• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فائز عیسیٰ سے توقعات، کیونکہ انہیں اپنے رب اور آئین کا خوف ہے

ماضی کا مورخ ’’طرز انصاف‘‘ کی کیا تاریخ لکھے گا؟ کیا یہ لکھے گا کہ عدل کا یہ قلعہ کسی ایک گروپ یا گروہ کے تحفظ اور خوشنودی کے لئے قائم تھا۔اس مخصوص گروپ کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست کو’’ہدائت‘‘ تصور کر کے اس پر عمل درآمد کیا جاتا اور اپنے اہلخانہ کی جانب سےتحسین اور محبوب قائد سے داد کے پیغام وصول کیا جاتا۔یہ وہ ’’طرز عدل‘‘ تھا جس میں کسی غلط بات کو ’’درست‘‘قرار دینے کے لئے کسی دلیل یا وکیل کی ضرورت محسوس ہوتی تھی بلکہ ’’منصب عدل‘‘سے ہی فرد واحد کی وکالت ہوتی تھی اور جب ’’منصب عدل‘‘ہی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی دلیل سے عاری ہو تو یہ تصور کر لیا جاتا کہ’’کیا معلوم جھوٹ کے اس پیامبر نے حکمنامہ دیکھا ہی نہ ہو جو اسے عدالت میں پیش ہوکر اپنی صفائی دینے کے لئے بھیجا گیا تھا‘‘۔ اور عدل کے اس سیاہ دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب’’حاکم عدل‘‘ نے اپنے محبوب کی گرفتاری کے بعد تین راتیں گزارنے کے لئے جیل کی بجائے پر تعیش سرکاری ریسٹ ہاؤس میں بھیجنے کا حکم صادر فرمایا اور انتظامیہ کو ہدائت کی کہ عمران خان سے ملنے والوں کی حد نہیں البتہ عمران خان کی خواہش کے مطابق دس سے زائد ملاقاتی رات کو بھی ان کے ساتھ قیام کرسکتے ہیں۔ان کے کھانے پینے کا بندوبست ان کی منشاء کے مطابق باہر سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت سابق چیف جسٹس کا سورج ’’سوا نیزے‘‘پر تھا اورکسی کی جرات نہیں تھی کہ ان سے سوال کرے کہ کیا تمام مراعات صرف عمران خان کے لئے ہی ہیں یا کوئی اور بھی ان ’’عنایات‘‘کا مستحق ہو سکتا ہے۔کہتے ہیں کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ انصاف رب کریم کی بنیادی صفات میں سے ہے اور عدل کے پیمانے پر پورا نہ اترنے والی رب تعالیٰ کی برگزیدہ ہستیاں بھی اس کے حضور جوابدہ ہوں گی لیکن انہوں نے عمران خان کےلئے آئین،قانون اور انصاف کو کچل کر رکھ دیا اور اپنی عاقبت پر سوالیہ نشان چھوڑ دئیے،کیا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے لئے اللّٰہ رب العزت کے روبرو جوابدہ نہیں ہوں گے؟ ملک کے تمام مکاتب فکر کے لوگوں میں کوئی ایک فرد یا طبقہ بھی ایسا نہیں جو ماضی کی رائج کی جانے والی ’’طرز انصاف‘‘ کی تائید و توصیف میں ایک بھی جملہ کہہ سکے۔آج کل سابق چیف جسٹس عمرعطابندیال اور سپریم کورٹ کے معتبر صحافی عبدالقیوم صدیقی کے درمیان ہونے والے ایک مکالمہ کی وڈیو وائرل ہے جس میں سابق چیف جسٹس صحافی کو سیلفی بنانے کی دعوت دیتے ہیں لیکن قیوم صدیقی ان کی یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آپ دھڑے کے ہی تو ہم بھی اپنا نظریہ اورسوچ رکھتے ہیں جس پر سابق چیف جسٹس نے یہ کہہ کر ایک تنازعہ کھڑا کر دیا کہ ہیں آپ کا تعلق’’ککے زئی ‘‘ قبیلہ سے تو نہیں؟جناب سابق چیف جسٹس!آپ کے عروج کا سورج تو غروب ہوگیا لیکن آپ کے پیچھے گھپ اندھیرے چھوڑ گیا جہاں روشنی کی کوئی رمق باقی نہیں۔سابق چیف جسٹس نے جاتے جاتے اپنے ایک خطاب میں افسردہ لہجے میں خود کو غروب ہوتا ہوا سورج قرار دیا اوراس توقع کا اظہار نہیں کیا آنے والے منصف ان کی قائم کی گئی ’’روایات‘‘کو آگے بڑھائیں گے بلکہ شائد اپنے دور میں کئے جانے والے’’انصاف‘‘ پر افسردگی ظاہر کی ہے کہ ان کی ’’قومی خدمات‘‘ کا اعتراف نہیں کیا گیا اور انہیں فل کورٹ ریفرنس کے بغیر رخصت کر دیا گیا۔انصاف کے تمام اقدار، اصول اور ضابطے بالائے طاق رکھ کر رب العالمین انصاف کے حوالے سے احکامات کو رد کئے اور ’’اپنی سیاسی جماعت‘‘ کی مرضی کے فیصلے کرتے ہوئے ’’جوڈیشل مارشل لاء‘‘ کے نفاذ کا عملی مظاہرہ کیا؟ اپنے راستے کے کانٹے ہٹانے کے لئے غیر اخلاقی اور غیرآئینی اقدام کئے اور صدرمملکت کی جانب سے موجودہ چیف جسٹس کے خلاف آئینی ریفرنس کی پذیرائی کی۔حلف برداری کی تقریب کے دوران کیا بنا ریفرنس دائر کرنے والوں کا؟ لیکن کم از کم شرمندگی ضرور محسوس ہونی چاہئےتھی جب انہوں اپنی اہلیہ کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے حلف اتھایا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے آتے کئی اچھی روایات قائم کیں جو ان کی ماضی کی روایات کا تسلسل ہیں۔اب عدل کے حصول کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے والوں کی دعائیں ہیں کہ رب کریم انہیں انصاف کی سربلندی کی ہمت، حوصلہ اور طاقت عطا فرمائے اور انہیں سچ اور جھوٹ کو پہچاننے کی روحانی طاقت عطا کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین