گزشتہ ماہ انڈیا میں منعقدہ جی 20کانفرنس میں امریکی صدر جوبائیڈن، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر ممالک کے سربراہوں نے ’’انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کاریڈور‘‘ کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔ بظاہر دکھایا جا رہا ہے کہ یہ منصوبہ چین کے منصوبوں کی افادیت و اہمیت کے ہم پلہ ہو گا۔ حقیقتاً دیکھا جائے تو یہ مودی اور جوبائیڈن کا محض سیاسی واویلا ہے۔ اس مجوزہ منصوبہ میں انڈیا، سعودی عرب، یو اے ای، یورپ، فرانس، اٹلی جرمنی اور امریکہ شامل ہیں۔ اس مجوزہ کوریڈور میں سمندری زمینی اور ریل ویز کے ذریعے ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کو منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس مجوزہ تجارتی روٹ کا آغاز انڈین شہر ممبئی کی بندرگاہ سے ہو گا جس کا پہلا پڑائو متحدہ عرب امارات ہو گا۔ جہاں سے تجارتی سامان ان لوڈ ہو کر ریل کے ذریعے یو اے ای، سعودی عرب اور اردن سے ہوتا ہوا اسرائیلی بندرگاہ حائفہ تک پہنچے گا۔ جہاں سے ایک بار پھرتجارتی سامان بحری جہازوں میں لوڈ ہو کر سمندری راستے سے یونان اٹلی اور جرمنی تک پہنچایا جائے گا۔ انڈیا اور یورپ میں ریل وے کا خاصا مربوط نظام موجود ہے جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں ابھی تک ریلوے نیٹ ورک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس معاہدے کے حوالے سے ہونے والے شور وغوغا سے ہٹ کر اگر حقیقی نتائج کے حوالے سے دیکھا جائے تو جغرافیائی لحاظ سے یہ منصوبہ کسی طرح بھی چین کے بی آر آئی کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ جغرافیائی لحاظ سے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے باوجود آج بھی روس رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ چین اور روس کو نظر انداز کر کے ایشیا اور یورپ کے مابین کوئی بھی منصوبہ عملی طور پر ناقابلِ تفہیم و ناقابلِ عمل ہو گا۔ جغرافیائی اہمیت کے حوالے سے پاکستان اور ایران جیسے اہم ممالک کو نظر انداز کرنا بھی اس منصوبے کے خام ہونے کی اہم ترین دلیل ہے۔ امریکہ، جسے بری طرح زوال کا سامنا ہے، کی چین کے مقابل پکائے گئے خیالی پلائو کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹتی نظر آ رہی ہے۔ انڈین خلائی مشن چندریان کے بعد جی ٹونٹی کانفرنس کے انعقاد اور ’’انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور‘‘ کے اعلان نے سیاسی اور معاشی بحران میں مبتلا پاکستانیوں کی مایوسی میں مزید اضافہ کیا۔ اس اعلان نے پاکستان کے عام شہریوں کو سی پیک اور بی آر آئی کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات کا شکار کیا ہے جبکہ تا حال امریکی منصوبے کے خدوخال اور بنیادی اصول و ضوابط ہی مبہم اور غیر واضح ہیں، جن کے باعث ان دونوں منصوبوں کا کسی طور تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ چین کا منصوبہ 2008میں آغاز پایا تھا۔ جس کے تحت بنیادی انفراسٹرکچر کے بیشتر منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ بی آر آئی منصوبے کے تحت چین خطے کے تمام اہم ممالک بنیادی ڈھانچے کے تعمیراتی بے شمار پروجیکٹس پر تیزی سے عمل پیرا ہیں۔ جبکہ آئی ایم ای سی 2023میں محض کاغذی کارروائی کے طور پرسامنے آیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور اسرائیل اس منصوبے میں بنیادی کرداروں کے حامل ہیں لیکن سعودی عرب، اردن اور اسرائیل کے مابین تاحال سفارتی تعلقات معمول پر نہیں آئے ہیں۔ اس منصوبے کی بنیادی فنڈنگ کے حوالے سے بھی تاحال کوئی واضح اشارہ یا لائحہِ عمل مرتب نہیں کیا گیا۔ ریل ویز اور شپنگ لائنز کے اس اتنے بڑے مجوزہ منصوبے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیرات کیلئے خطیر سرمایہ اور وقت درکار ہے۔ مفاہمتی یادداشت میں اس کے طریقہِ کار اور میجر فنانسرز کی عدم نشاندہی اس منصوبے کے غیر مؤثر ہونے کا ایک اور اہم ثبوت ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکی قومی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جنہیں بار بار ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ اتنے بڑے تعمیراتی منصوبے پر مسلسل بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ اتنی خطیر سرمایہ کاری کا بوجھ اٹھا سکے۔ 2022کے جی سیون اجلاس میں امریکہ نے مغربی ممالک سے مل کر ترقی پذیر ممالک میں بنیادی انفراسٹرکچرل منصوبوں میں 600ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جو محض اعلان سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ انڈیا اس سے پیشتر 2002میںNorth South Corridor بنانے کی ناکام کوشش کر چکا ہے جس میں اسے بری طرح خجالت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح یورپ اور ایشیا کو ملانےکیلئے1993میںTeraceca Corridorکا اعلان کیا گیا، جس میں یورپ کو ایشیا کے تیرہ ممالک سے جوڑنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ لیکن اس کا حشر بھی Trans-Caspian Corridor اور Northern Sea Route جیسا ہوا۔ یہ تمام منصوبے ہوائی فائر ثابت ہوئے۔ سمندر ی زمینی اور ریل ویزپر ڈوبتا ابھرتا غوطے کھاتا انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کاریڈور صرف ایک گیڈر بھبکی ہے۔ امریکہ میں ابھی تک ایک کلومیٹر ہائی اسپیڈ ریل ٹریک تک موجود نہیں جبکہ چینی کمپنیاں مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک میں سب ویز،لائٹ ریل اور پہلی تیز رفتار ریلوے کی تعمیر میں مصروفِ عمل ہیں۔ تجارت،توانائی ،مواصلات ،ٹیکنالوجی ،بنیادی ڈھانچے اور روڈ نیٹ ورکس کے حوالے سے پاکستان میں قائم ہونے والے بیشتر منصوبے اس امر کے گواہ ہیں کہ سی پیک اور بی آر آئی عملی منصوبے ہیں جن پر چین کی خطیر سرمایہ کاری اس کی سنجیدگی کا مظہر ہے۔ چین اور بھارت میں بنیادی فرق تجارتی مصنوعات کا بھی ہے۔ چین اس وقت عالمی منڈی میں ہر طرح کی کم قیمت مصنوعات سپلائی کر کے اپنی تجارتی برتری ثابت کر چکا ہے جبکہ بھارت کے پاس سوائے آئی ٹی کے شعبے کے کوئی ایسی پراڈکٹ نہیں جس کے بل پر وہ عالمی منڈیوں میں چین کا مقابلہ کر سکے ۔ بھارت اور امریکہ کی طرف سے چھوڑا گیا آئی ایم ای سی کا شوشا البتہ سی پیک اور بی آر آئی منصوبوں کی رفتار کو تیز کرنے کا باعث ضرور بنے گا، چین اس آفاقی منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنے کیلئے عملی اقدامات تیز تر کر دے گا ۔جو پاکستان کے معاشی سیاسی اور معاشرتی بحرانوں میں گھرے عوام کے دن بدلنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)