• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت، امریکا اور مشرقِ وسطیٰ کے مابین نئی تجارتی راہ داری

نیو دہلی میں ہونے والے جی۔20 اجلاس کے مشترکہ اعلامیے سے زیادہ اُس اکنامک کوریڈور نے اہمیت اختیار کر لی ہے، جس کا مقصد بھارت، امریکا اور مشرقِ وسطیٰ کو تجارتی طور پر ایک دوسرے سے جوڑنا ہے۔ اِس کوریڈور کا اعلان جی-20 اجلاس کے موقعے پر سامنے آیا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک تاریخی ڈیل ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں خوش حالی کا ذریعہ بنے گی۔ اِس کوریڈور کی اقتصادی اہمیت تو ہے ہی، جب کہ اس کی سیاسی اہمیت بھی کچھ کم نہیں۔خاص طور پر اگر اسے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے پس منظر میں دیکھا جائے، تو اِس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ چین نے حال ہی میں مشرقِ وسطیٰ میں خاصی پیش رفت کی ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والا معاہدہ اُسی کی کوششوں سے سامنے آیا، جس کے تحت دونوں ممالک نے چھے ماہ سے بھی کم عرصے میں تہران اور ریاض میں اپنے اپنے سفیر تعیّنات کر دیئے، دونوں کے درمیان تلخی ختم اور اب دوستی اور تعاون کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اِس معاہدے کے نتیجے میں یمن میں بھی جنگ بندی ہوگئی۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا، جس کے دوران سرمایہ کاری کے بڑے معاہدے ہوئے۔تجزیہ کاروں کی طرف سے کہا گیا کہ شاید اب مشرقِ وسطیٰ میں مغرب اور امریکا کا کردار ختم ہوگیا، خطّے میں دھڑے بندیاں سامنے آنے والی ہیں، جن میں چین، سعودی عرب، ایران اور روس کا کردار اہم ہوگا۔

یہاں تک پیش گوئی کی گئی کہ سی پیک قدیمی شاہ راہِ ریشم بن جائے گا اور علاقے کی ساری تجارت اسی کے راستے ہوگی۔اصل میں اِس قسم کے تجزیے حقیقت سے زیادہ خواہشات اور ذاتی نظریات پر مبنی ہوتے ہیں۔ہم بار ہا اِس امر کی جانب اشارہ کر چُکے ہیں کہ امریکا اپنا فوجی کردار تو کم کر رہا ہے، لیکن معاشی کردار میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ فوجی کردار میں کمی اس امریکی سوچ کے تحت ہے کہ وہ کیوں دوسروں کی جنگیں لڑے۔ اُدھرعرب، اسرائیل دوستی، جو ٹرمپ دَور سے شروع ہوئی، اب خاصی گہری جڑیں پکڑ چُکی ہے اور دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ پسِ پُشت چلا گیا ہے۔

دراصل، بعداز کورونا دَور میں کسی بھی مُلک کے لیے تجارت اور اقتصادی بحالی اولیت اختیار کر چُکی ہے اور مشرقِ وسطیٰ کی نوجوان لیڈر شپ کو اس کا ادراک ہے۔ اس کی بہترین مثال سعودی ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان ہیں۔ وہ نہ صرف معیشت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، بلکہ اِس ضمن میں انتہائی مشکل اور نامقبول فیصلے کر کے اُنہیں منوانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ عرب دنیا کو جمال عبدالناصر کے بعد اِتنا مقبول لیڈر شاید ہی کبھی ملا ہو۔ نئے اکنامک کوریڈور میں عرب دنیا کو مرکزی کردار دیا گیا ہے، تاہم اس کا فائدہ دونوں کونوں پر موجود ممالک کو ہو گا۔مشرق میں بھارت اور مغرب میں یورپ اور امریکا اس سے مستفید ہوں گے۔ایشیائی ممالک کے پاس ایک نیا آپشن آگیا ہے کہ وہ کس رُوٹ سے تجارت کرنا چاہتے ہیں۔

