تحریر: نرجس ملک
ماڈل: شمائلہ
ملبوسات: عرشمان بائے فیصل رضا
آرائش: SLEEK BY ANNIE
کوآرڈی نیشن: وسیم ملک
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
ارسطو نے کہا تھا "Personal beauty is a greater recommendation than any letter of reference" یعنی ’’انسان کی اپنی شخصیت(ذاتی حُسن) کسی بھی حوالہ جاتی خط سےکہیں بہتر سفارش ہے۔‘‘ اور بلاشبہ یہ سو فی صد حقیقت ہے۔ مانا کہ حُسن، اللہ کی دین ہے، لیکن اپنی شخصیت کی تعمیر، سنوار و نکھار خُود انسان کے اپنے اختیار، ہاتھ میں ہے۔ بہت سادہ، سَستے، عام سے پہناوے میں بھی، پوری محفل میں نمایاں، منفرد و ممیّز نظر آیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ ’’سیلف گرومنگ‘‘ پر بھرپور توجّہ دی گئی ہو۔ خُود کو اس انداز سے تعمیر کیا، بنایا سنوارا گیا ہو کہ ہستی اپنی ذات ہی میں مکمل نظر آئے، کسی خاص تزئین و آرایش، بنائو سنگھار کی محتاج ہی نہ ہو۔ خلیل جبران نے کہا تھا ناں کہ ’’اپنی ذات کو اپنے ہی آئینے میں دیکھنا خُوب صُورتی ہے۔‘‘ توضروری نہیں کہ اپنی ذات کو اپنے آئینے میں ہمیشہ چاہت و محبّت اور پسندیدگی ہی کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
خُود پسندی، خُود فریبی کا شکار ہوکر نرگسیت کی طرف مائل ہوا جائے۔ اپنے آئینے میں اپنی ہستی پر بہت کڑی، تنقیدی نگاہ بھی ڈالی جاسکتی ہے۔ اپنی خامیوں، کمیوں کو سدھارا، سنوارا بھی جا سکتا ہے۔ وہ کسی بزرگ کا قول ہے ناں کہ ’’خوبیاں تلاشنی ہیں، تو دوسروں میں تلاشیں اور خامیاں ڈھونڈنی ہیں، تو اپنے اندر غوطہ لگائیں۔‘‘ اور یہی ایک امر ہے، جو آپ کی شخصیت کو ایک روز اِک ایسے مقام پر لاکھڑا کرتا ہے کہ پھر آپ کی اپنی شخصیت، آپ کی سب سے بڑی سفارش بن جاتی ہے۔ ذاتی فائل ہی میں اتنی شان دار اسناد جمع ہو رہتی ہیں کہ پھر کسی تعارفی، حوالہ جاتی خط کی حاجت ہی نہیں رہتی۔
’’سیلف گرومنگ‘‘ میں حُسنِ سیرت کے ساتھ بول چال، نشست و برخاست اور پہننے اوڑھنے کا طریقہ سلیقہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سب یک جا ہوں، تب ہی تو کہا جاتا ہے کہ ؎ اے گُلِ رنگیں قبا، اے غازۂ رُوئے بہار..... تُو ہے خُود اپنے جمالِ حُسن کا آئینہ دار.....خاموشی تیری ادا ہے، سادگی فطرت میں ہے..... پھر بھی جو تیرا حریفِ حُسن ہے، حیرت میں ہے..... یہ ادائے سادگی، محبوبیت، معصومیت..... تُو رہِ ہستی میں کس انداز سے ہے گام زن..... تُو زمینِ رنگ و بُو، تُو آسمانِ رنگ و بُو..... مختصر یہ ہے کہ تُو ہے اِک جہانِ رنگ و بُو۔ اب ذرا ہماری آج کی بزم ملاحظہ فرمائیں۔ بہت سادگی میں بھی کتنی دل کشی و جاذبیت، سُندرتا اور جدّت و ندرت ہے۔
ذرا دیکھیے، ڈارک بلیو رنگ کے ساتھ گہرے سُرخ کا امتزاج کتنا منفرد اور بھلا لگ رہا ہے۔ جیٹ بلیک رنگ کے ساتھ سُرخ کا کامبی نیشن تو سدا بہار ہے، لیکن پِیچ دوپٹا الگ ہی بہار دِکھا رہا ہے۔ بلڈ ریڈ رنگ کے ساتھ فاختئی اور ایک دوسرے انداز میں سیاہ کا امتزاج ہے، تو فون رنگ کے ساتھ گلابی اور باٹل گرین کے ساتھ مٹیالے رنگ کی دل رُبا سی آمیزش کے بھی کیا ہی کہنے۔ تمام تر پہناوے کسی حد تک روایتی و ثقافتی سے انداز میں حسین و نفیس کڑھت سے مزیّن ہیں، تو اندازِ بناوٹ بھی اپنی خالص تہذیب و روایات کے عین مطابق قمیص، شلوار اور دوپٹّے کا رُوپ لیے ہوئے ہے۔
صحیح معنوں میں ’’سادگی میں پُرکاری‘‘ اِسے ہی کہتے ہیں۔ اور…حُسنِ سیرت کے ساتھ صُورت کچھ ایسی ہو، تو خُود اپنی بہترین سفارش ہی نہیں ہوتی، بلکہ بقول ندا فاضلی بات کچھ یوں بنتی ہے ؎ صُبح کی دُھوپ..... دُھلی شام کا رُوپ..... فاختائوں کی طرح سوچ میں ڈوبے تالاب..... اجنبی شہر کے آکاش..... اندھیروں کی کتاب..... پاٹھ شالا میں چہکتے ہوئے معصوم گلاب..... گھر کے آنگن کی مہک..... بہتے پانی کی کھنک..... سات رنگوں کی دھنک..... تم کو دیکھا تو نہیں ہے..... لیکن..... میری تنہائی میں..... یہ رنگ برنگ منظر..... جو بھی تصویر بناتے ہیں..... وہ…!! تم جیسی ہے۔