پاکستان جس خطّے میں واقع ہے، اس کے چاروں اطراف کس قسم کی برق رفتار تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں، اس کا کچھ کچھ ادراک اب ہمارے پالیسی سازوں اور عوام کو بھی ہوتا جارہا ہے، وگرنہ تو وہ جذباتی نعروں ہی کو اپنے مسائل کا حل سمجھ بیٹھے تھے۔ ہم اپنا گھر درست نہ کرسکے، بلکہ اسے محل بھی مان لیا، جو یقیناً نہ صرف افسوس ناک امر ہے، بلکہ شدید مایوسی کا بھی سبب ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اب ہم کسی کو الزام دینے کے بھی قابل نہیں رہے، کیوں کہ دنیا ہمیں آئینہ دِکھا رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی عوام مختلف اقوام کے جُھرمٹ میں ایک باعزّت مقام کے متمنّی ہیں، وہ انقلاب چاہتے ہیں، لیکن شاید یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ اپنا آج بدلنے کی خواہش اور اس پر عمل ہی کو انقلاب کہتے ہیں۔یہ اب پرانے زمانے کی بات ہوگئی ہے کہ لوگ سڑکوں پر نکلیں، انقلابی نعرے لگائیں، لاشیں اُٹھائیں اور توڑ پھوڑ کر کے بربادی کے نئے باب کھولیں، کیوں کہ اِس قسم کے انقلاب سے جو نفرتیں جنم لیتی ہیں، وہ مزید خون مانگتی ہیں اور افراتفری کا سبب بنتی ہیں، جس سے مزید تباہی پھیلتی ہے۔ کیا وطنِ عزیز اس کا متحمّل ہو سکتا ہے، جہاں ہر شخص کی زبان پر منہگائی، منہگائی ہے اور چہرے پر رنج و الم کرب نظر آتا ہے۔
ہم اپنے چاروں طرف نگاہ ڈالیں، تو نظر آئے گا کہ مغربی اور مشرقی سرحدوں کے اُس پار ترقّی کے کئی چھوٹے، بڑے انقلاب جنم لے چُکے ہیں یا انگڑائی لے رہے ہیں۔جب امریکا نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا، تو یہ خبریں اور تجزیہ عام تھا کہ وسط ایشیا کے ممالک اب دوسرے ایشین ٹائیگرز بنیں گے اور چوں کہ پاکستان ان سے متصل ہے، تو یہاں بھی اُس ترقّی کے ثمرات کی بارش ہوگی۔ہماری کوتاہیوں یا عدم دل چسپی کے سبب پاک، افغان بارڈر اور اُس سے آگے وسط ایشیا تک کے صنعتی زون کے منصوبوں کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا، بلکہ اب تو لوگ یہ بات ہی بھول چُکے ہیں۔ ہمارے مغرب اور مشرق میں ترقّی کے نئے راستے کُھل گئے ہیں۔
مغرب میں مشرقِ وسطیٰ کا خطّہ ہے، تو مشرق میں بھارت، بنگلا دیش اور سری لنکا جیسے ممالک۔یہ بھی دل چسپ مطالعہ ہوگا کہ عرب دنیا میں کسی کو افغانستان سے رتّی بَھر دل چسپی نہیں رہی۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقاریر ہی دیکھ لیں، کسی نے افغانستان کے مسائل پر کوئی بات نہیں کی۔قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِن خطّوں کی ترقّی میں جہاں ایک طرف امریکا اور مغربی طاقتیں فعال ہیں، تو دوسری جانب، چین اور روس بھی اُن کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔یہ ایک غیر معمولی تبدیلی ہے، وگرنہ عام طور پر بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو کر تنازعات کا باعث بنتی ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں(سوائے