• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریل گاڑی کے سفر کو عام طور پر محفوظ، ٹینشن فِری اور خوش گوار سمجھا جاتا ہے۔ 3 ہزار ہارس پاور کے بھاپ اُڑاتے، دیو قامت انجن کی کُوک، چمنی سے نکلتا دھواں، پہیّوں کی پٹری سے ٹکراتی، موسیقیت سے بھرپور آواز، ندی نالوں، جھیلوں اور سرسبز و شاداب وادیوں میں موڑ کاٹتی ٹرین کی کھڑکیوں سے خُوب صُورت مناظر سے لُطف اندوز ہوتے بچّے، بوڑھے، جوان، اسٹیشنز پر’’ چائے، سموسہ گرم‘‘ کی آوازیں، مشروبات کی بوتلوں کی کھنک، بھاگتے دوڑتے مسافروں کی دھکم پیل، ریلوے گارڈز کی مخصوص سیٹی اور جھنڈی…، درجنوں بوگیوں پر مشتمل ٹرین اپنے جلو میں گویا زندگی کی سیکڑوں رنگینیاں سمیٹے منزل کی طرف گام زن رہتی ہے۔ یہی ریل گاڑی دنیا کے 5 برّاعظموں میں روزانہ ایک ارب سے زائد مسافروں کو منزلِ مقصود تک پہنچاتی ہے، لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ سہانا اور خوش گوار سفر اَلم ناک انجام پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ 

جب تیز رفتار ٹرین اچانک پٹری سے اُتر جاتی ہے یا ایک ہی ٹریک پر کھڑی دوسری ٹرین سے ٹکرا جاتی ہے، تو چشمِ زدن میں خوش گپّیوں یا نیند کے مزے لینے والے مسافروں پر بس قیامت ہی ٹوٹ پڑتی ہے۔دنیا کا شاید ہی کوئی مُلک ایسا ہو، جہاں ریلوے حادثات نہ ہوتے ہوں۔ریلوے حادثات پر نظر رکھنے والی تنظیم، بی ٹی ایس کے مطابق، دنیا میں ہر سال ٹرینز کے پٹری سے اُترنے کے 2 ہزار سے زائد واقعات ہوتے ہیں، جن میں لگ بھگ ایک ہزار سے زائد اموات ہوتی ہیں، لیکن جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو یہ اس سلسلے میں بہت ہی بدقسمت واقع ہوا ہے، جہاں گزشتہ چار دہائیوں میں 15 سو سے زاید مسافر جاں بحق اور سیکڑوں اپاہج ہوچُکے ہیں۔ گویا ہر پانچویں، چھٹے دن کوئی نہ کوئی چھوٹا، بڑا حادثہ ضرور ہوتا ہے۔

برّ ِعظیم میں ریل راج

1814ء میں اسٹیفن سن کے بھاپ سے چلنے والے دنیا کے پہلے انجن کی سیٹی کی آواز گویا پوری دنیا میں سُنی گئی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ریل گاڑی ہر مُلک کی ضرورت بن گئی۔ شروع شروع میں اس کا مقابلہ بیل گاڑی یا گھوڑا گاڑی سے تھا، لیکن جب بس، کار اور ہوائی جہاز کی صُورت تیز ترین ذرائع آمد و رفت وجود میں آئے، تو ریل گاڑی نے بھی یہ چیلنج قبول کیا اور ڈھائی، تین سو کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلنے والی بلٹ ٹرینز نے ریلوے کے وقار پر آنچ نہ آنے دی۔ 

ریلوے نے برّ ِعظیم کے طرزِ زندگی اور تہذیب و ثقافت میں ایک خوش گوار انقلاب برپا کیا۔ آج پاکستان میں چلنے والی مسافر اور مال گاڑیوں میں اگر سالانہ ساڑھے6کروڑ افراد سفر کرتے ہیں، تو اس کے پیچھے ایک دل چسپ داستان کار فرما ہے۔کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے برّ ِعظیم کو’’انگریز راج‘‘ سے نہیں، بلکہ’’ ریل راج‘‘ سے فتح کیا۔ ریل کی آمد سے پہلے ہندوستان کا ہر شہر ایک جزیرے کی مانند تھا، جسے ریل نے باہم ملایا۔ ریل کا انجن جنوبی ایشیا کے باسیوں کے لیے ایک ’’اجنبی بَلا ‘‘ تھی اور بعض انگریز مصنّفین کا کہنا تھا کہ’’ لوگ کالے سیاہ، چنگھاڑتے انجن اور گاڑی دیکھ کر پاگل ہو جائیں گے اور ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف گائے، بھینسیں دودھ دینا چھوڑ دیں گی۔‘‘

لیکن اگر انگریز مشکلات کے باوجود برّ ِعظیم کے طول و عرض میں ریل کی پٹریاں بچھانے پر تُلے تھے، تو اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ فوجیوں کی نقل و حرکت میں تیزی لانے کے ساتھ یہاں سے لوٹی دولت لندن منتقل کرنا چاہتے تھے۔ ہندوستان میں 1853ء میں سب سے پہلے عوام کے لیے34 کلومیٹر لمبی ریلوے لائن کا آغاز ہوا۔ 

کراچی کی بندرگاہ کو ترجیحی بنیادوں پر ترقّی دینے اور وہاں سے اندرونِ سندھ اور شمال سرحدی علاقوں میں ریلوے لائن بچھانے کو اوّلیت دی گئی۔ چناں چہ 1861ء میں کراچی سے کوٹری تک پہلی مسافر گاڑی نے اپنا سفر مکمل کیا۔ 1897ء میں سبّی، کوئٹہ لائن بچھائی گئی، جب کہ اسی زمانے میں پنجاب ریلوے کے لیے ملتان سے لاہور اور امرتسر تک پٹری بچھائی گئی۔ 1861ء میں کراچی اور لاہور کے درمیان ریل کے ذریعے رابطہ استوار ہوگیا۔جب کہ 1857ء میں بننے والا کراچی کنٹونمنٹ ریلوے اسٹیشن، پاکستان کا سب سے پرانا ریلوے اسٹیشن شمار ہوتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد

