• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ دوستوں کے ساتھ ٹیلی وژن پر نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقریب حلف برداری دیکھتے ہوئے ہم سب کا اتفاق تھا یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔

بیرون ملک مقیم دوستوں نے سوال کیاکہ واقعی یہ ایوان صدر ہے؟ جہاں بانیان پاکستان کے ایک فرزند قاضی فائز عیسیٰ ولد قاضی محمد عیسیٰ دست راست بابائے قوم محمد علی جناح و رہبر تحریک پاکستان نے بطور چیف جسٹس تقریب میں موجود اپنی اہلیہ محترمہ سرینا عیسیٰ صاحبہ کو اپنے ساتھ کھڑا کرلیا اور دل میں کہا کہ اس حلف کی پاسداری کی تم گواہ رہنا۔تم سے بڑھ کر میرے پایہ استقلال سے کوئی واقف نہیں یہ منظر دو جسم یک جان کی عکاسی کر رہا تھا۔اس گفتگو کے دوران اپنے محترم والد مرحوم محمد اسحاق مسرور کا برسوں پہلے سنایا ہوا ایک سبق آموز واقعہ میرے خیالوں میں گونج رہا تھا۔

والد صاحب بابا جی سرکار فرماتے تھے کہ ہم چار بھائی حصول تعلیم کیلئے امرتسر میں ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھتے تھے پرنسپل لال جگدیو سنگھ کی زیر نگرانی یہ ادارہ چل رہا تھا۔برصغیر کے حالات اس وقت بہت خراب ہوگے ہم اپنے ذاتی گھر جو ضلع امرتسر میں واقع تھا کو تالا لگا کر ایک طویل، مشکل، کٹھن دشوار سفر کے بعد والٹن لاہور پہنچے اور جب ہم اپنے آبائی گائوں کھواڑی شریف ضلع مانسہرہ پہنچے تو پتہ چلا کہ یہاں تو ہمارے چہلم کی دعا بھی ہو گئی ۔ اطلاع تھی کہ امرتسر ضلع پاکستان کا حصہ ہو گا یہ اعلان خود فریبی ہی تھا، پاکستان بن گیا پہلا اعلان ہم نے والٹن لاہور پہنچ کرسنا یہ ریڈیو پاکستان ہے۔برصغیر بٹوارہ یعنی تقسیم ہند سے پہلے ہمارے ضلع مانسہرہ کے بہت لوگ ممبئی میں کاروبار کرتے تھے انہی میں سے ایک سید زادہ آف گائوں ٹالی شیر بائی بھی ممبئی میں مقیم تھے۔ شاہ صاحب کو ہجرت کے وقت ایک کم عمر ہندو گھرانے کا لاوارث بچہ ملا جس کا خاندان (والدین )اس بچے کو چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں چلا گیا تھا۔اس لاوارث بچے کو شاہ صاحب اپنے ساتھ انسانی ہمدردی کےتحت پاکستان لے آئے ۔اس لاوارث بچے کو نہ صرف اچھی تعلیم دلوائی بہترین پرورش کی بلکہ ولدیت کے خانہ میں اپنا نام بھی لکھوا دیا۔یہ لاوارث بچہ پڑھ لکھ گیا شاہ صاحب نے اس کی شادی ایک غریب مگر خاندانی گھرانہ میں کروا دی جس سے ایک بیٹا پیدا ہوا اب یہ بچہ شیخ اختر حصول روزگار کیلئے کراچی آگیا۔جبکہ گائوں میں اس کی بیوی مال مویشی، کھیتی باڑی کرکے اپنے بچے کو سنبھال رہی تھی اس امید پر کہ اس کا خاوند ایک دن کراچی میں محنت مزدوری کرکے گھر کے حالات بہتر کرلے گا۔ شیخ صاحب کو کراچی سے جرمنی جانے کا موقع ملا جہاں قسمت ان پر مہربان ہوگئی وہ مختصر عرصہ میں مالدار ہوگئے دولت کی ریل پیل اب ان کو مجبور کر رہی تھی کہ ان کا اسٹیٹس بدل جائے۔گائوں والی بیوی اب ان کے ساتھ سوسائٹی میں سجے گی نہیں۔ شیخ صاحب کی طرف سے اس غریب لاچار خاتون کو منی آرڈر آتا رہا مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔جرمنی میں موجود یہ لاوارث شیخ ،سیٹھ صاحب کے نام سے مشہور ہو گیا وہاں اس کے ارد گرد چاپلوس، خودغرض اور موقع پرست لوگوں نے سیٹھ صاحب کو اپنے جال میں پھنسا لیا اور شیخ صاحب کی خواہش پر ان کی شادی لاہور میں ایک شہری لڑکی سے کرا دی۔اس لڑکی میں شیخ صاحب کیلئے تمام اوصاف موجود تھے مگر وفا کے پہلو سے شیخ صاحب بے خبر رہے۔سیٹھ شیخ صاحب نے اپنی مالی وضع قطع کے مطابق شادی رچالی اور بھول گئے کہ مشکل وقت میں ساتھ دینے والی ان کی پہلی بیوی اور بچہ بے قرار نگاہوں سے شیخ صاحب کے منتظر ہیں۔منی آرڈر کا سلسلہ بند ہونے اور طویل جدائی پر گائوں والی یہ سوچ رہی تھی کہ اس کا خاوند مر گیا ہے یا ایک بار پھر تقسیم ہند کے غدر کی طرح کھوگیا۔