پاکستان و افغانستان ) یہ طاقتیں جس انداز میں پیسوں اور ٹیکنالوجی کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں، وہ عالمی طور پر ایک حیرت انگیز منظر ہے، تو دوسری جانب، ان ممالک اور خطّوں کے عوام کی اس خواہش اور عزم کا عکّاس بھی کہ وہ کسی بھی معاملے یا تنازعے کو اپنی بہتر زندگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔پاکستان ترقّی کے اِن دونوں جزیروں کے درمیان ایک انتہائی اہم مقام پر، جسے اسٹریٹیجک اہمیت بھی کہا جاسکتا ہے، کھڑا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ معاشی ترقّی کے ضمن میں، قوم میں جو نیا شعور آرہا ہے، وہ غالب رہتا ہے یا ہم دوبارہ اپنے اندرونی سیاسی اور علاقائی تنازعات کے خول میں سمٹ کر مواقع گنوا بیٹھتے ہیں۔ اِس وقت تو ہر مُلک اور ہر عالمی ادارہ یہی چاہتا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے پائوں پر کھڑی ہو تاکہ علاقے میں استحکام آئے، لیکن یہ ضرور ہے کہ پہلا اور درست قدم تو بہرحال ہمیں ہی اُٹھانا پڑے گا۔
مغربی سمت ، مشرقِ وسطیٰ کے علاقے میں اِس نئی ترقّی کے انقلاب کا محرّک ایک مرتبہ پھر تیل ہی بنا ہے۔ایک سو سال قبل جب مغربی کمپنیز نے مشرقِ وسطیٰ میں تیل نکالنا شروع کیا، تو ایک نئی دنیا وجود میں آئی۔بڑی طاقتوں اور ٹیکنالوجی کے ماہر ممالک نے اس سے’’ فرسٹ ورلڈ‘‘ اور ترقّی پذیر دنیا کی داغ بیل ڈالی۔لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہونے لگا، اُنھیں نئی نئی سہولتیں ملنے لگیں، انسان نے جہاں خطرناک ایٹم بم بنایا، وہیں فضائی سفر، مواصلاتی سیّارے، چاند کی تسخیر اور پھر انٹرنیٹ اور موبائل فون سے دنیا گلوبل ویلیج بنتی چلی گئی۔
عالم گیر جنگوں سے پہلے کی قوم پرستی، جس نے صدیوں خوف ناک جنگوں سے تباہی مچائی، ختم ہوئی۔ اس کی جگہ سرد جنگ نے لے لی، جس میں مفادات کی خاطر اشتراک اور اختلاف کی صُورت میں صرف تلخ بیانات سامنے آئے۔ اِس کی سب سے بڑی مثال سوویت یونین کا بکھرنا ہے، جو 16سو ایٹم بم رکھنے کے باوجود ٹوٹ گیا۔اُس وقت تیل کی فراوانی نے ترقّی کی بنیاد رکھی اور آج تیل کی کم یابی کے اندیشے ترقّی کی نئی نئی راہیں کھول رہے ہیں۔2016ء میں تیل کی قیمت ایک مہینے میں114 ڈالر سے گر کر30ڈالر پر آگئی۔ یہ عرب دنیا اور مشرقِ وسطیٰ کے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک پر گویا قیامت تھی، جو اچانک ٹوٹ پڑی۔
ان ممالک میں ایران بھی شامل تھا، جس کی معیشت تباہ ہوگئی اور آج تک سنبھل نہ سکی، وہ تیل اسمگل کر کے کماتا ہے۔ وہاں ایک ڈالر40ہزار ایرانی ریال کے برابر ہے۔تیل پیدا کرنے والے ممالک کے لیے سالانہ بجٹ بنانا چیلنج بن گیا۔ روس جیسا مُلک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ یہ دُور کی بات نہیں، صرف سال پہلے کی کہانی ہے۔ روس کی کرنسی روبل بیٹھ گئی۔ یہ باتیں ہمیں اِس لیے معلوم نہیں کہ ہم اُس وقت نعرے بازی اور اُکھاڑ پچھاڑ کی سیاست میں اِتنے مگن تھے کہ ہمارے پاس اردگرد ہونے والی تبدیلیوں پر غور کا وقت ہی نہیں تھا۔اب ذرا آنکھ کُھلی ہے، تو پَر جلنے لگے ہیں۔ روس خوش قسمت ہے کہ اُس کی معیشت میں تنوّع ہے۔