قیامِ پاکستان سے پہلے برّ ِعظیم میں 1861ء میں’’ نارتھ ویسٹرن ریلوے‘‘ کی بنیاد رکھی گئی، جس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں بنایا گیا۔ اِس سے قبل بھی برٹش راج کے دَوران متعدّد کمپنیز سندھ اور پنجاب میں ریلوے لائنز بچھا رہی تھیں اور ان کا مقصد جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، عوام سے زیادہ برٹش افواج کو نقل و حرکت کی سہولتیں فراہم کرنا تھا۔ پاکستان بنا، تو ان کمپنیز اور ریلوے نظام کا بیش تر حصّہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں سِمٹ آیا۔یہاں ریولے لائنز چھوٹی اور بڑی گیج کی صورت کراچی سے طور خم، کوئٹہ اور سندھ کے چٹیل میدانوں سے پنجاب کی ہری بَھری وادیوں، کشمور اور اٹک تک پھیلی ہوئی تھیں، جن کی لمبائی7 ہزار کلومیٹر سے زاید تھی۔ 1974ء میں’’ پاکستان ویسٹرن ریلوے‘‘ کا نام بدل کر ’’پاکستان ریلوے‘‘ رکھا گیا۔

پاکستان میں ریلوے کے ابتدائی سال بہت اچھے اور خوش حالی میں گزرے، کیوں کہ اُس وقت اس کا مقابلہ بیل گاڑیوں اور کھٹارا بسز سے تھا۔ ریلوے کا سفر آرام دہ، محفوظ اور سستا تھا۔ یہاں تک کہ ریل کی سیٹی جلد ہی ادب کا استعارہ بن گئی اور ریل کے سفر کے حوالے سے نہ جانے کتنے ناولز اور افسانے لکھے گئے۔ ابتدائی برسوں (اور اب بھی) ریل گاڑی نے نہ معلوم پیار و محبّت کے کتنے رشتے استوار کر کے چاروں صوبوں کی تہذیب و ثقافت کو جِلا بخشی۔

یہ وہ زمانہ تھا، جب ریلوے منافع بخش ادارہ تھا اور550 انجنز کروڑوں مسافروں کی نقل و حرکت اور مال برداری میں مصروف تھے، لیکن پھر جب ریلوے کے مقابل ہوائی جہاز، جدید ترین سہولتوں سے آراستہ بسز، کاریں، ٹیکسیاں اور آمدورفت کے دیگر ذرائع ایک چیلنج بن کر سامنے آئے، تو ابتدا میں تو اس نے خُوب مقابلہ کیا، لیکن پھر آہستہ آہستہ ہتھیار ڈال دیئے۔ 400سے زاید اسٹیشنز پر محیط یہ ادارہ آج اربوں روپے کے خسارے کے ساتھ، ایک خستہ حال ادارہ بن چکا ہے۔ 

سپریم کورٹ اسے مُلک کا سب سے کرپٹ محکمہ کہہ چُکی ہے۔اگر دیکھا جائے، تو اِس تباہ حالی میں ان حُکم رانوں، وزیروں مشیروں اور اعلیٰ افسران کا ہاتھ ہے، جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں اسے کرپشن، ذاتی مفاد، ناقص منصوبہ بندی، نااہلی، بیڈ گورنینس، کمیشن اور سیاسی مداخلت کی بھینٹ چڑھایا، جب کہ ہم سایہ مُلک بھارت کو ریلوے سے ایک سال میں تقریباً 95 کھرب کی ریکارڈ آمدنی ہوئی، جس نے ساری دنیا کو حیران کردیا۔ ہمارا اسٹرکچر تو اس سے کم اور Manage able ہے، لیکن لگتا ہے کہ ہمارے حُکم رانوں کی نیّت صاف نہیں۔

زوال کا آغاز

1970ء تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ سینئر صحافی ندیم خان طویل عرصے سے ریلوے سے متعلق رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ 1967ء میں جاپان اور جرمنی سے ریل کاریں منگوائی گئیں، جو120کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے لاہور، راول پنڈی، پشاور، کندیاں، ماڑی انڈس، درگئی اور کوہاٹ کے رُوٹس پر چلتی رہیں۔ مسافروں کا اِس قدر رش تھا کہ تِل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی۔مگر یہ ریل کاریں رفتہ رفتہ ختم ہوتی گئیں اور اربابِ اختیار نے اُن کی جگہ کوئی متبادل انتظام کرنے کی زحمت گوارہ نہ کی اور یوں محکمہ پہلی بار ایک بڑی آمدنی سے محروم ہوگیا۔‘‘ 

اُنہوں نے مزید بتایا کہ’’ جب ریلوے میں بدنظمی، بیڈ گورنینس، کرپشن، کمیشن مافیا، ناقص پالیسیز اور وزراء کی مَن مانیاں بڑھیں، تو پھر اس کی حیثیت پہاڑ سے لڑھکتے پتھر کی مانند ہوگئی، جس کے گرنے کی رفتار ہر روز بڑھتی گئی۔ریلوے کے مختلف ادوار میں کم آمدنی اور خسارے کے حامل جن سیکشنز پر معروف گاڑیاں منظر سے غائب ہوئیں، اُن میں لاہور سے کراچی جانے والی عوام ایکسپریس، چلتن، اباسین، بہاء الدّین زکریاؒ ایکسپریس، پاک پتن، بلّھے شاہؒ، بولان، خوش حال خان خٹک، شاہین، شاہ شمس، سمہ سٹہ ایکسپریس اور کئی دوسری گاڑیاں شامل ہیں۔ 

اِسی طرح گُڈز ٹرینز بھی درجنوں سے کم ہو کر نصف درجن تک رہ گئی ہیں۔یعنی اِس وقت مُلک میں مال و اسباب کی نقل و حمل میں ریلوے کا حصّہ محض 4فی صد ہے۔ ریلوے حقیقی تباہی کا سفر بھٹّو دور میں شروع ہوا، جب ریلوے کا بجٹ علیٰحدہ کردیا گیا۔ پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں لیفٹیننٹ جنرل سعید قادر وزیرِ ریلوے مقرّر ہوئے، تو اُنہوں نے مال و اسباب کی نقل و حمل کا بیش تر کام این ایل سی کو منتقل کردیا، جس سے ریلوے کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تقریباً ختم ہوگیا۔ 

