محمد عبدالمتعالی نعمان
یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ سرور کائنات، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کی تشریف آوری اور بعثت سے قبل پوری انسانیت جہالت و گمراہی کی گھٹاٹوپ تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔کاروان زندگی اپنی راہ و منزل گم کرکے بھول بھلیوں میں سر گرداں تھا۔حیاتِ انسانی مجرموں، ظالموں اور استحصالی قوتوں کی محکوم و غلام تھی۔ کوئی نجات دہندہ، رہبر، فریاد رس و غم خوار نہ تھا۔
انسانی حیات کا وجود شرک و بت پرستی سے پارہ پارہ ہو چکا تھا، ہر گوشۂ حیات میں ابتری اور فساد برپا تھا۔ خوف و حزن کے سائے پھیل کر کل حیات انسانی پر محیط ہوچکے تھے۔روح انسانی ہی نہیں، بلکہ روح کائنات بھی مضطرب و پریشان تھی، کیوںکہ اسے اس نجات دہندہ کا انتظار تھا جسے خاتم النبیین، سید المرسلین رحمۃ للعالمینﷺ بن کر انسان ہی کے لیے نہیں، بلکہ تمام عالمین کے لیے مبعوث ہوکر ایسا انقلاب برپا کرنا اور مثالی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کرنا تھا، جس سے تمام بنی نوع انسان ابد تک مستفید ہوکر اپنے مسائل کا حل تلاش کرسکے۔ آپ ﷺسید المرسلین اور اعلیٰ و اکمل اوصاف حمیدہ سے آراستہ تھے۔
آپﷺ کی ہستی مبارک میں حسن صورت اور حسن سیرت کے تمام محامد و محاسن بدرجۂ اتم سمو دیے گئے تھے۔ اللہ رب العزت نے وہ تمام اوصاف اور کمالات جو آپﷺ سے پہلے انبیائے کرام ؑ کو عطا کیے گئے تھے ،وہ مجموعی طور پر آپﷺ کی ذات والا صفات میں جمع کردیے۔ خاتم النبیینﷺ حسن و جمال کا ظہور کامل اور آپﷺ کی ذات افضلیت و اکملیت کا معیار آخر ہے۔
حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
جس طرح نبی کریمﷺ، رحمۃ للعالمین حسن و جمال کا پیکر تھے اورزیبائی و رعنائی میں آپﷺ کا کوئی مثل نہ پہلے تھا اور نہ ابد تک ممکن ہے۔ اسی طرح آپﷺ کی سیرت اور اسوئہ حسنہ احسن ترین صورت میں چودہ سو سال سے جلوہ افروز ہے اور اس کی ضیا پاشیاں ابد تک جاری و ساری رہیں گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپﷺ کو رحمۃ للعالمین اور خاتم النبیین بنا کر اعلیٰ ترین اخلاق پر فائز فرمایا اور آپﷺ کے اسوئہ حسنہ کو تمام بنی نوع انسان کے لیے باعث رحمت و تقلید قرار دیا۔ آپﷺ کے اخلاق کریمہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک، آپﷺ اخلاق کے بلند مقام پر فائز ہیں۔‘‘ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی مبارک زندگی قرآن مجید کا عکس ہے۔
ام المومنین حضرت عاثشہ صدیقہؓ سے کسی نے نبی کریمﷺ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ؓ نے فرمایا: ’’کیا تم نے قرآن مجید نہیں پڑھا؟ آپﷺ کا اخلاق قرآن ہی تو ہے۔‘‘نبی رحمتﷺ نے فرمایا: ’’میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘آپﷺ نے فرمایا:’’تم میں بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔‘‘(بخاری و مسلم)
اس دنیا میں بہت سے ایسے انسان گزرے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی ایک یا ایک سے زائد شعبوں میں کمال حاصل کیا اور تاریخ ساز کار نامہ انجام دیا، لیکن زندگی کے کل ہی شعبوں میں حسین و ہمہ گیر انقلاب لانے اور عہد آفریں و تاریخ ساز مثبت تعمیری کارنامے انجام دینے والی صرف ایک ہی شخصیت ہے۔ رہبر کامل حضرت محمدﷺکی جن کے رشد و ہدایت اور رحمت و شفقت کا درخشاں آفتاب کبھی نہ غروب ہونے کے لیے ابھرا اور ابھرتا ہی چلا گیا، چڑھا اور چڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دین مبین یعنی اسلام اس کرئہ ارض پر سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے۔ بجا طور پر کہا گیا ہے…
ایک نام محمدؐ ہے جو بڑھ کر گھٹا نہیں
ورنہ ہر ایک عروج میں پنہاں زوال ہے
نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ ایک عظیم اور پاکیزہ انقلاب کی ایک مقدس بنیاد ہے،جس کی تاریخ انسانی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپﷺ نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود صرف تئیس سال میں زندگی کے ہر شعبے میں ایسا عہد آفریں ہمہ گیر و عالمگیر انقلاب برپا کیا کہ جہالت و تاریکیوں میں ڈوبی اور سسکتی انسانیت کی کایا پلٹ گئی جس کی نظیر تاریخ اقوام میں نہیں ملتی۔ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا ہے۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادی سینا!
