عالمی طور پرجہاں پاکستان کو تنہاکرنے جیسے منصوبےتیزی سے روبہ عمل ہیں،تووہاں پاکستانی سیاست، ملک وعوام سے بے نیاز پاپابیٹا نوراکشتی جیسے ڈرامے اور قدم قدم پر عجائبات کے نمائش کدے لئے ہوئے ہے،76برس بعد بھی یہاں کے سیاسی وغیر سیاسی طاقتوروں اورتاجر،بیوروکریسی وبالادست طبقات پرمشتمل مافیاز کے ہاں فکرونظر کی دعوت ناپیدہے۔ ریاض سعودی عرب سے جنگ کے خصوصی نامہ نگار شاہد نعیم کی خبر کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جی 20 اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے درمیان اقتصادی راہداری بنانے کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوگئے ہیں ، راہداری کابھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک کو باہم جوڑنے ،تجارتی مبادلہ بڑھانےاور ریلوے سمیت انفراسٹرکچرکوترقی دینے میں میں کلیدی کردار ہوگا۔ طویل المدت روزگار فراہمی کے ساتھ اسکے تحت بجلی، ہائیڈروجن سمیت توانائی بذریعہ پائپ لائنوں کے برآمد کی جائیگی۔اب جہاں ہماراازلی دشمن ہمارے ہی برادر ممالک کے کندھوں پر سوار ہوکر ستاروں پر کمند ڈالنے کیلئے کوشاں ہے تووہاںپاکستان میں مہنگائی نے عام آدمی کو زندہ درگور کررکھا ہے،اسکی کلیدی وجہ اگرآئی ایم ایف سے پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کا معاہدہ اور پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت کا اس معاہدے پر من وعن عملدرآمد ہے، تووہاں مذکورہ دونوں حکومتوں کی اُس مافیا کی سرپرستی بلکہ اس میں شمولیت ہے جو آئی ایم ایف کے نام پر ذخیرہ اندوزی،بیرون ملک چاول چینی آٹاودیگر اشیاکے علاوہ بڑے پیمانے پر ڈالرز وسونے کی اسمگلنگ کرکے ملک وعوام کو کنگال کرچکی ہے۔شرمناک بلکہ عبرتناک امریہ ہے کہ 1971ء میں دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والے بنگلہ دیش نے معیشت کے ہر شعبے میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بنگلہ دیش کے پاس نئے مالی سال پر 31ارب ڈالر کے ذخائر ہیں جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی نیچے ہیں اور وہ بھی دوست ممالک سے لی گئی ادھار رقم پر مشتمل ہیں۔رواں مالی سال بنگلہ دیش نے برآمدات کا ہدف 67ارب ڈالر رکھا ہے اورحالیہ مالی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بنگلا دیش 65ارب ڈالر سے زائد کا ہدف حاصل کرلے گاجب کہ مالی سال 2023 میں پاکستان کا برآمدات کا ہدف 38 ارب ڈالر تھا۔اکتوبر 2022 سے اب تک پاکستانی برآمدات میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور خدشہ ہے کہ یہ 30ارب ڈالر کی سطح کو بھی نہیں چھو پائے گی۔ مالی سال 2023 ء کے دوران بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی تقریباً 2675ڈالر رہی جبکہ اسی عرصے میں پاکستان میں اسکا تخمینہ 1568 ڈالر لگایا گیا ہے۔ مزید یہ کہ بھارتی معیشت کا حجم 37کھرب 80ارب ڈالر ہے، بھارت کے غیر ملکی ذخائر 584ارب ڈالر اور برآمدات 676 ارب ڈالر ہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان نے اپنا بجٹ ’اسمارٹ بنگلہ دیش ‘ کی تھیم کے تحت پیش کیا ہے جس میں 100فیصد ڈیجیٹل معیشت‘ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ پیپرلیس اور نقدی سے پاک (کیش لیس ) معاشرے کے عناصر نمایاں ہیں۔ بنگلہ دیش نے ٹرانسپورٹ‘ توانائی‘ انفراسٹرکچر‘ دیہی ترقی اور تعلیمی شعبوں کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 8.27کھرب ٹکے کی خطیر رقم مختص کی ہے۔ حضرت اقبال نے کہا تھا، آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں۔ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ دانا وبیناحضرت اقبال نے برسوں قبل جن حالات کی پیش گوئی کی تھی ،76سال میں سول وفوجی آمر اسکا ادراک نہ کرسکے یا پھر وہ مخصوص مفادات کیلئے بروئے کار آئے۔ جہاں فوجی آمروں کا آئین کی پامالی اور سول حکومتوں کے خاتمے میں معاون کردار اور ق لیگ وغیرہ جیسی ابن الوقت سیاستدانوں پر مشتمل جماعتوں کی تخلیق قابل مذمت ہے،وہاں ہر سیاسی ومذہبی جماعت کا محض اپنے ذاتی، گروہی، جماعتی وطبقاتی مفاد کیلئے قومی خزانے ووسائل کا بے رحمی سے استعمال بھی مذموم ہے۔ پاکستان پر حکمرانی کرنیوالوں کے اپنے ادوار میں ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کو اگر جمع کیا جائے تو صاف نظر آئیگا کہ اگر ان اعلانات پر عمل کیا جاتا اور یا منصوبوں میں خوردبردنہ کی جاتی تو آج پاکستانی عوام اس بری صورتحال سے دوچار نہ ہوتے جس سے دوچار ہیں۔ پاکستانی عوام کو ہمیشہ تصورات میں اُلجھایا گیا، جن برادر دوست ممالک کی راگنی ہمیں سنائی جاتی ہے کیا ان دوست ممالک کے ہاں بھی ہماری وہی قدر ومنزلت ہے؟