جنرل پرویز مشرّف کے دور میں ریلوے کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا، جب بے شمار فوجی افسران یہاں شاہانہ مراعات کے ساتھ تعیّنات کیے گئے اور ریلوے زمینوں پر سی این جی اسٹیشنز کے نام پر لُوٹ سیل لگی۔لاہور میں ریلوے کی ایک قیمتی زمین کو ہوٹل اور گالف کلب میں تبدیل کردیا گیا۔ اِسی طرح چِین کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت پاکستان میں ایک کروڑ12 لاکھ روپے میں تیار ہونے والے انجن کی بجائے، کِک بیکس اور کمیشن کے تحت 5کروڑ روپے میں چینی انجن خریدے گئے۔ غلط منصوبہ بندی سے رسال پور کی انجن فیکٹری، ورکشاپس بند اور ورکرز بے روزگار ہوگئے۔ 

پھر 2007ء پاکستان ریلوے پر بہت بھاری گزرا، جب بے نظیر بھٹّو کی شہادت کے بعد سندھ میں600کلومیٹر ٹریک،62ریلوے اسٹیشنز اور22انجن نذرِ آتش کر دیئے گئے۔ ریلوے کو مجموعی طور پر25 ارب روپے کا نقصان ہوا۔اس کے بعد غلام احمد بلور کی وزارت کا دور بھی ریلوے کے لیے کوہِ گراں ثابت ہوا۔ اُن کے آنے سے پہلے مسافر ٹرینز کے لیے192 اور مال گاڑیوں کے لیے197 انجنز دست یاب تھے اور جب اُنہوں نے وزارت چھوڑی، تو مسافر ٹرینز کے لیے100 اور مال گاڑیوں کے لیے صرف12 انجن باقی رہ گئے تھے۔ 99 انجن گندا اور غیر معیاری تیل ڈالنے سے خراب ہوئے۔

اِسی طرح لاہور میں ریلوے انجنز کے قبرستان میں چِین سے 2002ء میں خریدے گئے69 انجن بھی پڑے ہیں، جو وارنٹی ختم ہونے کے بعد دیکھ بھال نہ ہونے سے ناکارہ ہوئے۔‘‘ ندیم خان کے مطابق، 2011ء میں پرائیویٹ سیکٹر میں بزنس ٹرینز کے لیے جو معاہدے ہوئے، وہ بھی ناقص منصوبہ بندی اور حکّام کی نااہلی کی وجہ سے فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ 2013ء میں وزیرِ ریلوے، خواجہ سعد رفیق کے بعض اقدامات سے کچھ عرصے کے لیے ادارے میں بہتری کے آثار نمودار ہوئے، لیکن اُن کے ادھورے اقدامات بھی عملاً بے فائدہ رہے۔ 

تاہم، اپنے دوسرے دورِ وزارت میں اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اِس وقت90 مسافر ٹرینز چل رہی ہیں، جن کی تعداد 100 تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ بعدازاں، جب شیخ رشید اور اعظم سواتی وزیرِ ریلوے بنے، تو نہ صرف بہتری کے آثار ختم ہوگئے، بلکہ تنزّلی میں تیزی آگئی۔ان تین برسوں میں ریلوے کے سب سے زیادہ حادثات رپورٹ ہوئے۔یعنی135 حادثات ہوئے، جن میں75مسافر جاں بحق ہوئے۔ ان کے ادوار میں مبیّنہ طور پر غیر قانونی بھرتیوں کا کاروبار اور مالیاتی خسارہ بھی عروج پر رہا۔ وزیرِ ریلوے، شیخ رشید کے اس بیان کا بھی کافی چرچا رہا، جس میں انہوں نے پے در پے ریلوے حادثات پر استعفا دینے کے سوال پر کہا تھا کہ ’’مَیں استعفا کیوں دوں، گاڑی مَیں نہیں چلا رہا تھا‘‘۔

کرپشن کی گونج عدالتِ عظمیٰ تک جا پہنچی

پاکستان ریلوے میں کرپشن کی باتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں، لیکن 27 جنوری 2020ء کو پہلی مرتبہ اس کی گونج عدالتِ عظمیٰ میں بھی سُنائی دی، جب چیف جسٹس گلزار احمد نے، چیف جسٹس ثاقب نثار کے دَور میں دائر کیے گئے ایک مقدمے کی سماعت کے دَوران پاکستان ریلوے کو مُلک کا سب سے کرپٹ اور سیاست زدہ محکمہ قرار دیا۔

اُنھوں نے وزیرِ ریلوے، شیخ رشید کو بھی عدالت میں طلب کیا، اِس طرح وہ عدالت میں طلب کیے جانے والے پہلے وزیرِ ریلوے بن گئے، جب کہ اس سے قبل خواجہ سعد رفیق بھی ریلوے میں خسارے سے متعلق اپنا بیان ریکارڈ کروا چُکے تھے۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ’’ ریلوے میں کوئی چیز درست نہیں، ہر مسافر خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے، کسی شخص کو وزیر بننے سے قبل خود ریلوے کا سفر کرنا چاہیے، دنیا میں بلٹ ٹرینز چل رہی ہیں اور ہم پرانے زمانے کی ریلوے میں سفر کر رہے ہیں،یہاں تک کہ مال گاڑیاں بھی نہیں چل پا رہیں۔‘‘

افسر شاہی کی مَن مانیاں

ریلوے کے نصف لاکھ سے زائد محنت کشوں اور ورکرز کو ہمیشہ سے شکایت رہی ہے کہ محکمے میں ہر دَور میں افسران کی فوج ظفر موج بھرتی کی گئی، جب کہ ورکرز، جو 1985ء میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھے، اب 60ہزار رہ گئے ہیں۔ پرانے وقتوں میں ریلوے کا21 ویں گریڈ کا ایک جنرل منیجر تمام امور کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ آج 21, 20, 19, 18 اور 22ویں گریڈ کے درجنوں افسران لاکھوں روپے تن خواہ، الائونسز، شاہانہ سفری مراعات اور کئی کئی کنالوں پر محیط رہائش گاہوں سے فیض یاب ہورہے ہیں، جب کہ عام ورکرز کئی کئی ماہ کی تن خواہوں اور ریٹائرڈ ملازم پینشنز سے محروم ہیں۔ 

