ حال ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی ممبئی میں ہے جہاں غربت نسل در نسل چلتی ہے۔ چلیے، دونوں طریقوں کی پڑتال کرکے دیکھتے ہیں۔

جی 20 اجلاس کی میزبانی اِس مرتبہ بھارت کے حصے میں آئی، اِس اجلاس میں امریکہ، سعودی عرب اور بھارت نے آپس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے عہد ناموں پر دستخط کئے اور بھارت سے براستہ مشرق وسطیٰ معاشی راہداری بنانے کا عزم کیا۔ دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے سربراہان کو نریندر مودی ننگے پیر چلا کر مہاتما گاندھی کی سمادھی تک لے کر گیا جہاں گاندھی جی کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جی 20 اجلاس سے چند ہفتے پہلے بھارت کا خلائی مشن چندریان 3چاند پر پہنچا تھا، اُسکی داد بھارت نے الگ سے سمیٹی۔ کرکٹ میں ایشیا کپ کی میزبانی اِس مرتبہ پاکستان کے حصے میں آئی تھی مگر بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان میں کوئی بھی میچ کھیلنے سے انکار کر دیا، بھارت کی اِس بدمعاشی کے نتیجے میں پاکستان میں فقط چار میچ کھیلے گئے اور آئی سی سی منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے بیٹھا رہا کیونکہ بھارت اُسکا کماؤ پوت ہے۔ ایسا ہی کچھ احوال OTT پلیٹ فارمز کا ہے۔نیٹ فلیکس اور ایمزون پر بھارتی فلموں اور سیریز کی بھرمار ہے جبکہ پاکستان وہاں سے بھی غائب ہے کیونکہ اِن OTTsپر بھی بھارتی قابض ہیں، وہ پاکستان کے ڈراموں اور فلموں کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتے، ویسے بھی پاکستان اُس سطح کی فلمیں ہی نہیں بنا سکتا جو نیٹ فلیکس اور ایمزون کو درکار ہیں۔ آپ میں سے جو لوگ OTT ٹی وی سیریز دیکھتے ہیں انہیں اندازہ ہوگا کہ مرزا پور، میڈ اِن ہیون، یہ کالی کالی آنکھیں، پنچایت، اسکیم 1992ء دی ہرشد مہتا اسٹوری، دہلی کرائم، ڈی کپلڈ، تانڈوو، اور اِس جیسی درجنوں ٹی وی سیریز بھارت میں بن رہی ہیں جن کی خاص بات یہ ہے کہ اِن میں کوئی سپر اسٹار نہیں بلکہ دوسرے درجے کے اداکار ہیں (سوائے اکا دکا ٹی وی سیریز جیسے کہ تانڈوو یا سیکرڈ گیمز جس میں سیف علی خان ہے) مگر اُنکی اداکاری صف اول کے اداکاروں سے کسی بھی طرح کم نہیں اور نہ ہی اِن فلموں کی ہدایتکاری میں کوئی سقم ہے۔ اِس وقت مقصد پاکستان اور بھارت کی فلموں کا تقابل کرنا نہیں بلکہ صرف یہ دیکھنا ہے کہ وہ بھارت جو نوّے کی دہائی تک لگ بھگ ہم جیسا تھا ،فقط بیس پچیس برس میں چاند تک کیسے پہنچ گیا جبکہ ہماری ائیر لائن لاہور سے نیویارک تک براہ راست نہیں جا سکتی! بھارت کی اِن کامیابیوں پر ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ کیا رد عمل دیں، سو ہم نے انٹر نیٹ کھنگالا اور ہمیں معلوم ہوا کہ بھارتی معاشی ترقی تو محض ڈھکوسلہ ہے کیونکہ آج بھی پانچ فیصد امیر ترین افراد بھارت کی ساٹھ فیصد دولت پر قابض ہیں۔ اِس قسم کی تنقید کسی بھی ملک پر کی جا سکتی ہے اور بھارت اُس سے مستثنیٰ نہیں بلکہ بھارت تو اُن ممالک میں شامل ہے جسکا انسانی حقوق کی پامالی اور خاص طور سے کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرادادوں کی خلاف ورزیوں کا بد ترین ریکارڈ ہے ۔