دسمبر 2020 ء کی ایک سرد شام ٹورنٹو کینیڈا میں اپنے بھائی کے ساتھ رہائش پذیر کریمہ بلوچ اپنے اپارٹمنٹ سے نکل کر ایک ڈاکٹر کے کلینک گئی ،جہاں سے اس نے ڈاکٹری نسخے پر خواب آور گولیاں لیں اور پھر ڈاؤن ٹاؤن واٹر فرنٹ سے تنہا فیری کے ذریعے قریبی سینٹر آئی لینڈ پہنچی جہاں وہ اکثر جایا کرتی تھی۔ کینیڈا جیسے سرد ممالک میں سر شام ہی اندھیرا چھا جاتا ہے جب رات گئے تک کریمہ واپس نہ لوٹی تو اس کے بھائی نے پولیس کو اس کی گمشدگی کی اطلاع دی۔ اگلے روز صبح آئی لینڈ کے ساحل سے کریمہ کا پرس ملا اور قریب ہی ایک انٹاریو کے برفانی پانی پر اس کی لاش تیر رہی تھی۔
کینیڈا میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والی کریمہ بلوچ کی ہلاکت کے بعد پاکستان دشمن عناصر خصوصاً بھارتی میڈیا نے الزامات لگانے شروع کر دیئے کہ کریمہ کو ریاست پاکستان کے خفیہ اداروں کے ایما پر قتل کر دیا گیا ہے۔ کریمہ بلوچ کے سیاسی پناہ کے لیے دیئے گئے بیانات اور الزامات کو بنیاد بنا کر پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھارتی سر پرستی میں کام کرنے والی چند نام نہاد تنظیموں نے پاکستان اور بیرون ملک ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ ملک دشمن عناصر کی جانب سے شروع کی گئی اس منظم سازش کا خاتمہ جلد ہو گیا جب ٹورنٹو پولیس اور تحقیقاتی اداروں نے تمام تر شواہد کو مدنظر رکھ کر کریمہ کی موت کو خود کشی قرار دیتے ہوئے کسی قسم کے فاؤل پلے کے امکان کو رد کر دیا۔
کریمہ کی موت کے ڈھائی سال بعد برٹش کولمبیا کینیڈا کے شہر سرئے میں بھارتی سکھوں کیلئے الگ ریاست کے حصول کیلئے کوشاں خالصتان تحریک کے راہنما کینیڈین شہری ہر دیپ سنگھ نجر کو دو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ ہر دیپ سنگھ کے قتل سے کینیڈا میں رہائش پذیر8 لاکھ سے زائد سکھوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی اور سکھ کیمونٹی کے سرکردہ افراد نے بھارتی حکومت اور اس کے خفیہ ادارے کے افسران کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے بھارتی قونصل خانے اور سفارتخانے کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے بعض انڈر کور افسران کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
سکھ کینیڈا کی آبادی کا دو فیصد سے زائد ہیں اور ان کی اکثریت اونٹاریو، برٹش کولمبیا اور البرٹا میں سیٹل ہے۔ معاشی اور سیاسی لحاظ سے مستحکم اور مضبوط سکھ کمیونٹی کی حمایت کینیڈا کی سیاسی جماعتوں کیلئے اہمیت کی حامل ہے۔ کینیڈا کی تیسری بڑی سیاسی جماعت NDP کے سربراہ جگمیت سنگھ کے علاوہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کنزرویٹو اور لبرل پارٹی کے متعددممبران پارلیمنٹ سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔کینیڈا کی پولیس اور کینیڈین سکیورٹی انٹیلی جنس سروس (CSIS) جیسے اداروں کی اہلیت، قابلیت اور دیانتداری سے کام کرنے کی صلاحیت کی پوری دنیا معترف ہے۔ ان اداروں کی تحقیقات میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے ہر دیپ سنگھ کے قتل سے متعلق شواہد سامنے آنے کے بعد کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا بھارت میں G-20 سمٹ کے دوران سرد رویہ اور بھارتی حکومت کی پریشانی صاف نظر آ رہی تھی۔ جسٹن ٹروڈو کے کینیڈین پارلیمنٹ میں سوموار کے روز کئے گئے انکشاف ،کہ کینیڈین شہری کے قتل میں بھارتی حکومتی ایجنٹ ملوث ہیں اور یہ معلومات انہوں نے حلیف ملکوں سے بھی شیئر کی ہیں، سے دنیا بھر میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ کینیڈین حکومت نے بھارت کے ساتھ اپنے دیرینہ تجارتی اور سفارتی تعلقات کو پس پشت ڈالتے ہوئے بھارتی سفارتخانے میں تعینات بھارتی خفیہ ادارے را کے سینئر انڈرکور افسر پون کمار کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ واضح رہے کینیڈا کی سکھ کمیونٹی عرصہ دراز سے بھارتی سفارتی افسران کی خلاف قانون سرگرمیوں سے اپنی حکومت کو آگاہ کر رہی تھی۔بھارت میں اقلیتوں پر ظلم ڈھانے اور ہندوتوا کا پرچار کرنے والی مودی سرکار کی کوشش تھی کہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک اور بڑی منڈی ہونے کے ناطے ساتھ میں چین کا ہوا کھڑا کر کے مغرب سے قریبی تعلقات استوار کیے جائیں مگر کینیڈا کے وزیراعظم اور وہاں کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے کیےگئے جرأتمندانہ مؤقف نے مودی کی فاشسٹ سرکار کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے اور انہوں نے انڈین کینیڈین کیمونٹی کو ویزوں کا اجرا بند کر دیا ہے۔
بھارت سرکار کی کوشش ہوگی کہ کینیڈا سے بھارتی پنجاب بھیجی جانے والی ترسیلات میں کمی کی جائے اور سکھ نوجوانوں کی بیرون ملک امیگریشن میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں تاکہ بھارت میں رہنے والے سکھ بھی دوسری اقلیتوں کی طرح انتہا پسند ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہو جائیں۔ کینیڈا کے حلیف بڑے ممالک امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جن کے ساتھ کینیڈا کا انٹیلی جنس شیئرنگ میکنزم فائیو آئیز کے نام سے کام کر رہا ہے۔انہوں نے ابھی تک محتاط رد عمل کا اظہار کیا ہےاب دیکھنا یہ ہے کہ اگر کینیڈین حکومت نجر کی ہلاکت میں بھارتی سرکاری اداروں کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت سامنے لے آئی جو یقیناً ان کے پاس ہوں گےتو پھر ان عالمی طاقتوں کا طرز عمل کیا ہو گا آیا وہ معاملے کو میرٹ پر دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں گی یا اپنے تجارتی مفاد اور گلوبل اسٹرٹیجی کو سامنے رکھتے ہوئے خاموشی اختیار کریں گی۔
بھارتی انتہا پسند حکومت اور مودی کی اگرچہ بین الاقوامی سطح پر خاصی سبکی ہوئی ہے مگر بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جس کا فائدہ اس کو آنے والے الیکشن میں ہو گا۔
(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)