نچلے اور درمیانے درجے کے ملازمین کی اکثریت ڈربا نُما خستہ حال کوارٹرز میں رہتی ہے، جن کی کرایہ دینے کے باوجود دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔اِس ضمن میں ریلوے ملازمین نے گزشتہ ماہ کی24 تاریخ کو مُلک گیر احتجاج بھی کیا۔اکثر افسران کا شاہانہ سیلون میں لاہور سے راول پنڈی اور کراچی کا سفر معمول بن چُکا ہے۔ ایک افسر اور اس کی فیملی کے سیلون میں سفر کے دوران ریلوے سے وابستہ درمیانے درجے کے درجنوں افسران اور میکینک اسپیشل ڈیوٹی الاؤنس وصول کرتے ہیں۔ 

اگر سفر کرنے والا کوئی وزیر، مشیر ہو تو سیلون سے آگے پائلٹ انجن اور اس کے پیچھے ایک اضافی انجن بھی ہوتا ہے کہ اگر سیلون کا انجن فیل ہو جائے، تو اس کا متبادل انتظام موجود ہو۔ یہ اسپیشل ٹرین جہاں جہاں سے گزرتی ہے، وہاں ایک گھنٹہ پہلے ریلوے کا روٹین ورک روک دیا جاتا ہے، جب کہ ادھر عام مسافر گاڑیوں کا حال یہ ہے کہ کئی بار ڈیزل ختم ہونے سے گاڑی راستے ہی میں رُک جاتی ہے۔

پی ٹی آئی دورِ حکومت میں جب کورونا کی وجہ سے اکثر ٹرینز بند ہوگئیں، تو ایک وفاقی وزیرِ ریلوے، جنہیں سیلون میں سفر کا بے حد شوق تھا، لاہور کے لیے مال گاڑی کے ساتھ سیلون لگا دیتے، جو ساڑھے چار گھنٹے میں لاہور پہنچتی۔ اِس سفر پر دس سے پندرہ لاکھ خرچ ہو جاتا تھا، جب کہ موٹر وے پر یہی سفر دس، بارہ ہزار میں بھی ہوسکتا تھا۔

خسارے کی پیچیدگیاں

آٹھ ریجنل آپریٹنگ ڈویژنز اور درجنوں شعبوں پر مشتمل پاکستان ریلوے کی خسارے کی کہانی بہت طویل اور پیچیدہ ہے۔ ریلوے حکّام کم آمدنی اور زیادہ اخراجات کے فرق کو خسارہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر اُنہیں ملازمین کو تن خواہیں اور پینشنز نہ دینی پڑیں، تو ریلوے کا آپریشنل خسارہ کچھ بھی نہیں، جب کہ ریلوے کے نقّاد وفاقی حکومت کی طرف سے دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی کو بھی نقصان ہی سمجھتے ہیں۔ بہرحال، کچھ بھی ہو، پاکستان ریلوے وہ درخت ہے، جس پر ابتدائی چند برسوں کے بعد کبھی بہار نہیں آئی۔ ایک رپورٹ میں 2004ء سے حالیہ دنوں تک کے خسارے کی تفصیل کے مطابق،2004 ءمیں یہ خسارہ تقریباً 3ارب، 2006ء میں 9ارب، 2008ء میں 18ارب اور 2012ء میں 30ارب تک پہنچ چُکا تھا۔ 

خواجہ سعد رفیق کے دَور میں حالات قدرے بہتر ہوئے، لیکن پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سال میں یہ خسارہ مجموعی طور پر 150بلین، یعنی ڈیڑھ سو ارب تک پہنچ گیا اور اگر تمام ادوار میں آمدنی اور اخراجات کا حساب کتاب لگایا جائے، تو پھر بھی اوسط خسارہ 3سے5ارب سالانہ کے درمیان بنتا ہے، جو وفاقی حکومت سبسڈی یا گرانٹ کی صُورت پورا کرتی ہے، جب کہ حکومت خود قرضوں پر چل رہی ہے۔ ریلوے کی دگر گوں صُورتِ حال کا اندازہ 10جولائی 2023ء کو سینیٹ میں وزیرِ امورِ مملکت برائے قانون و انصاف، شہادت اعوان کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں اُنہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کے پہلے 6ماہ میں ریلوے کو 28.263ارب روپے کی آمدنی ہوئی، جب کہ اخراجات 53ارب روپے ہیں۔

یاد رہے، اِس رقم میں سے 35فی صد اخراجات پینشن اور 33فی صد تن خواہوں کی مد میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ اِسی اثناء وفاقی حکومت نے ریلوے کو 22ارب روپے کی سبسڈی دی۔ اِس طرح خالص خسارہ تقریباً3ارب رہا۔ تاہم، بلوچستان سے سینیٹ کے رُکن، دانش کمار نے ان اعداد و شمار سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ مجموعی نقصان 25ارب روپے ہے، کیوں کہ جو رقم گرانٹ میں دی گئی، اُسے بھی نقصان ہی سمجھنا چاہیے۔ 

تقریباً ہر دور میں دُہرائی جانے والی ایسی ہی داستان نے پاکستان ریلوے پر ’’سفید ہاتھی‘‘ کا لیبل چسپاں کر دیا ہے۔نیز،2021ء میں وزیرِ ریلوے، اعظم خان سواتی کا یہ بیان بھی ریکارڈ کا حصّہ ہے کہ پاکستان ریلوے کو گزشتہ 50 سال میں 1.2کھرب سے زائد کا خسارہ ہو چکا ہے اور اس رقم کا90 فی صد گزشتہ دو دہائیوں میں ہوا۔

کہاں تک سُنو گے…!!

