اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کی درخواستِ ضمانت مسترد کر دی۔
اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں سائفر کیس کی سماعت ہوئی۔
خصوصی عدالت برائے سیکرٹ ایکٹ کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے محفوظ کیا فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی بھی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔
ذرائع کے مطابق پراسیکیوٹر نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جلسے والی ویڈیو عدالت میں دکھائی، انہوں نے سابق وزیرِ اعظم کا شامل تفتیش ہونے والا بیان بھی پڑھ کر سنایا۔
پراسیکیوٹر نے اعظم خان کے بیان کو بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
وکیل سلمان صفدر نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس کا مدعی وزارت داخلہ کا افسر ہے، وزارت داخلہ نے سائفر کیس ہائی جیک کیا، سائفر واشنگٹن سے بھیجا گیا جس کی وصولی وزارتِ خارجہ نے کی، چیئرمین پی ٹی آئی پر سائفر کیس میں ذاتی مفادات لینے کا الزام ہے، ان پر کیس میں قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا بھی الزام ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان کا ذکر مقدمے میں ہے، کیا اعظم خان عدالت میں ہیں؟ کیا اعظم خان کی ضمانت منظور ہوئی؟ پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ سائفر کا اصلی اور نقلی ورژن کیا تھا، پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے قومی سلامتی کو کیا نقصان ہوا، الزام لگایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کو اپنی تحویل میں رکھا، کیس ہے کہ سائفر غلط رکھا اور غلط استعمال کیا، ثابت کرنا پراسیکیوشن کا کام ہے، پراسیکیوشن کو ثابت کرنا ہے کہ سائفر کیس سے بیرون ملک طاقتیں مضبوط ہوئیں، سائفر کیس سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج ہوا، کمرۂ عدالت میں موجود کوئی بھی 1923 میں پیدا نہیں ہوا ہو گا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے کہا کہ میرے والد صاحب 1923 میں پیدا ہوئے تھے، ان کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جو توشہ خانہ کیس کی کڑی میں پھنس گئے ہیں، انہیں پراسیکیوشن اندر رکھنا چاہتی ہے، ڈیڑھ سال سائفر کیس کی تحقیقات ہوئیں، مقدمہ تب بنایا جب چیئرمین توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہوئے، سائفر کیس سیاسی انتقام لینے کے لیے بنایا گیا ہے، ذمے دار وزیراعظم رہے، چیئرمین پی ٹی آئی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہیں، انہوں نے اکہتر سال کی عمر میں جرم کی دنیا میں پیر رکھا، گزشتہ سماعت پر انسدادِ منشیات کے جج نے بطور ایڈمنسٹریٹیو جج سماعت کی، ایڈمنسٹریٹیو جج نے کہا یہ تو انسدادِ منشیات کی عدالت ہے، میں نے کہا چیئرمین پی ٹی آئی پر صرف منشیات کا کیس بنانا ہی رہ گیا ہے۔
منشیات کے کیس سے متعلق وکیل سلمان صفدر کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی کام نہیں کیا، سائفر ہے کیا؟ کوڈڈ دستاویز ہے جس میں کمیونیکیشن ہوتی ہے۔
جج ابوالحسنات نے وکیل صفائی سے استفسار کیا کہ سائفر ہے کیا؟ اس پر ضرور بات کرنی ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر ٹریننگ شدہ افراد کے پاس آتا ہے، عام انسان نہیں پڑھ سکتا۔
جج ابوالحسنات نے استفسار کیا کہ وزارتِ خارجہ سائفر کی وصولی کرتا ہے، سائفر آیا اور کہاں گیا؟ سائفر کیس یہ ہے، سائفر کے 4 نقول آتے ہیں جن میں آرمی چیف، وزیرِ اعظم شامل ہوتے ہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج کسی کلبھوشن یا ابھینندن کا کیس نہیں سنا جا رہا، سائفر کیس بہت خطرناک بنایا گیا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 تو لگتا ہی نہیں ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کوئی جاسوس نہیں، سابق وزیرِ اعظم ہیں، دورانِ ٹرائل معلوم ہوگا کہ سائفر پر بیان سے ملک کو بچایا یا ملک دشمنوں کی سہولتکاری کی، جرم دشمن ملک سے حساس معلومات شیئر کرنا ہے، سیکرٹ ایکٹ تو لاگو ہی نہیں ہوتا، ایف آئی اے سے تو کوئی اُمید نہیں، اُمید صرف عدالت سے ہے۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ دو کیٹیگریز کی لسٹ ہے، بہت اہم بات کرنے لگا ہوں، سیکشن5، سیکشن 3 لاگو ہوتا ہے یا نہیں؟ سائفر کیس پورا اس پر ہے، اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو سیکشن 3 اے لاگو ہوتا ہے، سائفر وزارتِ خارجہ سے وزیرِ اعظم کو ملا، لیکن سائفر ہے کہاں؟ وزیرِ اعظم، ڈی جی آئی ایس آئی، آرمی چیف، وزارت خارجہ کا سائفر ڈاکیومنٹ الگ الگ ہے۔
وکیل بابر اعوان نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستِ ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ سائفر سے متعلق غیرمتعلقہ افراد کے ساتھ کمیونیکیشن ہوئی، سائفر وصول ہوا، رکھا گیا، وزارت خارجہ کے سیکریٹری کے پاس خصوصی طور پر ہوتا ہے، کیا سائفر چوری ہوا؟ کیا وزیرِ خارجہ کے سیکریٹری مدعی ہیں؟ سائفر کیس کا مقدمہ تو وزیرِ خارجہ کو دائر کرنا بںتا ہے۔
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وفاقی وزیر اسد عمر کی ضمانت منظور کر لی۔
عدالت نے اسد عمر کی ضمانت 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض کنفرم کی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے وکیل سلمان صفدر کے دلائل کے دوران مداخلت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اسد عمر کی کیس میں تاحال گرفتاری مطلوب نہیں، ان کے خلاف کوئی ثبوت ابھی موجود نہیں، ان کی درخواست ضمانت پر دلائل سننے ہیں تو عدالت کی مرضی، تفتیش کے دوران اگر کوئی ثبوت ملا تو اسد عمر کو آگاہ کیا جائے گا۔
وکیل بابر اعوان نے استدعا کی کہ ایف آئی اے کے پاس ثبوت ہی نہیں تو ضمانت کنفرم کر دی جائے۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اسد عمر کی درخواست ضمانت پر اوپن کورٹ میں فیصلہ لکھوایا۔
خصوصی عدالت کے جج نے فیصلہ لکھوایا کہ پراسیکیوشن کے مطابق اسد عمر کے خلاف تاحال ثبوت نہیں، اسد عمر نے شامل تفتیش ہونے کا اظہار کیا لیکن پراسیکیوشن نے شامل تفتیش نہیں کیا، ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق اسد عمر کی گرفتاری مطلوب نہیں، اگر ان کی گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف آئی اے قانون کے مطابق چلے گی، گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف ائی اے ان کو پہلے آگاہ کرے گی۔
اس سے قبل سائفر کیس میں اسد عمر کی درخواستِ ضمانت قبل از گرفتاری پر دلائل دیتے ہوئے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ میں فری ہوں یا نہیں، عدالت کا وقت شروع ہو چکا ہے، اسد عمر تحریری طور پر شامل تفتیش ہوئے ہیں۔
وکیل صفائی بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسد عمر براہ راست سائفرکیس کے مقدمے میں نامزد نہیں، 22 اگست کو انہوں کی درخواست ضمانت دائر کی تھی، رواں سال مارچ میں سائفر کی انکوائری کو شروع ہوئے ایک سال ہوا۔
اسد عمر نے کہا کہ میں نے تو خود ایف آئی اے کو خط لکھ کر پوچھا کہ بتائیں شامل تفتیش ہونے کب اور کدھر آنا ہے۔
اسد عمر کے شامل تفتیش ہونے پر اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون نے اعتراض اٹھا دیا۔
اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون نے پھر سماعت 12 بجے شروع کرنے کی استدعا کی۔
جج ابوالحسنات نے کہا کہ میں آج نہیں سنوں گا، معذرت ہے، درخواست ضمانت پر دلائل ہوں گے۔
پراسیکیوشن کے معاون وکیل نے کہا کہ اسد عمر کو ایف آئی اے خود آنا تھا، تفتیشی افسر کو ان کے پاس نہیں آنا تھا، ابھی اسدعمر کے کردار پر سائفر کیس میں تفتیش مکمل کرنی ہے۔
جج ابوالحسنات نے استفسار کیا کہ ایک ضمانت کے باعث دیگر ضمانتیں بھی نہیں سنی جا سکیں۔
پراسیکیوشن کے معاون وکیل نے کہا کہ اسد عمر کو مچلکے جمع کروا کر تفتیشی افسر کے پاس جانا تھا، اسد عمر درخواست ضمانت منظور اور توسیع کے بعد شامل تفتیش نہیں ہوئے، ان کی حد تک تفتیش مکمل نہیں، درخواست ضمانت پر دلائل نہیں بنتے۔