اِس کوریڈور کا اعلان بھارت کے وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے دہلی میں جی۔20 اجلاس کے دوران کیا، لیکن درحقیقت اس کی داغ بیل دو سال قبل اسپین میں ہونے والے نیٹو اور مغربی ممالک کے اجلاس میں پڑ گئی تھی، مگر اُس وقت اسے’’ بلڈ بیک بیٹر ورلڈ‘‘ کا نام دیا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے فنڈز کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ کم ترقّی یافتہ ممالک کو امداد دی جائے گی تاکہ وہ عالمی ترقّی کا حصّہ بن سکیں۔ ناقدین نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ منصوبہ چین کے سی پیک کو کائونٹر کرنے کے لیے سامنے لایا گیا ہے۔نیٹو ممالک نے یہ بات چُھپائی بھی نہیں کہ اُنہوں نے اسی اجلاس میں روس کو دشمن اور چین کو تجارتی حریف قرار دیا تھا۔

اس منصوبے میں اُس وقت بھارت، عرب ممالک اور اسرائیل شامل نہیں تھے، لیکن جب دو سال بعد دہلی میں اس کا اعلان ہوا، تو اب یہ تینوں ممالک اِس میں شامل ہیں۔ یہ عالمی معاہدہ بنیادی طور پر ایک انفرا اسٹرکچر منصوبہ ہے۔اس میں بہت سی تعمیرات شامل ہیں، جیسے بندرگاہیں اور ریل نیٹ ورک۔مشرقِ وسطیٰ میں مال کی ترسیل کے لیے سمندری راستوں کا استعمال ہوتا ہے کہ وہاں ریلوے نیٹ ورک کم زور ہے، اب اِس منصوبے کے ذریعے ریل نیٹ ورک کی مضبوطی سے سامان خشکی کے راستے لے جانا آسان ہو جائے گا اور یہ ایک اہم متبادل رُوٹ بن کر سامنے آئے گا۔

اِس وقت بھارت اور اس کے آس پاس کے ممالک کا مال سوئیز نہر کے ذریعے یورپی ممالک تک پہنچتا ہے، اب یہ سمندر اور خشکی، دونوں راستوں سے وہاں جائے گا، جو ایک انقلابی پیش رفت ہوگی۔ گویا ماضی بعید کے اسپائسی رُوٹ یا گرم مسالوں کی شاہ راہ کو جدید ریلوے نیٹ ورک کے ذریعے بحال کیا جا رہا ہے۔ برّ ِ اعظم امریکا کے ممالک کو مال نہر سوئیز، بحرِ روم سے بحرِ اوقیانوس کے راستے پہنچتا ہے۔ یہ مال کینیڈا اور لاطینی امریکا جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق، اِس نئے معاہدے پر عمل کے بعد بھارت، اُس کے آس پاس کے ممالک اور دیگر ممالک سے چلنے والے کنٹینرز پہلے دبئی جائیں گے، وہاں سے بذریعہ ٹرین اسرائیلی بندرگاہ حیفہ پہنچیں گے اور پھر حیفہ سے یورپ جائیں گے۔اِس معاہدے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اِس سے ٹرانسپورٹیشن کے وقت اور خرچ میں کمی آئے گی۔

نہرِ سوئیز دنیا کا ایک اہم آبی راستہ ہے اور دس فی صد عالمی تجارت اسی کے ذریعے ہوتی ہے۔یہ گزرگاہ اِسی لیے فوجی اہمیت کی بھی حامل رہی ہے اور اس پر دوسری، تیسری عرب، اسرائیل جنگیں ہوئیں، جب مِصر نے اسے بند کر دیا تھا۔جنگ کی وجہ سے مہینوں عالمی تجارت بند رہی۔ دو سال پہلے نہر سوئیز میں ایک بڑا مال بردار جہاذ پھنس گیا تھا، جس کی وجہ سے عالمی تجارت ایک ہفتہ بند رہی۔اطلاعات کے مطابق، ایک زیرِ سمندر کیبل بھی نئے منصوبے کا حصّہ ہے، جو ان ممالک کو باہم جوڑے گی۔

دفاعی نقطۂ نظر سے وسیع اور مضبوط ریلوے نیٹ ورک کا ہونا بہت کا رآمد ہے کہ اس سے فوجی امداد پہنچانا ایک سستا اور آسان طریقہ ہے۔ظاہر ہے، نئے منصوبے سے مشرقِ وسطیٰ میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ کسی بھی تنازعے کی صُورت میں فضائی رُوٹ بند کرنا آسان ہوتا ہے، مگر روڈ اور ریلوے لنک کی بندش مشکل ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ نیا منصوبہ چین کے ون بیلٹ اینڈ روڈ کا مقابل ہوگا؟اِس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ چین نے بیلٹ منصوبے سے مشرقِ وسطیٰ، یورپ، افریقا اور لاطینی امریکا تک اپنے اثرات پھیلائے ہیں۔ اس نے چین کی تجارتی برتری اور سیاسی کردار کو بہت فعال کیا اور اسے صحیح معنوں میں ایک بڑی طاقت کی شکل میں پیش کیا۔اب یہ نیا منصوبہ اس کا مقابل بھی ہوسکتا اور مدد گار بھی۔ یہ بڑی طاقتوں کی سیاست اور علاقائی کھلاڑیوں پر منحصر ہے کہ وہ اِن معاملات کو کس طرح آگے بڑھاتے ہیں۔