ریلو ے کا خسارہ، افسران کی فوج ظفر موج اور عالمی معاہدوں میں کروڑوں روپے کے کمیشن ایسے عوامل ہیں، جن پر اکثر بحث کی جاتی ہے، لیکن دیگر بے شمار عوامل بھی اس بڑے ادارے کے زوال میں کار فرما ہیں، جیسے ریلوے ٹریک کی اب تر صُورتِ حال، مال گاڑیوں کی تعداد میں ریکارڈ کمی، ٹرینز کی آمد و رفت میں تاخیر، ریلوے پٹریوں کی چوری(خاص طور پر سندھ میں )، دورانِ سفر غیر معیاری کھانا، کمپیوٹر کے بغیر خریدی جانے والی ٹکٹس میں ہیرا پھیری، ملازمین کی کام چوری، جدید ذرائع آمد و رفت کے چیلنجز قبول کرنے کی صلاحیت کا فقدان وغیرہ۔ 

کسی بھی ذریعۂ آمدو رفت کا سب سے بڑا معیار وقت کی پابندی ہے، لیکن پاکستان ریلوے سے متعلق ایک عرصے تک یہ لطیفہ مشہور رہا کہ جب ایک بڑے شہر کے پلیٹ فارم پر گاڑی صبح 6بجے پہنچی، تو مسافروں نے کہا کہ’’ کمال ہوگیا، آج یہ عین وقت پر پہنچ گئی۔‘‘، لیکن بعد میں پتا چلا کہ یہ تو وہ گاڑی ہے، جسے کل آنا تھا اور آج 24 گھنٹے لیٹ پہنچی ہے۔ اِسی طرح ایک انجن ڈرائیور کا بہت چرچا رہا، جو راستے میں گاڑی روک کر گاؤں میں دہی لینے چلا گیا تھا۔ بہرکیف، جہاں تک تاخیر کا تعلق ہے، تو رواں برس جولائی میں قومی اسمبلی میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، 2022-23ء کے دوران پاکستان ریلوے کی مسافر گاڑیاں سال میں 18596 گھنٹے لیٹ ہوئیں، جس سے ہزاروں لیٹر اضافی ڈیزل خرچ ہوا۔ 

آمدو رفت کے اوقات کی پابندی کی شرح 59فی صد سے کم ہو کر 42فی صد رہ گئی۔ لیٹ ہونے کی ایک وجہ ریلوے ٹریکس کی خستہ حالی ہے، جس پر گاڑی کم رفتار سے چلانا پڑتی ہے۔ بی بی سی نے ایک مرتبہ اِن ٹریکس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ پاکستان ریلوے ڈرائیورز کا کمال یہ ہے کہ وہ گاڑی کو پٹری سے گرنے نہیں دیتے۔‘‘ پاکستان ریلوے مُلک بَھر میں پھیلی ایک لاکھ 78ہزار ایکڑ اراضی سے فائدہ نہیں اُٹھا رہی۔ اگرچہ ایک لاکھ سے زائد ایکڑ اس کے استعمال میں ہے، لیکن اس سے بہت کم کرایہ یا فائدہ ہو رہا ہے، جب کہ 25 سے 30 ہزار ایکڑ پر قبضہ ہے۔ گزشتہ ماہ قبضہ چھڑوانے کی ایک مہم پنجاب میں شروع ہو چکی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ بھارت کی طرح ریلوے کی زمینوں سے لینڈ مینجمنٹ اتھارٹی قائم کر کے سالانہ 15سے20ارب روپے کی آمدنی کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔ بے کار پڑی ان زمینوں پر بڑی بڑی کمپنیز کے اشتراک سے ہوٹل، پلازے اور مارکیٹس تعمیر کی جاسکتی ہیں۔

’’ ناشتا پشاور، لنچ کراچی‘‘

پاکستان ریلوے کے جو منصوبے غیر مؤثر یا تاخیر کا شکار ہوئے، ان میں ایک ایم ایل- وَن بھی ہے، جس کا شراکت دار چین ہے۔ اس نے 6ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھا۔ مسلم لیگ نون کے دورِ حکومت کا یہ منصوبہ، عمران خان کے دَور میں سیاست کی نذر ہوکر کھٹائی میں پڑ گیا، جس سے اس کی لاگت 10ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ اِس منصوبے کا مقصد ریلوے کے 18سو میل طویل مین ٹریک کی مرمّت اور اَپ گریڈنگ کر کے کراچی کو پشاور سے ملانا تھا۔ 

یہ چائنا، پاکستان اکنامک کوریڈور کا حصّہ ہے، جس کے افتتاح کے موقعے پر چین کے سفیر نے کہا تھا کہ ’’ہم ناشتا پشاور اور لنچ کراچی میں کریں گے۔‘‘ اگر یہ منصوبہ سیاست کی بھینٹ نہ چڑھے، تو یہ پاکستان ریلوے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا رُوٹ کراچی سے پشاور، براستہ حیدر آباد، نواب شاہ، روہڑی، رحیم یار خان، بہاول پور، خانیوال، ساہی وال، لاہور، گجرات اور راول پنڈی ہوگا۔ اور اس کے ذریعے سندھ میں ریلوے کا وہ ٹریک بھی تبدیل ہو جائے گا، جو حادثات کی وجہ سے’’ خونی ٹریک‘‘ کہلاتا ہے۔

نج کاری مسئلے کا حل نہیں، شیخ محمّد انور

ریلوے مزدور یونین کے مرکزی صدر، شیخ محمّد انور 1985ء میں ریلوے سے وابستہ ہوئے تھے۔ اُنہوں نے ریلوے کے نشیب و فراز کو قریب سے دیکھا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ ریلوے کی نج کاری مسئلے کا حل نہیں، اگر مختلف حکومتیں ریلوے سے سوتیلی ماں کا سا سلوک نہ کرتیں، تو آج یہ مرغی سونے کے انڈے دے رہی ہوتی۔ میرے ابتدائی دَور میں ریلوے ملازمین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب تھی، اب یہ تقریباً 60ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں، جب کہ اِسی دوران ہر حکومت کے وزراء گریڈ 19سے 22 تک افسران کی فوج ظفر موج بھرتی کر کے ڈوبتی کشتی پر بوجھ بڑھاتے رہے۔ 