وہ تو شکر ہوا ارُون دھتی رائے کا جس نے حسب معمول بھارتی جمہوریت کا پردہ چاک کرتے ہوئے دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ دکھایا اور بتایا کہ کس طرح بھارت سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر اطمینان سے مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرنے کے درپے ہے جو نازی جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ کیاگیا تھا۔گویا ہم سے ڈھنگ کی تنقید بھی نہیں کی گئی ، اِس کام کیلئے بھی ہمیں ایک بھارتی دانشور کا سہارا لینا پڑا اور ایک دوسرے کو ارون دھتی رائے کا ویڈیو کلپ بھیج کر بتانا پڑا کہ بھارت کی کامیابی پر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے اور بھارت میں اب بھی بہت غربت ہے۔ چلیے ہم پریشان نہیں ہوتے، لیکن سوال یہ ہےکہ بھارت کی ترقی کا وہ کون سا مرحلہ ہوگا جب ہم پریشان ہوکر اپنی ترقی کے بارے میں سوچیں گے؟ جب بھارت مریخ پر پہنچ جائیگا یا جب اُس کے زر مبادلہ کے ذخائر ہزار ارب ڈالر کی سطح کو چھُو لیں گے، جب وہ مزید دس فیصد آبادی کو غربت سے نیچے سے نکال لے گا یا جب بھارتی تارکین وطن امریکہ کی باقی ماندہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سربراہی بھی سنبھال لیں گے؟ اِن تمام سوالوں سے پہلے ایک سوال یہ بھی پوچھنا ہے کہ کیا ہمسایہ ممالک کو ایک دوسرے کی ترقی سے پریشان ہونا چاہئے؟ ہم ایک عجیب و غریب خطے میں رہتے ہیں جہاں ہمسایہ ممالک نے آپس میں سرحدیں بند کر رکھی ہیں اور بات چیت تقریباً بند ہے۔ ایسا تو افریقی ممالک نے بھی نہیں کیا جہاں کئی ممالک میں خانہ جنگی کی سی صورتحال ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، ایک ملک تھا، تاریخ نے انہیں علیحدہ کردیا مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اب باقیماندہ تاریخ ایک دوسرے کیخلاف تلواریں سونت کر گزاری جائے۔ بمبئی شہر محمد علی جناح کی محبوبہ تھی جبکہ لاہور میں جواہر لعل نہرو کا دل دھڑکتا تھا، جب اِن ممالک کے بانیان نے آپس میں کنفیڈریشن کا ماحول بنا رکھا تھا تو یہ ماحول آج کیوں نہیں بن سکتا! بھارت سے حسد کرنے کی ضرورت نہیں، ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم فقط یہ سوچیں کہ 76برس پہلے ایک ملک کے دو ٹکڑے ہوئے، ایک ٹکڑا آج چاند پر ہے جبکہ دوسرا ٹکڑا زمین پر ، اِسکی کیا وجہ ہے؟یہ کوئی ایسا مشکل سوال نہیں جس کا جواب تلاش کرنے کیلئے سقراط کو زندہ کرنا پڑے، آج اگر اِس سوال پر ریفرنڈم کروا کے قوم سے پوچھ لیا جائے تو شاید اسّی فیصد لوگوں کا جواب ایک جیسا ہوگا۔ ہمیں معلوم ہے کہ مرض کیا، ہمیں یہ بھی علم ہے کہ اِس کی دوا کیا ہے، لیکن افسوس کہ دوا لینے کی بجائے ہم ٹوٹکوں اور کھوکھلے نعروں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔

It is silliness to live when to live is torment and then have we a prescription to die when death is our physician.othello

تازہ ترین