• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاری سال یعنی 2023ء جہاں لاکھوں کروڑوں افراد کیلئے مسرت و شادمانی کا پیغام لارہا ہوگا، وہاں یہ دنیا کے پس ماندہ ممالک کے ان کروڑوں بچوں کیلئے آخری سانسوں کی خبر لا رہا ہے جو دنیا کی عدم توجہی کے باعث بیماریوں اور کم غذائیت کے باعث موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اگر کوئی فوری اور مثبت قدم نہ اٹھایا گیا تو 2026ء میں لگ بھگ دس کروڑ بچے غفلت کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے۔

عالمی سطح پر بچوں کی صورتحال سے متعلقہ ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بیماریوں سے تحفظ کا انجکشن نہ لگائے جانے کےباعث یومیہ آٹھ سو بچے، جسم میں پانی کی کمی سے یومیہ چھ ہزار اور نمونیا سے سات ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ یہ زندگیاں بچانے کیلئے صرف3.5بلین ڈالر (سالانہ) کی ضرورت ہے اگر ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک پر قرضوں کا بوجھ ختم کردیں اور ہتھیاروں، جنگی جہازوں اور مزائلوں پر اخراجات میں کمی کردیں تو اگلے دس برسوں کےدوران کم ازکم پچاس ملین بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ یونیسف کا کہنا ہے کہ اموات کے اس تخمینہ میں نصف کمی کے پروگرام پر 2.4سے 2.9ملین کے درمیان سالانہ خرچ آئیگا۔ یہ رقم ترقی پذیر ممالک کی طرف سے قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کیلئےہر ہفتے اداکی جاتی ہے اس رقم سے لاکھوں بچوں کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے کاندھوں پر قرضوں کا یہ بوجھ انہیں اس المیہ کی طرف پوری توجہ دینے کاموقع نہیں دے رہا، ویکسی نیشن کے ذریعے لاکھوں بچوں کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تیس لاکھ بچے خسرہ ٹیٹنس(تشنج) اور کالی کھانسی کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں جبکہ یہ امراض پوری طرح قابل علاج ہیں۔ رپورٹ میں ترقی پذیر ممالک کی سطح پر اس بات کا یقین ظاہر کیا گیا ہے کہ تحفظ کا انجکشن، خاندانی منصوبہ بندی اور بچوں کی غذا کو بہتر بناکر بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک جن میں بد قسمتی سے پاکستان بھی شامل ہے مستقبل میں اس ملک کو بہتر قوم بنانے کیلئے بچوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کو بہتر و صاف ستھری فضا میں پلنے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ناگزیر ہے اس ضمن میں سرفہرست اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسف ہے جو لگ بھگ 180ممالک میں مائوں اور بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے 1950ء سے کام کررہا ہے، بچوں کے بارے میں معلومات کو عام لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ ریڈیو، ٹی وی ، اخبارات اور کتابچوں کی مدد سے عام لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ بچوں کے حقوق اور انکی ضروریات کیا ہیں۔ آپ یقیناً ’’عام لوگ‘‘ نہیں ہیں پھر بھی کیا مضائقہ ہے آپ بھی جان لیں۔

اچھی خوراک اور لباس کے علاوہ پیار و محبت بچوں کا پیدائشی حق ہے۔ بچوں سے رنگ، نسل، جنس، مذہب، قوم، فرقہ اور سماجی رتبہ کا امتیاز نہ برتا جائے۔ امن اور بھائی چارے کی فضا میں پرورش کا موقع فراہم کیا جائے۔ ایک اچھا شہری بننے کیلئے تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔مادری زبان سکھانا اور اس میں تعلیم دلانا آپ کا اخلاقی فرض ہے۔سب سے پہلے ’’بچے‘‘ کی جان بچائی جائے (ہنگامی حالات میں)۔ معذور بچوں پر خاص توجہ دی جائے۔ ہر بچے کی پہچان کیلئے اسے نام اور شہریت کاحق حاصل ہے۔ ہر بچے کو کھیل و تفریح کے مواقع ملنے چاہئیں۔

بچے قدرت کا ایک ایسا انمول اور حسین تحفہ ہیں جو زندگی کو خوبصورت بناتے ہیں، اس کو رعنائی بخشتے ہیں، اس کو معنی دیتے ہیں۔ ان کی دل موہ لینے والی گفتگو اور آواز فضا میں ترنم اور نغمگی بکھیر دیتی ہے بچوں کی معصوم اور پاکیزہ حرکتیں اور بے ضرر شرارتیں انسان کیلئے نہ صرف خوشی اور زندگی کا پیغام لاتی ہیں بلکہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے چند لمحوں کیلئےبے گانہ اور بے خبر کر دیتی ہیں، بچوں کے بغیر زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں کہ جب تک یہ پھول اور کلیاں موجود ہیں ہماری زندگی کا باغ مہکتا رہیگا۔ آج جب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک چاند پر کمندیں ڈالنے کا دعویٰ کررہے ہیں اور غربت، بیماریوں، کم غذائیت اور بھوک کو جڑ سے مٹانے کا عہد بھی کررہے ہیں اس وقت یہ دلخراش خبریں واقعی قابل تشویش ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں دنیا نے زندگی کے ہر میدان میں ترقی کی ہے، وہیں یہ بات بھی اتنی ہی سچ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ہی غربت، مفلسی اور غذائیت کی کمی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور عالمی تنظیمیں کوششوں کے باوجود اسکو لگام ڈالنے میں بری طرح ناکام ہیں۔

آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور نیپال میں غربت، بھوک اور کم غذائیت کے مارے خاندانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔میرے حساب سے اگرچہ یہ مسئلہ عالمگیر نوعیت کا ہے تاہم ایشیائی اور افریقی ممالک میں اس ضمن میں زیادہ بری حالت ہے کیونکہ ان ممالک میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے یونیسف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہم 2026 تک بچوں کی بھکمری اور کم غذائیت کیخلاف محاذ پر کامیابی حاصل کرلیں گے اور اگر ایسا نہ ہوسکا اور اس معاملے میں پیش رفت نہ کی گئی تو بچوں کی اموات کم کرنے میں ہماری پیش رفت رک جائیگی ۔ یہ ننھے فرشتے کسی بھی ملک کا وہ قیمتی سرمایہ ہیں جو آنے والے کل میں ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔

تازہ ترین