جج ابوالحسنات نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون میں میرٹ کو دیکھا جائے گا، عدالت نے آپ کی خواہشات پر نہیں چلنا، جو اسد عمر سے سوال کرنا ہے کمرۂ عدالت میں بٹھا کر کرلیں، صاف سی بات ہے جو حق ہو گا اسے ملے گا، جو نہیں ہو گا میں نہیں دوں گا۔
اسد عمر نے روسٹرم پر آ کر عدالت کو بتایا کہ دو بار ایف آئی اے نے بلایا، گزشتہ سال دسمبر اور حال ہی میں بلایا، ایک اور دو گھنٹوں پر محیط مجھ سے ایف آئی اے نے تفتیش کی، شاملِ تفتیش ہونے کے بعد ایف آئی اے نے کہا اسد عمر کا کردار نہیں، سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔
جج ابوالحسنات نے کہا کہ اسد عمر کو کمرۂ عدالت میں شاملِ تفتیش کرنا ہے تو کر لیں، سماعت تو ملتوی نہیں ہونی، اسد عمر، چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کی درخواستوں پر فیصلہ آج کر کے رہوں گا، جتنی مرضی درخواستیں دینی ہیں دے دیں، تمام درخواستوں پر فیصلے آج سناؤں گا۔
اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون نے تینوں ضمانتوں پر دلائل اکٹھا سننے کی استدعا کر دی۔
جج ابوالحسنات نے کہا کہ دو ضمانت اور ایک ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں الگ الگ سنی جائیں گی، جائز بات کریں، عدالت کو بتائیں اسد عمر کا کردار براہ راست نہیں تو مقدمے میں نامزد کیوں کیا؟ اسد عمر کی درخواست ضمانت کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟ ٹھوس وجہ بتائیں، درخواست ضمانت پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا، فیصلہ ہو گا تو آج ہو گا۔
جج ابوالحسنات نے سائفر کیس کی سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے کہا کہ اسپیشل پراسیکیوٹرز کو بتا دیں، نہیں پہنچے تو دلائل شروع ہو جائیں گے، اسپیشل پراسیکیوٹرز کو پیغام دے دیں پہنچنے کا، ایسے نہیں چلے گا کام۔
سماعت کے آغاز میں اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے عدالت کو بتایا کہ 12 بجے سائفر کیس کی سماعت مقرر کر دیں، دیگر اسپیشل پراسیکیوٹرز کو بھی سپریم کورٹ جانا ہے۔
وکیل صفائی سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے دلائل دینے کی اجازت دی جائے، ہم نے بھی ہائی کورٹ جانا ہے، ہر سماعت پر اسپیشل پراسیکیوٹر کوئی بہانا کرتے ہیں۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ سائفر کیس کی سماعت تو آج ہو گی، یہ سن لیں، فریقین کی موجودگی میں ہی کیس کی سماعت ہو گی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ پراسیکیوشن جیسے ہی فارغ ہوتی ہے جوڈیشل کمپلیکس پہنچ جائے گی۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کی سماعت 12 بجے کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔
عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹرز کی غیر موجودگی میں درخواست ضمانت پر پی ٹی آئی وکلاء کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔
اسپیشل پراسیکیوٹرز ذوالفقار نقوی اور رضوان عباسی کمرۂ عدالت سے روانہ ہو گئے۔
اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون نے بار بار سماعت 12 بجے مقرر کرنے کی استدعا کی۔
وکیل صفائی عاصم بیگ نے کہا کہ اسپیشل پراسیکیوٹرز نے خود کہا 10 بجے سماعت شروع کر لیں، فیس نہیں ملی تو ہمارا قصور نہیں۔
جج ابوالحسنات نے معاون وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک اسپیشل پراسیکیوٹر کو مدعو کر لیں، باقی بھی پہنچ جائیں گے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ دس بجے سماعت شروع کریں، آہستہ آہستہ ایف آئی آر پڑھنا شروع کردوں گا، سائفر کیس کی درخواست ضمانت پر زیادہ سے زیادہ 45 منٹ لوں گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کی درخواستِ ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہو گی جبکہ اسدعمر کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری پر سماعت ہوگی۔