ناقص حکمتِ عملی، کرپشن اور کِک بیکس والے اربوں روپے کے منصوبوں نے ریلوے کو کنگال کر دیا۔ دنیا کی تمام حکومتیں ریلوے جیسے عوامی بہبود کے اداروں کو گرانٹ یا سبسڈی دیتی ہیں، ہماری وفاقی حکومت بھی بادل نخواستہ منّتیں ترلّے کروا کے محدود گرانٹ دیتی ہے، جب کہ یہ ادارہ اپنے ریٹائرڈ ملازمین، افواجِ پاکستان، طلباء و طالبات، اسکاؤٹس، بزرگوں اورصحافیوں کو بارعایت ٹکٹ کی سہولت دیتا ہے۔ ماہرین ہمیشہ اس کے خسارے کو ڈسکس کرتے ہیں، لیکن ریلوے کے کارپردازوں کی غلطیاں کبھی زیرِ بحث نہیں لائی جاتیں۔ 

مال بردار ٹرینز کسی بھی مُلک کی ریلوے کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتی ہیں، ہمارے یہاں کسی زمانے میں سیکڑوں فریٹ ٹرینز چلتی تھیں، اب ان کی تعداد 10سے بھی کم رہ گئی ہے، جب کہ مسافر گاڑیوں کی تعداد بھی سیکڑوں کی بجائے صرف 30 کے قریب ہے۔کیا اس ناقص حکمتِ عملی کے ذمّے دار بھی عام ورکرز ہیں، جو کئی کئی ماہ کی تن خواہوں سے محروم ہیں۔ اِسی طرح پرائیویٹ سیکٹر میں بزنس ٹرینز چلانے کا منصوبہ، افسران کی نا اہلی سے فلاپ ہوا۔ دراصل، ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر زمینی حقائق کے برخلاف جو معاہدے یا منصوبے بنتے ہیں، ان کا ریلوے کے عام مسافروں کی فلاح وبہبود سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، جو روزانہ اذیّت ناک سفر سے دو چار ہوتے ہیں یا دورانِ سفر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔‘‘

اُنہوں نے ریلوے کی بحالی کے لیے تجاویز پیش کیں کہ:٭پاکستان ریلوے کی بحالی کے لیے وفاقی حکومت 100ارب روپے کا بیل آئوٹ پیکیج دے۔٭ پینشن اور تن خواہوں کی ذمّے داری وفاقی حکومت خود اُٹھائے۔٭ رسال پور فیکٹری میں پرانے انجنز کی مرمّت اور نئے انجنز کی تیاری کا کام شروع کیا جائے۔٭مال و اسباب کی نقل و حمل کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ریلوے یہ کام خُود کرے۔٭ریلوے بورڈ بحال کیا جائے۔٭ مغل پورہ ریلوے کی اسٹیل اسٹاپ اَپ گریڈ کی جائے۔٭گوادر پورٹ کو ریل کے ذریعے ایشیائی ریاستوں سے ملایا جائے۔٭احتساب کا نظام قائم کیا جائے تاکہ ریلوے کو نقصان پہنچانے والے افسران اور دیگر ملازمین کو قرار واقعی سزا مل سکے۔٭ ریلوے ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی جائے، جو ریلوے کی زمینیں قبضہ مافیا سے چھڑوائے اور اُنہیں کام میں لا کر سالانہ 20سے25ارب روپے آمدنی کا ہدف پورا کرے۔٭پہلے کی طرح ریلوے کے علیٰحدہ بجٹ کا اعلان کیا جائے۔٭ریلوے حادثات پر عدالتی کمیشن بنایا جائے اور ذمّے داری ڈرائیورز پر ڈالنے کی بجائے اصل ملزمان بے نقاب کیے جائیں۔

ریل کا سفر... کتابوں کی زبانی

ریل کا سفر، دنیا بَھر میں فلمز اور شعرو ادب کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اردو ادب میں بھی بہت سے ادیبوں نے اِس موضوع پر قلم اُٹھایا، جن میں بی بی سی اردو کے رضا علی عابدی کی ’’ریل کہانی‘‘ کو بہت شہرت ملی۔ ان کے علاوہ، محمّد حسن معراج کی ’’ریل کی سیٹی‘‘ اور فضل الرحمٰن قاضی کی ’’روداد ریل کی‘‘ بھی دل چسپی سے پڑھی گئی۔ رضا علی عابدی کی کتاب میں کوئٹہ سے کلکتہ کے سفر کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ اُن کی کتاب کے کئی مندرجات اور ریل کے سفر کے کئی پہلو قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں ’’جب سے ریل گاڑی چلی ہے، لوگ اپنی بیٹیوں کو دُور دُور بیاہنے لگے ہیں۔ 

ریل کے ڈبّے میں داخل ہوتے ہی نہ صرف احساس بدلتا ہے، بلکہ احساس کا مالک بھی بدل جاتا ہے۔ ریل کے ڈبّے میں برابر بیٹھے مسافروں کی علیک سلیک، بعض اوقات زندگی کے گہرے مراسم میں بدل جاتی ہے۔ عُمر بَھر کی دوستیاں ہو جاتی ہیں اور خدا جانے کتنی شادیاں اور کتنے رشتے اِنہی ریل گاڑیوں میں طے ہوتے ہوں گے۔ یہ کام کسی ہوائی جہاز، بس، ٹیکسی یا رکشے میں نہیں ہوسکتا۔‘‘ رضا علی عابدی نے سکھر سے24 کلو میٹر دُور ایک ایسے گم نام اور بُھولے بسرے اسٹیشن ’’رک‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے، جہاں پورے برّ ِعظیم سے مسافر آیا کرتے اور اس اسٹیشن سے ہو کر قندھار، کابل، وسطی ایشیا اور یورپ جایا کرتے۔

