• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سنہری دھوپ سے چہرہ نکھار لیتی ہوں...

تحریر : نرجس ملک

ماڈل : وَردہ منیب

ملبوسات: شاہ پوش

آرایش : دیوا بیوٹی سیلون

کوارڈی نیشن: سونیا احمد

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

مُلک شام کے معروف لکھاری، سفارت کار، شاعر (اُنہیں شام کے قومی شاعر کا درجہ حاصل ہے) اور دانش وَر، نزار توفیق قبانی کا ایک قول ہے کہ ’’اگر کوئی عورت آپ سے محبّت کرتی ہے، تو وہ آپ کے کافی کے دعوت نامے پر پیرس سے دمشق تک آسکتی ہے اور اگر اُسے محبّت نہیں، تو وہ کمرے کی کھڑکی تک بھی نہیں آئے گی۔ ایک عورت آپ کے لیے جہنّم بھی عبور کرسکتی ہے، بشرطیکہ اُسے آپ سے محبّت ہو۔‘‘ اور.... ایک عورت کی محبّت بننا یا پانا قطعاً کوئی آسان امر نہیں۔ مانا کہ کبھی تو یہ ’’پُل صراط‘‘ محض اِک نگاہ سے بھی طے ہوجاتا ہے اور کبھی سب کچھ وار کے، تج، ہار کے، عُمر بھر کی ریاضت، سیوا کے بعد بھی اِک نگاہِ التفات کا سہارا، آسرا بھی نہیں ملتا۔ وہ کیا ہے کہ عورت ذات کا دل جیتنا کوئی گُڈے، گُڑیا کا کھیل تھوڑی ہے۔ 

ایسے ہی تو بانو آپا نے نہیں کہا تھا ناں کہ ’’اِک عُمر گزرنے کے بعد مَیں نے یہ جانا کہ عورت موم ہے یا پتھّر، یہ فیصلہ وہ خُود کرتی ہے، کسی دوسرے کو اُسے ’’موم‘‘ یا ’’پتھّر‘‘ کہنے کا حق حاصل نہیں۔ وہ چاہے، تو خُود کو محبوب کے اشاروں کی سمت موڑتی رہے اور اگر پتھّر بننے کا فیصلہ کرلے، تو کوئی شخص بھکاری بن کر بھی اُس کی ایک نگاہِ التفات نہیں پاسکتا۔‘‘ اور پھر یہ بھی کہا کہ ’’محبّت دراصل اپنی مرضی سے کُھلے پنجرے میں طوطے کی طرح بیٹھے رہنے کا نام ہے۔ 

محبّت، غلامی کا وہ طوق ہے، جو انسان خُود اپنے اختیار سے گلے میں ڈالتا ہے۔‘‘ بلاشبہ عورت اور محبّت لازم و ملزوم ہیں کہ اِسی ایک ’’محبّت‘‘ ہی کے طفیل تو عورت کے کارخانۂ حیات کی ساری مشینری، اِک اِک کل پُرزہ رواں دواں ہے۔ جی میں کسی کی محبّت کی جوت جَگی، چاہت و الفت رَچی بَسی ہو، توکیسے کیسے نہ سجنے بننے، سنورنے نکھرنے کو دل مچلا جائے ہے۔ یوں ہی تو ’’رنگ و انداز‘‘ کی یہ طلسم نگری روز افزوں کچھ مزید سحر انگیز، رنگ برنگ نہیں ہوتی چلی جارہی۔

ہماری آج کی بزم ہی دیکھ لیجیے۔ فال سیزن (موسمِ خزاں) سے عین ہم آہنگ ہلکے، گہرے رنگوں کے کچھ پرنٹڈ، ایمبرائڈرڈ ملبوسات کی کیا بےموسم بہار سی چھائی ہوئی ہے۔ بے بی پِنک رنگ میں سیکوینس، تھریڈ، موتی اور شیشہ ورک سے مزیّن شان دار پہناوا ہے، تو خالص مایوں کے رنگ، گہرے زرد میں نفیس و دل کش ایمبرائڈری سے آراستہ ٹرائوزر شرٹ، دوپٹّے کے بھی کیا ہی کہنے، پھر مسٹرڈ رنگ پرنٹڈ ٹرائوزر شرٹ (میچنگ سیپرٹس) کا جلوہ ہے، تو گہرے گلابی رنگ پہناوے پر سفید کی ہم آمیزی میں شان دار کڑھت کا بھی جواب نہیں، جب کہ پرنٹڈ ٹراؤزر شرٹ کا سُرمئی مائل سی گرین سا شیڈ بھی موسم کے اعتبار سے ایک عُمدہ انتخاب ہے۔

وہ کیا ہے کہ ؎ سنہری دھوپ سے چہرہ نکھار لیتی ہوں.... اُداسیوں میں بھی خُود کو سنوار لیتی ہوں....مِرے وجود کے اندر ہے، اِک قدیم مکان....جہاں سے مَیں یہ اُداسی اُدھار لیتی ہوں۔ تو آمدِ خزاں کے ساتھ اُداسی تو چہار سُو خود بخود ہی رقم ہوجاتی ہے، لیکن اگر کوئی محبّت سے معمور و مخمور دِل خُوب بننے سنورنے کا ارادہ باندھ لے، تو پھر رُت، موسم کوئی بھی ہو، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