گائوں والی غربت زدہ بیوی جیسے تیسے کرکے اپنے اور اپنے بیٹے کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہی تھی جب کہ شیخ صاحب کی دوسری بیوی سے اولاد کی تعداد چارتک پہنچ چکی تھی اب سیٹھ صاحب تمام جائیداد، مال ومتاع دوسری بیوی کے نام کرکے یہ بھول گئے کہ گائوں والی بیوی اور بیٹا بھی وارث ہیں۔اسی دوران شیخ صاحب جرمنی سے جب لاہور آئے اور خواہش ظاہر کی کہ اب میں ریٹائرڈ لائف آپ لوگوں کے ساتھ گزاروںگا مگر ایک صبح شیخ صاحب کو پتہ چلا کہ ان کی دستاویزات (پاسپورٹ وغیرہ ) نئی بیوی نے جلا دی ہیں۔شیخ صاحب کو جرمنی جانے سے روک دیا گیا وہ تمام جائیداد اور دولت کی مالک بن گئی اور تضحیک آمیز رویے سے اپنے خاوند کو گھر سے بے گھر کر دیا ۔

اب بے بس لاچار سیٹھ شیخ صاحب کے پاس جیب میں اتنی رقم تھی جو ان کو لاہور کے ریلوے اسٹیشن سے گائوں پہنچا سکتی تھی۔سیٹھ صاحب ایک طویل عرصہ کے بعد اپنے گائوں اپنی بیوی کے ملکیتی گھر پہنچے ۔شیخ صاحب نے دروازے پر دستک دی گھر کےصحن میں لگے تنور سے نکلنے والے دھوئیں سے ایک سایہ باہر نکل کر آیا اس عورت کی نظر طویل عرصہ سے جدا خاوند پر پڑی وہ وقت کے تمام جدائی کے غم، دکھ تکلیف اور مشکلات ایک لمحہ میں بھول گئی اور بولی میرے رب نے میری دعاسن لی میرے صبر نے مراد پالی ،مجھے یقین تھا آپ ایک دن زندہ سلامت کراچی سے واپس آئیں گے۔اب شیخ صاحب کی محبت پروری نے بیٹے کو دیکھنے کی خواہش کی بیوی نے کہا وہ کراچی میں ایک سرکاری دفتر میں نوکری کر رہا ہے بابو بن گیا ہے میں نے محدود مگر حلال وسائل سے اسے اچھی تعلیم دی وہ آپ کی تلاش میں کراچی گیا آپ تو اسے نہ ملے مگر اس کو نوکری مل گئی ۔قصہ مختصر نوے کی دہائی میں شیخ صاحب دنیا فانی سے کوچ کرگئے اور وفاداروں کی سرزمین نے انہیں اپنے سینے سے لگا لیا۔ان کی قبر اسی آنگن میں بنی جسے بھلا کر وہ برتر اور بہتر زندگی کی چکاچوند میں گم ہو گئے تھے۔آج ان کی عمر رسیدہ، وفاکی پیکر، پہلی محبت ،بخشش کی دعا کرتی ہے ۔

ہاں عورت کی وفا کمال کی ہوتی ہے مگر قاضی فائز عیسیٰ صاحب آپ نے کمال کر دکھایا ہے ۔واقعی آپ کی اہلیہ محترمہ اس عزت کی حقدار ہیں کیا اوصاف پائے ہیں محترمہ سرینا فائز عیسیٰ صاحبہ کس باپ کی بیٹی ہیں، کس ماں کی گود میں پرورش پائی، ماضی میں اپنے ہاتھ میں کمزور سی چھڑی کے سہارے تمام دن عدالتوں میں، ایف بی آر، ایف آئی اے کے دفتر میں اپنے اور اپنے خاوند کی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے انتہائی مشکل حالات میں پیشیاں بھگتتی رہیں۔محترمہ کو یقین تھا کہ ایک دن قاضی صاحب انصاف کی فراہمی میں دکھی انسانیت کا کا سہارا بنیں گے محترمہ کے خاندانی پس منظر کے سامنے یہ عہدہ حیثیت نہیں رکھتا ۔

قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے اپنی قابل احترام ،وفا کی پیکراہلیہ کو نہ صرف اپنے ساتھ کھڑا کیابلکہ تمام احساس کمتری میں مبتلا ذہنی مریضوں کو پیغام دیا کہ عہدے، اقتدار، عیش و عشرت، پروٹوکول اور سب کرسیاں بے وفا ہیں۔وفا ریاست سے،وفا آئین سے،وفا انسان سے،وفا ہم سفر سے،وفا والدین سے،وفا اولادسے،یہ انسان کی منزل مقصود ہے۔قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا پہلا خاموش حکم نامہ ہے ’’وفا کو عزت دو تاکہ تم کو عزت ملے‘‘۔

(صاحب ِ تحریرسابق رکنِ قومی اسمبلی ہیں)

تازہ ترین