تاہم، مغربی ممالک اسے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے جواب ہی کے طور پر لیں گے۔بھارت ابھی تک بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل نہیں ہوا، جب کہ اس کی چین اور روس سے اچھی تجارت ہے۔مغربی مبصّرین بیلٹ منصوبے کو ایک مُلک، یعنی چین کا منصوبہ کہتے ہیں، جب کہ ان کے مطابق، بھارت، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کو جوڑنے والا نیا منصوبہ ملٹی لیٹرل ہے کہ اسے بہت سے ممالک کی اونر شپ حاصل ہے، جس میں اُن کے ذمّے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور سرمایہ کاری ہوگی۔ گو کہ تجزیہ کار اس خدشے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ ملٹی لیٹرل منصوبے جلد تعطّل کے خطرات سے دوچار ہوجاتے ہیں، کیوں کہ ہر بات پر بہت سے ممالک کی رضامندی شامل ہونا ضروری ہوتی ہے،جس میں کبھی مُلکی مفادات، تو کبھی علاقائی سیاست اور کبھی عالمی پیچیدگی فیصلہ سازی کو متاثر کرتے ہیں۔

تاہم، اُن کے مطابق، بھارت، مشرقِ وسطیٰ، یورپ منصوبے میں اجارہ داری کا امکان کم ہے اور ہر مُلک چاہے گا کہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اُسے اُس کی اہمیت کے مطابق حصّہ ملے۔بین الاقوامی تجارت پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ نیا منصوبہ عالمی تجارت پر سیاسی اور اقتصادی طور پر اثر انداز ہوگا، کیوں کہ اس سے تجارت کے نئے اصول مرتّب کرنے پڑیں گے۔چین بیلٹ منصوبے، تجارت اور ٹیکنالوجی میں برتری کی وجہ سے یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اُسے عالمی معاملات میں مرکزی کردار دینا ہوگا، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ بیجنگ اس نئی پیش رفت پر کیا ردّ ِعمل دیتا ہے۔البتہ ایک بات واضح ہے کہ چین کی مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ پیش قدمی ضرور متاثر ہوگی۔صدر شی جن پنگ اور صدر پیوٹن نے دہلی میں ہونے والی جی۔20 کانفرنس میں شرکت نہیں کی، تو کیا اسے علامتی طور پر معاہدے کی مخالفت سمجھا جائے؟

مشرقِ وسطیٰ میں، جو اِس نئے منصوبے کا مرکز ہوگا، گزشتہ دو برسوں میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں، جنھیں اب زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔خاص طور پر اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات کی تفہیم خاصی آسان ہوگئی ہے۔ ٹرمپ جو بظاہر ڈیموکریٹس کے دشمن نمبر ایک لگتے ہیں، اِن تعلقات کی شروعات کا باعث بنے اور پھر جوبائیڈن نے انھیں مزید وسعت دی۔ پالیسی تسلسل کی یہ ایک عالمی مثال ہے، جس سے حالات کا رُخ موڑا جاتا ہے۔امریکا کی کوشش ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل میں تعلقات قائم ہوں، کیوں کہ وہ عرب دنیا کا لیڈر ہے اور ساتھ ہی مسلم دنیا پر بھی اس کے گہرے اثرات ہیں، لیکن اِس مقصد کے لیے صدر بائیڈن کو سفارتی سطح پر بہت زیادہ محنت کرنی ہوگی۔اندرونِ مُلک بھی اور بیرونِ مُلک بھی۔

ڈیموکریٹس انسانی حقوق کی بہت باتیں کرتے ہیں، جب کہ بھارت اور اسرائیل دونوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزمات ہیں۔نئے راہ داری منصوبے میں اسرائیل کی بندرگاہ بہت اہم ہے۔اطلاعات کے مطابق، امریکا، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیاں ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔یاد رہے، ایسی ہی کوششیں ٹرمپ کے آخری دَور میں بھی کی گئی تھیں، جن کے بعد اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے، جن میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش اہم ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اِس نئی صف بندی میں پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم سی پیک میں چین کے شراکت دار ہیں۔گو کہ ہم جی-20کے رُکن نہیں، لیکن ہماری یورپ سے تجارت کا بڑا ذریعہ نہر سوئیز ہے۔

