ن لیگ اور نواز شریف نے اُس بیانیے کو فوراً بدل دیا جواُن کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ کی طرف لے جا سکتا تھا۔
حال ہی میں میاں نواز شریف نے ایک ویڈیو خطاب میں اپنے پارٹی رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض، سابق چیف جسٹسز ثاقب نثار، آصف کھوسہ اور آئندہ سال اکتوبر میں بننے والے مستقبل کے چیف جسٹس اعجاز الاحسن کو 2017ء میں اپنی حکومت ختم کروانے کی سازش کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے اس بات کا ارادہ ظاہر کیا تھا کہ اب سب کا احتساب کیا جائے گا اور قوم کسی صورت اُن کو معاف نہیں کرے گی۔
میاں صاحب کے اس بیان کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ نواز شریف اور ن لیگ کا آئندہ انتخابات کے لیے بیانیہ ہو گا جس پر اس خطرے کا اظہار کیا گیا کہ ایسا بیانیہ نواز شریف کو فوج اور عدلیہ کے ساتھ ایک بار پھر ٹکراؤ کی طرف لے جائے گا۔
یہ بھی کہا گیا کہ اس بیانیے سے نواز شریف کی واپسی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کے اس بیان کے بعد شہباز شریف کے ذریعے اُن کو پیغام دیا گیا کہ اس بیانیے کو اپنانے سے گریز کریں۔
عمومی طور پر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ کو آئندہ انتخابات کیلئے طاقت ور حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔
بہر حال وجہ جو بھی ہوئی ن لیگ اور نواز شریف نے اپنا بیانیہ بدل لیا جس کا باقاعدہ اعلان دو دن قبل اسحاق ڈار نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
ڈار صاحب نے کہا کہ میاں صاحب، اُن سب کے احتساب کا معاملہ اپنے رب کے سپرد کر چکے ہیں، جنہوں نے اُن کے خلاف سازش کی اور اُن کی حکومت کو ختم کیا۔
ڈار صاحب نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف پاکستان کے موجودہ حالات میں پوری توجہ کے ساتھ ملک و قوم کے حالات بہتر بنانے کیلئے معاشی ایجنڈے پر فوکس کریں گے نہ کہ انتقام اور بدلے کی طرف۔
میاں نواز شریف نے کسی کے کہنے پر ایسا کیا یا خود سے ہی خیال آ گیا، دونوں صورتوں میں ن لیگ نے فوج اور عدلیہ سے ٹکراؤ کی پالیسی نہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
نواز شریف کے ویڈیو بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال میں اُن کی 21 اکتوبر کو واپسی کے پروگرام سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے، لیکن اب لگ ایسا رہا ہے کہ میاں صاحب پروگرام کے مطابق پاکستان واپس آ جائیں گے اور ن لیگ کو آئندہ انتخابات کیلئے الیکشن مہم میں لیڈ کریں گے۔
یعنی میاں صاحب جن کو ماضی میں سیاست سے آؤٹ کر دیا گیا تھا وہ سیاست میں دوبارہ اِن ہونے جا رہے ہیں۔
ایسے میں جب میاں صاحب سیاست میں اِن ہو رہے ہیں عمران خان سیاست سے آؤٹ ہو رہے ہیں۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان پہلے ہی الیکشن لڑنے کیلئے نااہل ہو چکے ہیں، جب کہ سائفر کیس میں پیش کیے گئے چالان میں چیئرمین تحریکِ انصاف کو ایف آئی اے قصور وار تصور کرتی ہے۔
سائفر کیس کے ساتھ ساتھ 9 مئی کے مقدمات عمران خان اور اُن کی سیاست کیلئے سنجیدہ خطرہ ہیں لیکن ان تمام تر خطرات کے باوجود خان صاحب اور تحریکِ انصاف کی طرف سے اُس فوج مخالف بیانیے اور 9 مئی کے واقعات کی مذمت اور اس ماضی سے دوری کیلئے کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ تحریکِ انصاف کی قیادت اداروں سے ٹکراؤ والی صورتِ حال کو ختم کرنے کیلئے اپنے ووٹرز، سپورٹرز اور سوشل میڈیا میں فوج مخالف بیانیے کے خلاف آواز اُٹھاتی، اُسے سختی سے رد کرتی اور ہر ایسے فرد (جو اپنے آپ کو تحریکِ انصاف سے جوڑتا ہے) سے لاتعلقی کا اظہار کرتی جو فوج اور اس کی قیادت کو بدنام کر رہا ہے، تاہم افسوس کہ نہ عمران خان ایسا کر رہے ہیں نہ ہی تحریکِ انصاف کی دوسری قیادت۔
ویسے تو خان صاحب اور تحریکِ انصاف کی بڑی خواہش ہے کہ فوج کے ساتھ اُن کے تعلقات بہتر ہوں لیکن ایسا اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ تحریکِ انصاف فوج مخالف بیانیے کو رد نہیں کرتی۔
یہ بنیادی نکتہ سمجھنے میں عمران خان کو کتنا وقت لگے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)