اُس کے پاس دنیا کا سب سے وسیع رقبہ ہے۔وہ تیل و گیس کے ساتھ دنیا کی سب سے زیادہ گندم، کھانے کا تیل اور دوسری غذائی اشیاء برآمد کرنے والا مُلک ہے۔یوکرین جنگ نے منہگائی کا جو طوفان برپا کیا، اُس کی بڑی وجہ یہی روسی خطّہ ہے، لیکن عرب دنیا نے ایسا کوئی متبادل تیار نہیں کیا تھا۔اس کے بجٹ اور لوگوں کی خوش حالی کا دار و مدار صرف تیل کی دولت تھی، جس کے لیے اُنہیں کوئی محنت بھی نہیں کرنی پڑی۔ تیل قدرت کا عطیہ تھا اور اُسے نکالنے والی مغربی کمپنیز تھیں۔
لیکن تیل کی کم قیمتوں نے اب صُورتِ حال غیر یقینی کردی ہے۔ تیل کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف، متبادل انرجی کے ذرائع سولر، جوہری اور ونڈ انرجی کی شکل میں تیزی سے اُس کی جگہ لے رہے ہیں، جنہیں’’ گرین انرجی‘‘ کہا جاتا ہے۔ عربوں کے لیے ایک اور دھماکا یہ تھا کہ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں امریکا میں شیل آئل نکلنے لگا، جس کی مقدار اِتنی ہی تھی، جتنی سعودی عرب کی، یعنی یومیہ ایک ملین بیرل۔ یوں امریکا اس پوزیشن میں آ گیا کہ اپنے مغربی حلیفوں کو عرب تیل پر انحصار سے چھٹکارا دلا سکے۔عالمی معیشت میں یہ ایک بڑا انقلاب تھا۔
ہم نے تو امریکا دشمنی میں اس کے اثرات پر بات کرنا بھی پسند نہ کی، لیکن جن کا اس سے واسطہ پڑا، اُنھیں شدید معاشی جھٹکے لگے۔ عرب دنیا کی آنکھیں کُھل گئیں اور ایک دو جھٹکوں کے بعد ہی اُنہیں احساس ہوگیا کہ اب سوچنا ہوگا کہ تیل کے بعد کیا ہوگا۔ہماری طرح نہیں کہ گیس کے ذخائر پہلے تو بے مقصد خرچ کرتے رہے، جب ختم ہوئے، تو رونے بیٹھ گئے یا سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے کہ چولھے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔عربوں میں تیل کی متبادل اکانومی کی سوچ کو سعودی عرب نے لیڈ کیا اور اُس کے ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان نے تیل کے بغیر عرب دنیا کا ویژن دیا اور پھر اُس پر تیزی سے عمل بھی شروع کردیا۔
اُنھوں نے ہر پالیسی اِس ویژن کے تابع کردی اور دشمنی، دوستیوں میں بدلنے لگی۔یہ ایک بڑی معاشی پیش رفت تھی، لیکن عرب دنیا یا وسیع معنوں میں مشرقِ وسطیٰ تنازعات میں گِھرا ہوا تھا، خاص طور پر فلسطین ایک جذباتی مسئلہ اور انسانی المیہ بن چُکا ہے۔ سعودی عرب نے خارجہ محاذ پر تیزی سے پیش قدمی کی اور سب سے پہلے اُسے ہی ٹیسٹ کیس بنایا، جسے عربوں کی دُکھتی رگ کہا جاتا ہے۔ یعنی اسرائیل سے تعلقات اور مسئلۂ فلسطین کا حل۔دِل چسپ بات یہ ہے کہ اُسی زمانے میں سعودی۔ایران تنازعے اور برتری کی جنگ عروج پر تھی۔ شام کا تنازع جاری تھا، یمن میں خانہ جنگی زوروں پر تھی اور پھر کورونا آگیا۔