واضح رہے، یورپ ہمارا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے، یعنی ہماری کُل برآمدات کا 30سے 35فی صد کا تعلق یورپ سے ہے۔ بھارت، مشرقِ وسطیٰ، یورپ کوریڈور نے جہاں چین کے لیےچیلنجز پیدا کیے ہیں، وہیں یہ پاکستان سے بھی متوازن ڈپلومیسی کا مطالبہ کرتا ہے۔چین نے سی پیک شاہ راہیں اور گوادر پورٹ اِس لیے تعمیر کیں کہ مال کی ترسیل میں مرکزی کردار ادا کرے۔اِس ضمن میں بار بار وسط ایشیائی ممالک کو راہ داری فراہم کرنے کا ذکر آتا ہے۔ پاک، افغان سرحد کے ساتھ انڈسٹری کا فروغ اور سی پیک رُوٹ پر انڈسٹریل زونز کا بھی اِس معاملے سے گہرا تعلق ہے۔

تاہم، افغانستان کی موجودہ صُورتِ حال اور امریکی انخلا کے بعد اب پاک، افغان سرحد پر انڈسٹری کا خواب ادھورا رہ گیا ہے۔ اُدھر بھارت نے ایران اور افغانستان کے ساتھ مل کر چا بہار پورٹ کو ترقّی دی، جو گوادر کے بالکل سامنے ہے۔ اِسی بندرگاہ سے بھارت نے کابل تک شاہ راہ تعمیر کی ہے۔ہم اپنے اندرونی معاملات میں اتنے اُلجھے ہوئے ہیں کہ ان علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں سے متعلق سوچنے کی بھی فرصت نہیں، بس بیٹھے خیالی پلائو ہی پکاتے رہتے ہیں۔ ڈپلومیسی، خاص طور پر اقتصادی سفارت کاری کا تقاضا ہے کہ تمام ممالک سے تنازعات ختم کرکے اُن کے ساتھ چلا جائے، مگر ہماری اس طرف بالکل بھی توجّہ نہیں۔ 

جنہیں ماہرین کہا جاتا ہے، وہ ہمہ وقت بس جذبات ہی گرمانے میں لگے رہتے ہیں اور ایسے ایسے فرضی بلاکس کی پیش گوئی کرتے ہیں کہ جن کا دنیا میں تصوّر تک نہیں۔لیکن جب حقیقت سامنے آتی ہے (جیسے بھارت، مشرقِ وسطیٰ، یورپ معاہدہ، جس میں ہمارے قریب ترین دوست اور تجارتی پارٹنر شامل ہیں)،تو پھر سازشوں اور دوسروں کو الزامات دینے سے کام چلایا جاتا ہے۔یہ نہیں کہ عوام کو صاف اور سادہ الفاظ میں بتا دیا جائے کہ آج کی دنیا معیشت کی مضبوطی مانگتی ہے، جو یہ ہدف حاصل کر لے، تو سب اُس کے گرد گھومتے ہیں، وگرنہ اپنے بھی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔

سعودی عرب اور بھارت کی قربت نے نئے منصوبے کو ٹھوس شکل دینے میں بہت مدد دی اور ہم اِس امر کا ادراک ہی نہیں کرسکے کہ شہزادہ محمّد سعودی عرب کو بہت آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ ہمارے62فی صد نوجوان وہاں بہت کام آسکتے ہیں، اگر اُن کی سمت درست کر کے انھیں علاقائی اور اقتصادی امور کی اہمیت سمجھائی جاتی، تو آج اُن کی اتنی ڈیمانڈ ہوتی کہ سپلائی مشکل ہو جاتی۔

بہرحال، اِس معاہدے نے علاقائی سیاست کو ایک نئی سمت دی ہے۔ سب کو اچھی طرح سمجھ آگیا ہوگا کہ امریکا اور مغرب کہیں نہیں گئے بلکہ اب اُن کے پاس اسرائیل کے ساتھ ساتھ، بھارت اور عرب بھی ہیں اور اِس تناظر میں ہمارے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے کہ ہمیں اپنے ہم سایہ ممالک، خاص طور پر بھارت سے کیسے تعلقات رکھنے ہیں۔