• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآن اور علم الآثار کی روشنی میں

( سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام سے موسیٰ علیہ السّلام تک)

مصنّف: حافظ محمّد شارق

صفحات: 211، قیمت: درج نہیں

ناشر: ادارہ تحقیقاتِ مذاہب، پاکستان

فون نمبر: 2225986- 0333

حافظ محمّد شارق نوجوان محقّق ہیں، اُن کا خاص میدان ادیانِ عالم، نفسیات اور روحانیت ہے۔ مذاہبِ عالم اور دیگر موضوعات پر 20 کے قریب کتب تصنیف کرچُکے ہیں، بالخصوص اُن کی ہندو مت سے متعلق کتب کا علمی حلقوں میں خاصا چرچا ہے۔ اِن دنوں وفاقی اردو یونی ورسٹی میں شعبہ مطالعۂ ادیانِ عالم سے وابستہ ہیں۔زیرِ نظر کتاب میں اُنھوں نے ایک ایسے موضوع کو تحقیق کا مرکز بنایا ہے، جس سے اردو داں طبقہ کم ہی واقف ہے اور اردو میں اِس عنوان کے تحت نہ ہونے کے برابر کام ہوا ہے اور اگر کچھ کام ہوا بھی ہے، تو جدید تحقیق نے اُس پر کافی سوالات اُٹھا دئیے ہیں۔ 

انبیاء کرامؑ سے متعلق ہمیں قرآنِ پاک یا دیگر مذہبی کتب سے تو معلومات حاصل ہوجاتی ہیں،( اور ہم اُن پر مکمل یقین بھی رکھتے ہیں)، مگر علم الآثار (آرکیالوجی)کے ماہرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مختلف قدیمی علاقوں میں ہونے والی کھدائیوں، مختلف مقامات سے ملنے والی تصاویر، کتبات اور علامات وغیرہ سے اِن مقدّس شخصیات کی دنیا میں تشریف آوری کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، جس کی بنا پر وہ اِنھیں خیالی شخصیات قرار دیتے ہیں، خاص طور پر حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت سے متعلق بہت سے شکوک و شبہات پھیلائے گئے ہیں۔ گویا ماہرینِ آثارِ قدیمہ، انبیاء کرام علیہم السّلام کی تاریخیت (Historicity) سے متعلق متشکّک ہیں۔

اِس ضمن میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اوّلین دَور کے مسلمانوں نے تو آرکیالوجی کے میدان میں کافی کام کیا، جو تحریری شکل میں موجود ہے، مگر بعد میں اُنھوں نے اِس موضوع سے ایسا منہ پھیرا، جیسے یہ کوئی شجرِ ممنوعہ ہو۔ ہمارے ہاں علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے سفرنامہ ارض القرآن کے ذیل میں اِس حوالے سے بساط بَھر کام کیا، جس نے بعد کے محقّقین کو تحقیق کے لیے ٹھوس بنیادیں بھی فراہم کیں، مگر چوں کہ اُن کی تحقیق پر بھی دہائیاں گزر چُکی ہیں اور نئی دریافتوں نے تحقیق کے نئے نئے در وا کیے ہیں، تو اِس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ علم الآثار کی جدید دریافتوں کی روشنی میں انبیاء کرامؑ کی تاریخیت سے متعلق سائنسی بنیادوں پر تحقیقی کام کیا جائے،جس کا بیڑا حافظ شارق نے اُٹھایا ہے۔

اِس تفصیل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فاضل مصنّف کا کام کس قدر اہم، مشکل اور مشقّت طلب ہے۔ اُنھوں نے اِس کتاب میں چھے انبیاء کرامؑ، حضرت صالح ؑ، حضرت ابراہیمؑ ، حضرت اسماعیلؑ، حضرت لوطؑ، حضرت یوسفؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کی شخصیت اور حالات و واقعات سے متعلق آرکیالوجی سے ناقابلِ تردید شواہد پیش کیے ہیں، جب کہ کتاب کے آغاز میں مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کا بھی علمی جائزہ لیا گیا ہے تاکہ قارئین اُس خطّے کے جغرافیے کے ساتھ وہاں کی قدیم اقوام اور اُن کی تہذیب و تمدّن سے بھی واقف ہو سکیں۔

مصنّف کا کہنا ہے کہ’’ اِس تحقیق کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر ؑ کوئی فرضی یا افسانوی کردار نہیں تھے( جیسا کہ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا دعویٰ ہے)، بلکہ اُن کی تاریخیت ایک علمی حقیقت ہے۔‘‘ یہ اِس سلسلے کی پہلی کتاب ہے، جب کہ اگلی کتاب میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے بعد کے پیغمبروں اور حضرت آدمؑ و نوحؑ سے متعلق تحقیق پیش کی جائے۔ معروف محقّق، مؤرخ، مصنّف اور استاد، ڈاکٹر نگار سجّاد ظہیر نے مصنّف کی کاوش کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے علم الآثار سے متعلق مختصر مگر جامع نوٹ قلم بند کیا ہے۔ یقیناً یہ کتاب مذہب اور تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے کسی اَن مول سوغات سے کم نہیں۔