سعودی عرب نے امریکی ثالثی میں اسرائیل سے تعلقات کی ابتدا کی، وہ اپنے حلیف خلیجی ممالک کو ایک پیج پر لایا تاکہ کوئی پیٹھ میں چُھرا نہ گھونپ دے۔اب اِن عرب ممالک کی ایک طرف روس اور چین مدد کررہے ہیں، تو دوسری جانب، امریکا، مغربی دنیا اور بھارت بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ’’بھارت، مشرقِ وسطیٰ کوریڈور‘‘ پر تُرکیہ کو کچھ تحفّظات ہیں، تاہم اردوان اپنے کارڈ درست وقت پر ٹھیک طرح سے کھیلنا جانتے ہیں۔ امریکی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ تُرکیہ اب سعودی عرب۔ اسرائیل تعلقات کی حمایت کرتا ہے، کیوں کہ وہ اسے خطّے میں امن کے طور پر دیکھتا ہے۔
یہ بھی کہا جارہا کہ امریکا اب جاپان طرز کا سیکیوریٹی معاہدہ سعودی عرب سے بھی کر سکتا ہے، اِس طرح عرب دنیا میں چین کی پیش رفت میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ بھارت، عرب دنیا میں اقتصادی پیش رفت میں حصّہ لے رہا ہے۔ شہزادہ محمّد کے دورۂ بھارت میں پچاس معاہدے ہوئے۔بھارت، سعودی تیل کا بڑا خریدار ہے اور وہاں اُس کے چوبیس لاکھ شہری بھی موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر ٹیکنالوجی میں معاونت کرتے ہیں۔
یہاں اہم سوال یہ ہے کہ اِس بدلتے منظر نامے میں پاکستان کیا کرے؟ تو جواب یہاں سے شروع ہوگا کہ پاکستان کو اِس وقت کون سا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔کیا کشمیر اور فلسطین کے تنازعات کا فوری حل ممکن ہے اور یہ کہ کیا یہ عوام کے لیے فوری ریلیف کا سبب بن سکتے ہیں، جو معاشی کم زوری کے بوجھ تلے دَبے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ منہگائی کم کریں، روزگار دیں۔اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ایک ہی ہے، یعنی معیشت کی بحالی اور مُلک کو ترقّی کی راہ پر ڈالنا۔
واضح رہے، یہ مالیاتی بحران کا زمانہ ہے اور نہ ہی کورونا کا دَور کہ عالمی اداروں سے ریلیف یا امیر ممالک سے امداد مانگی جاسکے۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف نے ڈھائی ارب ڈالرز دیے تھے،جس سے کام چل گیا تھا۔ آج کا تقاضا سیاست سے معیشت کی طرف مکمل پالیسی شفٹنگ ہے۔ اپنے چاروں طرف دیکھیں، اِن دنوں ہر مُلک نے یہی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
یعنی اگر ہم بھی مشرقِ وسطیٰ اور اپنے ہم سایوں کی معاشی ترقّی کی دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں، تو یہ کوئی غیرمعمولی یا حیرت انگیز پالیسی یوٹرن نہیں ہوگا۔ہمیں فوراً قبولیت مل جائے گی، لیکن یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ برابری کے نام پر کوئی ایسی دو رُخی پالیسی اب عرب دنیا قبول نہیں کرے گی، جیسے پہلے ہوا تھا۔ سعودی عرب، پاکستان سے اِس لیے ناراض ہوا تھا کہ یمن کی جنگ میں پاکستان نے اُس کی فوجی مدد سے انکار کر دیا تھا۔سعودی عرب کا کہنا تھا کہ ہم تو ہر موقعے پر پاکستان کی مدد کرتے ہیں، جب ہمارا وقت آیا، تو اسے غیر جانب داری یاد آگئی۔