رضا علی عابدی نے کتاب میں اُن گُم نام، غریب مزدوروں کا بھی ذکر کیا ہے، جو ریل کی پٹریاں بچھاتے ہوئے تپتی دھوپ، کڑاکے کی سردی، برستی بارش اور ناقص خوراک پر گزارہ کرتے، ہول ناک بیماریوں کی تباہ کاریاں جھیلتے، رات دن اپنے سَروں پر مٹّی کی ٹوکریاں ڈھوتے خود بھی مٹّی ہوگئے۔ اُن کے نام اور تصویریں کہیں موجود نہیں۔ محمّد حسن معراج کے والد ریلوے میں تھے۔کوئٹہ میں پیدا ہوئے اور ریل کے ساتھ24سال گزارے۔ وہ ’’ریل کی سیٹی‘‘ میں لکھتے ہیں’’ریل کی سیٹی کی آواز، دخانی انجن کا دھواں، انجن کی دھمک اور چھک چھک کی موسیقیت کے ساتھ گزشتہ کئی نسلوں کی زندگی جُڑی ہوئی ہے۔ 

خوشی اور غم کی کوئی یاد ہو یا کاروباری اور تفریحی سفر کی بات، دھرتی کے سینے سے چمٹی یہ دو آہنی لکیریں (پٹریاں) محض رستہ نہیں، ایک بھرپور معنویت کے ساتھ زندگی اور ترقّی کا استعارہ بھی ہیں، لیکن ہمارے ہاں اب ریل ماضی کا ایسا بوسیدہ نشان بن کر رہ گئی ہے کہ چاہے تو اس پر ماتم کرلیجیے یا سینے سے لگا کر فخر، لیکن مستقبل کا کوئی خوش کُن منظر، چشمِ تصوّر میں نہیں آئے گا‘‘۔

مسافروں کی حفاظت ہماری اوّلین ترجیح ہے،ترجمان پاکستان ریلوے

وزارتِ ریلوے کے ترجمان، بابر علی رضا نے مختلف سوالات کے جواب میں کہا کہ’’ پاکستان ریلوے کا عام طور پر جو خسارہ ظاہر کیا جاتا ہے، وہ اِس لیے نظر آتا ہے کہ ہم اُن چند اداروں میں سے ہیں، جو خود کماتے ہیں اور اُسی کمائی میں سے تن خواہیں اور پینشنز وغیرہ بھی ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم صرف آپریشنل کاسٹ دیکھیں، تو اس اعتبار سے ہم کبھی آپریشنل خسارے میں نہیں رہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بجٹ کا67فی صد تن خواہوں اور پینشن کی مد میں خرچ ہو جاتا ہے، جو ہمارا نقصان بن کر سامنے آتا ہے۔ 

اگر 100میں سے 67فی صد اس پر لگا رہے ہیں، تو باقی 30فی صد میں سے ایندھن لینا ہے، ٹریک اور گاڑیوں کی دیکھ بھال کرنی ہے، یعنی پورا نیٹ ورک چلانا ہے۔ اس وجہ سے تھوڑے بہت مسائل بھی ہوتے ہیں۔ جہاں تک حادثات کا تعلق ہے، اگر آپ پچھلے 10سال کا جائزہ لیں، تو 2017ء،2018ءاور2019ء میں شاید یہ شرح قدرے زیادہ تھی، البتہ اب اس میں کمی آرہی ہے۔ جہاں ٹریک کی حالت خراب ہے، وہاں 120میل فی گھنٹے کی بجائے کم رفتار سے گاڑی چلانے کی ہدایت کی جاتی ہے، جس سے تاخیر بھی ہوتی ہے، لیکن ہماری پہلی ترجیح مسافروں کی حفاظت ہے۔ 

ٹریک کی انسپیکشن بھی باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ ایک چیز ہم عوام کے نوٹس میں بھی لانا چاہیں گے کہ گزشتہ سیلاب میں ریلوے نیٹ ورک کو سوا پانچ سو ارب کا نقصان ہوا، لیکن پاکستان ریلوے نے 40دنوں میں نیٹ ورک بحال کر دیا۔ کوئی دوسرا ادارہ ہوتا، تو شاید اِس قدر جلد بحالی ممکن نہ ہوتی۔‘‘مال گاڑیوں کی تعداد میں کمی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ’’کورونا کے دنوں میں ٹرانسپورٹیشن میں شدید کمی آگئی تھی۔ مُلکی اور عالمی تجارت بھی کم ہو گئی تھی۔

پھر کورونا کے بعد بھی مُلکی اقتصادی صُورتِ حال بہتر نہ ہو سکی، ایل سیز کُھلنا بند ہو گئیں۔اِس لیے کراچی سے مال گاڑیوں سے مال و اسباب کی نقل و حمل کو شدید دھچکا لگا، جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔نیز، بیرونِ ممالک گورنمنٹ سیکٹر کی ٹرانسپورٹیشن ریل کے ذریعے ہوتی ہے، مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔ جہاں تک سبسڈی کا تعلق ہے، تو ہمیں وفاقی حکومت کی طرف سے جو بجٹ ملتا ہے، اسی کو سبسڈی کا نام دیا جاتا ہے، علیٰحدہ سے کوئی رقم نہیں ملتی۔‘‘

انگریز دَورکا گولا سسٹم

کیا آپ یقین کریں گے کہ گاڑیوں کی آمدورفت کے حوالے سے انجن ڈرائیورز کو کلیئرنس دینے کا 100سالہ پرانا انگریز دور کا گولا سسٹم آج بھی پاکستان ریلوے کے بعض سیکشنز پر کام کر رہا ہے۔ان سیکشنز میں ٹیکسلا سے پشاور اور لالہ موسیٰ، سرگودھا، ملکوال، اٹک، جند، سبال اور سندھ میں حیدر آباد اور میرپور خاص شامل ہیں۔اِس نظام کے تحت اسٹیشن ماسٹر ایک گولا ٹرین ڈرائیور کو دیتا ہے اور ڈرائیور اگلے اسٹیشن پر پہنچ کر یہ گولا دوسرے اسٹیشن ماسٹر کے حوالے کرتا ہے، جب کہ مخالف سمت سے آنے والی گاڑی یہی ٹوکن لے کر وہا ں سے روانہ ہوتی ہے۔ 

اِس ٹوکن یا گولے سے ڈرائیور کو یقین ہو جاتا ہے کہ ٹریک کلیئر ہے اور اس پر دوسری سمت سے کوئی گاڑی نہیں آرہی۔ جب تک یہ گولا اسٹیشن پر نہیں پہنچتا، دوسری طرف سے آنے والی ٹرین وہاں سے روانہ نہیں کی جاتی۔ جدید ترین کمیونی کیشن دَور میں یہ گولا سسٹم ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس وقت کمپیوٹرائزڈ سگنل سسٹم بھی صرف مین لائن پر ہے، جب کہ باقی سیکشنز مینول طریقے سے کام کرتے ہیں، جس سے انسانی غلطی کا احتمال رہتا ہے۔

الٹی بوگیاں، خون آلود پٹریاں…پاکستان ریلوے کے چند بڑے حادثات

اگرچہ’’پاکستان ریلوے‘‘ کے آغاز کے ساتھ ہی حادثات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور جُوں جُوں وقت گزرتا رہا، کرپشن، بیڈ گورنینس اور دیگر وجوہ کی بنا پر ان میں تیزی آتی گئی۔تمام حادثات کے ذکر کے لیے تو ایک دفتر چاہیے، لیکن بڑے حادثات بھی کم نہیں، جن میں ہزاروں مسافر منزلِ مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی شدید زخمی ہوئے یا پھر ابدی منزل ہی کی طرف روانہ ہوگئے۔

٭ 25 ستمبر 1957ء: یہ پاکستان ریلوے کی تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ سمجھا جاتا ہے، جس میں 300 مسافر جاں بحق اور 150 زخمی ہوئے۔ حادثہ اُس وقت پیش آیا، جب سگنل خراب ہونے کی وجہ سے اوکاڑہ کے نزیک، گیمبر ریلوے اسٹیشن پر کراچی جانے والی مسافر گاڑی اسٹیشن پہ پہلے سے کھڑے آئل ٹینکر سے پوری رفتار سے جا ٹکرائی۔٭ 20ستمبر 2003ء: ملک وال کے نزدیک ایک ٹرین بس سے ٹکرا گئی، 128 افراد ہلاک ہوئے۔٭13 جولائی 2005ء سکھر سے 50 کلو میٹر دُور، سرحد ریلوے اسٹیشن پر3 مسافر گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں، جس کے نتیجے میں130 مسافر جاں بحق ہوئے۔

٭ 19دسمبر 2007ء:نوشہرو فیروز کے نزدیک محراب پور پر کراچی ایکسپریس پٹری سے اُتر گئی، 50 افراد جاں بحق،200 سے زاید زخمی ہوئے۔ ٭ 3نومبر 2009ء: علّامہ اقبال ایکسپریس کراچی میں مال بردار گاڑی سے ٹکرا گئی،18 افراد جاں بحق ہوئے۔٭ 11نومبر 2014ء: خیر پور میں ٹھیڑی بائی پاس کے نزدیک مسافر گاڑی ٹرک سے ٹکرا گئی، 58افراد جاں بحق ہوگئے۔٭ 2جولائی 2015ء: گوجرانوالہ کے نزدیک ریلوے پُل گرنے سے ایک خصوصی ٹرین کی 3 بوگیاں اُلٹ گئیں، جن میں فوجی جوان سوار تھے،19 افراد جاں بحق ہوگئے۔

٭17 نومبر 2015ء: کوئٹہ سے راول پنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس پٹری سے اُتر گئی،19مسافر جاں بحق ہوئے۔٭ 3نومبر 2016ء: کراچی میں لانڈھی ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ملتان جانے والی زکریا ایکسپریس فرید ایکسپریس سے ٹکرا گئی،22 افراد جاں بحق،40زخمی ہوئے۔٭ 6جون 2017ء: لودھراں ضلع میں کُھلے کراسنگ پر گاڑی نے دو رکشوں کو کُچل دیا، جس سے اسکول جانے والے7بچّے جاں بحق ہوگئے۔٭11 جولائی 2019ء: کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس صادق آباد کے نزدیک ولہر ریلوے اسٹیشن پر مال گاڑی کے عقب سے جا ٹکرائی،21 مسافر جاں بحق، 85 زخمی ہوئے۔

٭31 اکتوبر 2019ء: رحیم یار خان کے نزدیک راول پنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس کی تین بوگیوں میں آگ بھڑک اُٹھی،74 مسافر جل کر جاں بحق ہوگئے، 40شدید زخمی ہوئے۔٭28 فروری 2020ء: کُھلے ریلوے کراسنگ پر ایک بس کراچی سے لاہور جانے والی پاکستان ایکسپریس کی زَد میں آگئی،19 افراد جاں بحق،30 زخمی ہوئے۔٭ 3جولائی 2020ء: شیخوپورہ کے نزدیک30 مسافروں کو لے جانے والی ایک کوسٹر شاہ حسین ایکسپریس کی زَد میں آگئی، جس میں19سِکھ یاتری بھی سوار تھے، 20مسافر ہلاک ہوئے۔٭ 7جون 2021ء: گھوٹکی (سندھ) کے نزدیک دو مسافر ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں،32 افراد ہلاک،64زخمی ہوئے۔٭ 6اگست 2023ء:نواب شاہ میں سہارا ریلوے اسٹیشن پر ہزارہ ایکسپریس کی کئی بوگیاں ریلوےلائن کی فِش پلیٹس نہ ہونے سے اُلٹ گئیں، 35افراد جاں بحق،100 سے زاید زخمی ہوگئے۔

یہ چند بڑے حادثات کی جھلکیاں ہیں، ورنہ ایسے حادثات تو درجنوں میں ہیں، جن میں جانی نقصان 5،10 افراد کی ہلاکت تک محدود رہا۔ریکارڈ کے مطابق یہ حادثات 2002ء، 2003ء،2006، 2011، 2013، 2014، 2015، 2016، 2017، 2018، 2019ء میں وقوع پذیر ہوئے۔ حیرت کی بات ہے کہ کسی وزیرِ ریلوے نے ان چھوٹے، بڑے حادثات کی ذمّے داری قبول کرتے ہوئے کبھی استعفا نہیں دیا اور یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اکثر حادثات صوبہ سندھ میں ہوئے۔