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طٰہٰ
سید عرب و عجم حضرت محمدﷺتوحید کے سب سے بڑے داعی،انسانی حقوق کے سب سے بڑے علم بردار، محبت و شفقت اور عفو و درگزر کے مثالی پیکر، پاکیزہ تہذیب و تمدن و ثقافت کے بانی عظیم ترین سوشل ریفارمر سب سے بڑے مدبر و مفکر، رہبر اور دنیا کے کامل ترین انسان ہیں۔ سرکار دو عالمﷺ بیٹے کے روپ میں ہوں شوہر یا باپ کے، شہری ہوں ہمسائے ہوں یا دوست یا رشتے دار آپﷺ ایک مبلغ کی حیثیت میں ہوں یا جرنیل کی، ایک فاتح کی حیثیت میں ہوں یا حکمراں کی۔ زاہد کی حیثیت میں ہوں یا عابد کی، جج کی حیثیت میں ہوں یا طبیب کی ، ایک معلم کی حیثیت میں ہوں یا تاجر کی ایک رہبرکامل کی حیثیت میں ہوں یا ایک عظیم مصلح کے غرض یہ کہ تمام حیثیتوں میں آپﷺ کی ذات اقدس ہمہ جہت جامع الصفات عظیم ترین اور مثالی ہے۔
سلام اس پر لقب ہے رحمۃ للعالمین جس کا
سلام اس پر دو عالم میں کوئی ثانی نہیں جس کا
سلام اس پر جو باطل شکن بھی ہے حق نگر بھی ہے
سلام اس پر جو ممدوح رب، خیر البشر بھی ہے
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اپنی اطاعت کے ساتھ نبیﷺ کی اطاعت پر زور دیا ہے۔ یعنی اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خاتم النبیینﷺ کی دل و جان سے اطاعت و فرماں برداری کی جائے۔ بلا شبہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات رحیم و کریم کو روا ہیں اور اللہ رب العزت کے بعد جس ہستی کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی وہ عظیم ترین ہستی رحمۃ للعالمینﷺ کی ہے۔ارشادِ ربانی ہے ’’بے شک، ہم نے آپﷺ کو روشن فتح عطا کی۔ (الم نشرح)’’اور ہم نے آپ ﷺکے لیے آپﷺ کا ذکر بلندکیا۔‘‘’’بے شک، ہم نے آپ ﷺکو کوثر (خیر کثیر) عطا فرمائی ہے۔‘‘ (سورۃ الکوثر)
حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ سرکار دو عالم، امام الانبیاءﷺ کی مدحت و رفعت کا شاہد ہے۔ یہ رتبہ بلند کل کائنات میں آپﷺ کے سوا کسی اور کو نصیب ہوا اور نہ ہوگا۔ آپﷺ کے ذکر کے بغیر نہ اذان مکمل ہوتی ہے اور نہ نماز، قرآن پاک نے یہ اعلان کیا ہے کہ آپﷺ اس کائنات کے ’’سراج منیر‘‘ ہیں۔
سرکار دو عالم ﷺ کی سیرت طیبہ اور حیاتِ مطہرہ کا یہ تاریخی اور ابدی اعجاز ہے کہ آپ کی شخصی عظمت پر مسلم ہی نہیں ،دنیا کے مشاہیر اور غیر مسلم دانش ور بھی متفق ہیں۔ مغرب کے نامور دانش وروں نے آپ ﷺکے حضور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آپﷺ کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ مشہور ہندو شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کیا خوب کہتے ہیں۔
عشق ہو جائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
اور بقول شیش چندر سکسینہ
یہ ذاتِ مقدس تو ہر انسان کو ہے محبوب
مسلم ہی نہیں وابستہ دامان محمدؐ
عالمگیر، دائمی، کامل اور جامع نمونہ عمل صرف خاتم النبیین رحمۃ للعالمین کی سیرت طیبہ ہے۔ آپﷺ کی شخصیت بے حد عظیم، جامع ہے۔آپﷺ کی سیرت طیبہ پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں اور لکھی جائیں گی۔ زبان و قلم دونوں آپﷺ کے اوصافِ حمیدہ بیان کرتے رہیں گے اور آپﷺ کی سیرت طیبہ کے نئے نئے گوشوں کا سراغ ملتا رہے گا۔
دنیا اس سے مستفید ہوتی رہے گی، مگر یہ بھی ایک ابدی اور تاریخی حقیقت ہے کہ آپﷺ کی حیات پاک کے کسی ایک پہلو کا اجمالی احاطہ کرنا بھی آسان نہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہر ذی شعور بڑی عقیدت سے بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔
یا صاحب الجمال و یا سیّد البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقّہ
بعد از خدا بزرگ توئی، قصہ مختصر