پاکستان اور ترکیہ دو ایسے ممالک ہیں جن کے تعلقات تقسیمِ برصغیر سے پہلے کےہیں انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے سے قبل ہی سلطان محمود غزنوی نے سومنات پر حملے کرتے ہوئے ترکوں کیلئےہندوستان کے دروازے کھول دیے تھے اور پھر خاندان غلاماں، خلجی خاندان، تغلق خاندان اور مغلیہ سلطنت یہ تمام کے تمام حکمراں ترک ہی تھے اور اس دور میں ترکی زبان (تزکِ بابری سے لے کر اس دور کے تمام حکمرانوں کی جانب سے تحریر کردہ سوانح حیات چغتائےترکی زبان ہی میں تحریر شدہ ہیں)، استعمال کی جاتی تھی۔ یعنی دونوں ممالک کے تعلقات کی بنیاد مشترکہ مضبوط تاریخی، سیاسی اور ثقافتی اقدار پر مشتمل ہے۔ آرسی ڈی ہو، یا سینٹو (جو اب اپنا وجود کھو چکے ہیں) یا پھر اقتصادی تعاون تنظیم دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے چلے آرہے ہیں اور دنیا کیلئے مثال ہیں۔
اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم گزشتہ 75سال کے دوران بمشکل ایک بلین ڈالر کی حد عبور کر سکا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی صنعت میں تعاون مسلسل فروغ پا رہا ہے۔ کسی دور میں پاکستان کا دفاعی صنعت کے لحاظ سے پلڑا بھاری تھا لیکن موجود دور میں یہ پلڑا ترکیہ کی جانب جھک چکا ہے اور ترکیہ دفاعی صنعت میں دن دگنی را ت چوگنی ترقی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ترکیہ دفاعی صنعتی پیداوار اور قوت کے لحاظ سے اتنی سرعت سے ترقی کر رہا ہے کہ اب اس ملک کا موازنہ صرف اور صرف امریکہ، چین اور روس جیسے ممالک ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ ملک اب دفاعی قوت کے لحاظ سے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کو نہ صرف پیچھے چھوڑ چکا ہے بلکہ اب ان ممالک میں ترکیہ کی دفاعی صنعت کو لگام دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ترکیہ اب دِنوں ہی میں پانچویں بڑی دفاعی صنعت بن کر ابھرنے والا ہے۔
ترکیہ دفاعی صنعت کے لحاظ سے اتنی تیزی سے ترقی کر رہا کہ 2002ء میں دفاعی صنعت کے شعبے میں ترکیہ میں صرف 57کمپنیاں کام کر رہی تھیں جبکہ آج ان کی تعداد بڑھ کر 2ہزار 500ہو چکی ہے۔ ترکیہ نے 2022میں 4ارب 400ملین ڈالر کی دفاعی برآمدات کیں جو چند ایک یورپی ممالک کے سالانہ دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہیں جبکہ 2023میں زیر بحث اعداد و شمار 6بلین ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔ جب پاکستان کا قریبی دوست اور برادر ملک ترکیہ دفاعی صنعت میں مغربی ممالک کو پیچھے چھوڑ رہا ہے پاکستان نے ترکیہ کے ساتھ کئی مشترکہ دفاعی پروجیکٹ شروع کر رکھے ہیں۔ پاکستان کی ترکیہ کےتیار کردہ اسٹیلتھ جنگی طیارے کی مشترکہ طور پر تیاری کی بھی بات چیت چل رہی ہے اور اس بارے میں گزشتہ کالم میں تفصیلی معلومات فراہم کی تھیں لیکن آج پاکستان اور ترکیہ کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کردہ ملجم پروجیکٹ کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔
ملجم پروجیکٹ ترکیہ کا قومی بحری جنگی جہازوں کی تیاری کا منصوبہ ہے جسے ترک بحریہ کی نگرانی میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ ان جنگی جہازوں کو فوجی نگرانی، انٹیلیجنس مشنز، قبل از وقت وارننگ سسٹم، اینٹی سب میرین وار فیئر اور دیگر مشنز کیلئے استعمال کیا جائے گا۔
گزشتہ برس اگست میں اس منصوبے کے پہلے جنگی جہاز پی این ایس بابر کی افتتاحی تقریب استنبول میں منعقد ہوئی تھی جبکہ دوسرے جنگی جہاز پی این ایس بدر کا افتتاح مئی 2022 میں کراچی میں کیا گیا تھا۔ یہ جدید ترین جنگی جہاز پاکستان نیوی فلیٹ کیلئے ترکیہ کے اشتراک سے تعمیر کئےجا رہے ہیں اور یہ بحری جہاز پاکستان کی میری ٹائم سیکورٹی کی صلاحیت کو بڑھانے میں اہم ثابت ہوں گے۔ دراصل یہ منصوبہ ترکیہ اور پاکستان کی تاریخی دوستی اور برادرانہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔
جیسا کہ عرض کرچکا ہوں دونوں ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی ہمیشہ ہی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کا کھل کر ساتھ دیتے رہے ہیں، مسئلہ قبرص ہو یا ترکیہ میں دہشت گردی کے واقعات ، ترکیہ میں زلزلہ آئے یا پاکستان میں یا پھر مسئلہ کشمیر ہودونوں ممالک ایک دوسرے کا کھل کر ساتھ دیتے ہیں۔
پاکستان ترکیہ کے تیار کردہ ملجم بحری جنگی جہاز وہاں کے سرکاری دفاعی ٹھیکیدارکی جانب سے تیار کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے اس کے علاوہ۔ 30ٹی-129 ATAK ہیلی کاپٹر بھی خریدے ہیں اور اس وقت تک پاکستان ترکیہ سے تین ارب ڈالر مالیت کا دفاعی سازو سامان خرید چکا ہے۔ ترکیہ کی جانب سے تیار کئے جانے والے ملجم بحری جہاز کو پاک بحریہ میں کمیشن دینے کی تقریب گزشتہ ہفتے استنبول نیول شپ یارڈ میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں ترکیہ کے قومی وزیر دفاع یشار گیولر اور پاکستان کے نگراں وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) انور علی حیدر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ ترکیہ کے وزیر دفاع نے پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات کو مثالی قرار دیتے ہوئے مزید تعاون کے امکانات کا عزم کیا۔ انہوں نے استنبول نیول شپ یارڈ اور ترک فرم کی کوششوں اور قابل ذکر کاموں کو سراہا۔ پاکستان کے نگراں وزیر دفاع نے ملجم جہاز کے اس منصوبے کو کامیاب بنانے پر مبارکباد دی۔ پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل محمد امجد خان نیازی نے اس بات پر زور دیا کہ جدید ترین ہتھیاروں اور سینسرز سے لیس PN MILGEM جہاز خطے میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے دفاعی پیداوار بالخصوص میری ٹائم کے شعبہ میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ برادر ملک ترکیہ کے تعاون سے جدید جنگی جہازوں کی تعمیر دیکھ کر انہیں بہت خوشی ہوئی۔ پاکستان نیوی کیلئےتیار کئے جانے والے پی این ملجم کلاس جہاز، تکنیکی طور پر سب سے زیادہ جدید اور جدید ترین پلیٹ فارم ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)