دوسری بات یہ کہ جب پی ٹی آئی دورِ حکومت میں تُرکی نے ملائیشیا کے ساتھ مل کر ایک نئے او آئی سی بلاک کا تصوّر پیش کیا، تو پاکستان نے اس کی حمایت کی، سعودی عرب نے اسے اپنے مفادات سے براہِ راست ٹکرائو مانا اور پھر اس کا خمیازہ عرب امداد میں نفی کی صُورت سامنے آیا۔تُرکیہ اور سعودی عرب کے تعلقات تو بہترین ہوگئے، مگر ہم اب تک نتائج بُھگت رہے ہیں۔ ایسے ڈپلومیٹک بلنڈر ہمیں اب چھوڑ دینے چاہئیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جو دو کوریڈور یا موجودہ اکنامک فورمز ہیں، ان میں بھی کوئی نظریاتی تقسیم نہیں ہے۔مثال کے طور پر سعودی عرب اور متحدہ امارات بیک وقت چین، امریکا اور روس کے اقتصادی حلیف بن گئے ہیں، تو دوسری طرف، وہ بھارت کے بھی ساتھ ہیں۔
اسرائیل اُنھیں اُسی طرح ٹیکنالوجی فراہم کرے گا، جیسے وہ روس، چین اور تُرکیہ کو فراہم کرتا تھا۔ ظاہر ہے، نظریاتی تقسیم پر معاشی حقیقتوں نے برتری حاصل کر لی ہے۔ پاکستان کے لیے بھی عالمی سطح پر ایسا کوئی اقدام مشکل نہیں ہوگا، البتہ اُسے اِس ضمن میں جن مشکلات کا سامنا ہے، وہ اندرونی ہیں۔ عوام کو جذباتی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا میں لانا اس کے لیے ایک بڑا اور کٹھن چیلنج ہے۔تاہم، وقت آگیا ہے کہ عوام کی آنکھیں کھولی جائیں، اُنھیں بتایا جائے کہ جھولی میں کچھ نہیں رہا، اب کمائو گے، تو کھائو گے، وگرنہ بھوکے پیاسے خواب دیکھو یا اِدھر اُدھر دوڑتے پِھرو۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ مانگنے والوں کو اب کوئی مُلک قبول کرنے کو تیارنہیں۔ یہ خاصا مشکل کام ہوگا، کیوں کہ نصف صدی سے زاید کے نظریات کو بُھلانا آسان نہیں اور ان کے برعکس اُٹھائے گئے اقدام کے خلاف مزاحمت بھی ہو گی،غدّاری کے الزامات لگیں گے اور جلسے جلوس بھی ہوں گے۔ جب سعودی ولی عہد نے دشمنیاں ختم کرکے دوستیاں بنانا شروع کیں، تو اُنہیں بھی نظریاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا ، لیکن جلد ہی عوام کو عقل آگئی کہ اقوامِ عالم میں کیسے رہنا ہے۔ ہمارے عوام کو بھی آنکھیں کھول کر دنیا کو دیکھنا ہوگا، صرف منہگائی پر احتجاج سے کچھ نہیں ہوگا۔اُنہیں قابلِ قبول معاشی بحالی کی پالیسی کا خود مطالبہ کرنا ہوگا۔مسئلہ کچھ ہو، رونا پیٹنا کسی اور بات پر ہو اور اس کا حل کسی اور طریقے سے ڈھونڈا جا رہا ہو، اب اِس طرح کی روش قطعاً نہیں چلے گی۔
یہ وہ تلخ حقیقت ہے، جو ہمارے عوام کو ہضم کرنا پڑے گی۔ماہرین کو بھی جان لینا چاہیے کہ معاشی بحالی کے سوا کوئی بھی پالیسی اِس اذیّت اور مصیبت سے نہیں نکال سکتی۔ یہی بات ہمارے مغرب کے ہم سائے کہہ رہے ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کے برادر بھی۔ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس، قاضی فائز عیسیٰ نے بالکل درست نشان دہی کی ہے کہ’‘ مان لیں! ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں۔‘‘ پہلے کمائیں، پھر خرچ کریں اور اُتنا ہی خرچ کریں، جتنا کمائیں، یہ روزمرّہ زندگی کی سادہ سی اقصادیات ہے اور اسے ہی ’’قومی پالیسی‘‘ بنانا ہوگا۔